بڑے صاف اور واضح الفاظ میں حکم ہوا ’’ کوئی بھی گائے ذبح
کر دومصیبت حل ہو جائے گی‘‘ پھر سوال ہواکہ وہ کیسی ہے؟حکم ہوا،’’وہ ایک
گائے ہے، نہ بوڑھی ہے اور نہ جوان ،درمیانی ہے بس تم کر گزرو،جس کا تمہیں
حکم دیا گیا ہے‘‘۔حکم واضح تھا،لