خواتین کی حکمرانی کے بارے میں حقائق حصّہ دوم

اس طرح عیسائی کاتب تقدیر بن چکے ہیں اور مسلمان جتنی بھی کوشش کر لیں وہ ان کو اس کام سے منع نہیں کر سکتے اور نا معزول کر سکتے ہیں کوئی کوشش کرے تو عورتوں کو بھڑکا دیتے ہیں اور سیوریج کا نظام جام کر دیتے ہیں اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیتے ہیں اور جو ان کو طاقت سے روکنے کی کوشش کرے گا اس کو بیرونی امداد سے محروم ہونا پڑے گا اور وہ پراکسی کا شکار ہوکر منظر سے ہٹ جانے پر مجبور کر دیا جائے گا اور اسے ناصرف منطر سے ہٹا دیا جاتا ہے بلکہ نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے - عورتوں کی حکمرانی کے بارے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ان موضوعات پر ہر سطح پر کوئی مضمون آن لائن ہی نہیں ہونے دیا جاتا اس لیے میں اگر لکھ رہا ہوں تو میڈیا میں اور کوئی ان موضوعات پر مواد موجود نہیں ہے اور مجھے اپنی بات سمجھانے کے لیے ا ب ت ث سے شروع کرنا ہوگا اور حکمران عمل درآمد میں جلد بازی سے کام لے کر میرا موضوع ٹھپّ نا کر دیں بلکہ میرے ساتھ رائٹرز ارینج کریں جو اس موضوع کو اللہ کے حکم کے مطابق عوام میں پاپولر کریں -

خواتین کی حکمرانی کے بارے میں ہمارے ملک میں جو موقف ہےوہ خلاف اسلام ہے ہمارے ملک میں خواتین کی حکمرانی کے بارے میں مرد عورتوں سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ٹاپک رائج کرنے کے لیے امریکی امداد ملتی ہے اور وسیع پیمانے پر ملتی ہے اور تعلیم میں سے جہاد کونکالنے کے بارے میں اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں مداخلت کرنے کے لیے جیسا کہ اسلام کا نفاذ کرنا یا جہاد کی تربیّت تمام بڑوں اور چھوٹوں اور امیروں غریبوں پر نافذ کرنا نماز زکواہ کا نظام نافذ کرنا اور اسی طرح کے تمام معاملات کو سپاری دے کر ناکام کر دیا جاتا ہے جس سے اسلام کو تقویت ملتی ہے ان کو نامینیٹ کرکے ون بائی ون سپاری دے کر ناکام کر دیا جاتا ہے وہ سپاری بھاری امداد کی صورت میں ہوتی ہے اور جتنی بھی امداد باہر ملکوں سے ملتی ہے وہ ساری عیسائی اپنے نام کر لیتے ہیں اور حسابات میں اس بات کا بینفٹ اپنے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر لیتے ہیں یعنی بیرونی امداد جس بھی معاملہ میں ملتی ہے اس کو غیر محسوس انداز سے عیسائی مشنریاں حاصل کر لیتی ہیں

اور مسلمان اعلٰی عہدے داروں اور حکمرانوں کو پروٹوکول دے دیا جاتا ہے ان کی تصاویر فرنٹ پیجز پر شائع کر دی جاتی ہیں ان کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ان کو ہر معاملے میں مرکزی حیثیت دی جاتی ہے افتتاح کے نام پر یا دوسری تقریبات میں ان کو مہمان خصوصی بنا کر بڑی عزّت اور پذیرائی دی جاتی ہے اور جو اہل اور حق دار ہوتے ہیں ان کو منطر سے ہی ہٹا دیا جاتا ہے اوریوں انتظامیہ میں عیسائی مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور عیسائی مشنریاں محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں اور پریکٹیکل ہی ان کی تعلیم اور پڑھائی ہے اور ان کو امریکہ اور برطانیہ سے ماہر استاد ٹریننگ دینے آتے ہیں عام لوگ نہیں جانتے کہ ایک لڑکا یا لڑکی انگریز ہوتا ہے اور دوسرا پاکستانی لڑکا یا لڑکی ہوتی ہے ہر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کئی دن اور کئی مہینے اور کئی سال تک کا وقت گزارتے ہیں اور اس دوران اندرون ملک اور بیرون ملک سیر وتفریح میں وقت گزارا جاتا ہے اور جلد ہی ہر دونوں ایک دوسرے کی بولی بآسانی سیکھ لیتے ہیں اور انگریز پنجابی فر فر ہو جاتے ہیں اور پاکستانی انگریزی فر فر ہوجاتے ہیں اور پندرہ بیس سال جو مسلمان تعلیم کی خاطر پیسے اور وقت کا ضیاع کرتے ہیں ان سے بہتر تعلیم یافتہ بن جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر کام میں پریکٹیکل پر یقین رکھتے

اور ایسے ہی وہ اکٹھے مزدوریاں بھی کرتے ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں مل جل کر کرتے ہیں ہوٹلوں میں فلموں میں ڈراموں میں کام کرتے ہیں اور ہر قسم کا فن دوستانہ ماحول بنا کر سیکھ لیتے ہیں اور پھر سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں جس ملک میں کام کرتےہیں جیسا دیس ویسا بھیس اپنا لیتے ہیں اور اس طرح امریکہ اور برطانیہ میں ہر ملکوں کی بولی بولی جاتی ہے اور وہاں ہر ملک کے باشندوں کو موسٹ ویلکم کیا جاتا ہے اور اس طرح سے تعلیم ان کے لیے ایک دلچسپ مشغلہ اور بجائے خرچے کے کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے اس فلسفے پر چار پانچ دہائیوں سے مشنریاں تیزی سے کام کر رہی ہیں اور ہر ملک اور ہر طبقہ کے لوگ ان سے دوستی لگانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ناگوار سے ناگوار کام بھی شرطیں لگا کر چٹکیوں میں کر لیتے ہیں اور دوسرے مذاہب والے دوستوں کا دل جیت لیتے ہیں اور ایک بڑا مقولہ ہے کہ اچھی بیوی وہ جو شوہر کا دل جیت لے اور یہ کافر اچھا بننے کے لیے ہر ایک کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کو تربیت ہی ایسی دی جاتی ہے اور وہ اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں کہ اچھا انسان وہ جو سب کا دل جیت لے اور اس طرح سے پڑھائی کے معاملے میں ان کو خرچ کی بجائے پرافٹ حاصل ہوتی ہے اور کسی کے آگے ان میں سے کسی کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور موجودہ سعودیہ میں ٹرمپ آمد میں بھی یہی ہوا کہ اس نے منٹوں میں عربوں کا دل جیت لیا ہے اور جنرل صاحب اور وزیر اعظم صاحب دیکھتے ہی رہ گیے ہیں کیونکہ ان کی ان بنیادوں پر دور دور تک تربیّت ہی نہیں کی گئی ہے- اور دیکھ لیں سب قارئین کہ وہ امریکی وقت آنے پر جنرل صاحب کا اور وزیر اعظم صاحب کا بھی چٹکیوں میں دل جیت لیں گے - اور وہ بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکیں گے یہ وہ اعلٰی اسلامی اخلاق ہیں جو انہوں نے اپنا لیے ہیں اور ان کو اپنے کلچر کو رائج العمل بنانے کے لیے استعمال کر کے اپنے کلچر کو پوری دنیا میں رائج کر چکے ہیں لیکن اگر یہ کافر اہل دل ہوتے انصاف پسند ہوتے تو اسلام کے اعلٰی اخلاق کو اسلامی کلچر کو رائج کرنے کے لیے ہی استعمال کرتے -

سب سے اہم بات یہ ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ والا محکمہ عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے اور پراپرٹی دستاویزات کا محکمہ اور بینک کاری کا محکمہ ان لوگوں نے سنبھال رکھا ہے اور مرزائی ان کے شاگردوں کی طرح کام کرے ہیں اور جو معاملات ان کے ہمارے ملک میں ہیں دوسرے اسلامی یا غیر اسلامی ممالک میں بھی اسی طرح ہیں اور اس طرح دنیا بھر کے حسابات انتظامیہ ان کی ہے لیکن یہ کلرک اور چپراسی اور معمولی ملازم بن کر ان محکموں پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیں لیکن ان کے کام کا طریقہ امریکہ برطانیہ میں مقرر کیا جاتا ہے اور افسروں اور حکمرانوں کو خدمت گار بن کر ان کو پروٹوکول دئے رکھتے ہیں-

مرکزی کردار عیسایوں کا ہوتا ہے اور مرزائیوں کو باقی تمام قوموں پر زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ امریکہ اوربرطانیہ کے مرزائیوں کے ساتھ معاہدے ہیں کہ ہم تمھیں ہر ملک میں اپنے ساتھ رکھیں گے اور برابری پر یا دوسرے نمر پر اپنی نوازشات تم پر کرتے رہیں گے حالانکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ عیسائیوں کو اپنا حساب کتاب نا سونپو اور اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے کا حق ان کو نا دو اور حساب و کتاب کے لیے عیسائیوں اور دوسرے کافروں اور غیر مسلموں کو مقرر نا کرو مگر ہمارے ملک میں حسابات عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں کون پیدا ہوتا ہے کون مرتا ہے کون بیرون ملک جاتا ہے کون نقل مکانی کرتا ہے اور کون کیا کاروبار کرتا ہے ان باتوں کے سارے حسابات عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے اور حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے تو صرف یہ کہ سب اچھا ہے ایسا کر لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا اور جو برا ہورہا ہے ہمارا مشورہ نا مان کر برا ہو رہا ہے -

اس طرح عیسائی کاتب تقدیر بن چکے ہیں اور مسلمان جتنی بھی کوشش کر لیں وہ ان کو اس کام سے منع نہیں کر سکتے اور نا معزول کر سکتے ہیں کوئی کوشش کرے تو عورتوں کو بھڑکا دیتے ہیں اور سیوریج کا نظام جام کر دیتے ہیں اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیتے ہیں اور جو ان کو طاقت سے روکنے کی کوشش کرے گا اس کو بیرونی امداد سے محروم ہونا پڑے گا اور وہ پراکسی کا شکار ہوکر منظر سے ہٹ جانے پر مجبور کر دیا جائے گا اور اسے ناصرف منطر سے ہٹا دیا جاتا ہے بلکہ نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے - عورتوں کی حکمرانی کے بارے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ان موضوعات پر ہر سطح پر کوئی مضمون آن لائن ہی نہیں ہونے دیا جاتا اس لیے میں اگر لکھ رہا ہوں تو میڈیا میں اور کوئی ان موضوعات پر مواد موجود نہیں ہے اور مجھے اپنی بات سمجھانے کے لیے ا ب ت ث سے شروع کرنا ہوگا اور حکمران عمل درآمد میں جلد بازی سے کام لے کر میرا موضوع ٹھپّ نا کر دیں بلکہ میرے ساتھ رائٹرز ارینج کریں جو اس موضوع کو اللہ کے حکم کے مطابق عوام میں پاپولر کریں -

تفصیل سے لکھنے میں بحر حال وقت تو لگے گا لیکن پاکستان انٹیلی جنس سے میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس فیلڈ میں موقع نہیں دیا جارہا ہے اور میری ہر لحاظ سے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اس لیے میری مدد کریں اور اگر میں مر مرا جاوں تو میری اس کاوش کو جاری رکھا جائے اس کام میں تو معاوضہ نہیں دے سکتا لیکن اللہ پاک ضرور حق کا ساتھ دینے والوں کو دنیا و آخرت میں سرخ رو فرمائے گا سب سے بڑھ کر یہ کہ ان قوّتوں کا مقابلہ کرنا اور ہر میدان میں مقابلہ کرنا سب اہل اسلام پر فرض ہے اللہ سب مسلمانوں کو اس بات کی توفیق دے تفصیل سے لکھنے میں بحر حال وقت تو لگے گا لیکن پاکستان انٹیلی جنس سے میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس فیلڈ میں موقع نہیں دیا جارہا ہے اور میری ہر لحاظ سے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اس لیے میری مدد کریں اور اگر میں مر مرا جاوں تو میری اس کاوش کو جاری رکھا جائے اس کام میں تو معاوضہ نہیں دے سکتا

لیکن اللہ پاک ضرور حق کا ساتھ دینے والوں کو دنیا و آخرت میں سرخ رو فرمائے گا سب سے بڑھ کر یہ کہ ان قوّتوں کا مقابلہ کرنا اور ہر میدان میں مقابلہ کرنا سب اہل اسلام پر فرض ہے اللہ سب مسلمانوں کو اس بات کی توفیق دے لوگ ایسے موجوعات پر توجّہ نہیں دیتے کیونکہ یہ موضوعات بور لگتے ہیں کیونکہ دوسرے موضوعات جو اسلام مخالف اور پاکستان مخالف ہیں ان کو دلچسپ انداز میں ناچ گانے اور فلموں ڈراموں کے ذریعہ سے عوام کے ذہنوں میں اتارا جاتا ہے اس کام کے لیے بڑے بڑے اور ذہین اداکاروں کو بھاری معاوضہ دے کر مقرر کیا جاتا ہے اور نیوز چینلز والوں کو بھی بھاری رقومات دی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے کاروبار کو اور زیادہ تیزی سے عام کرتے ہیں اور اسلام اور اہل اسلام کو انتہا پسند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمان تو صرف دہشت گردی انتہا پسندی اور پرانے خیالات کے پیروکار ہیں ---------- جاری ہے

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 138786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.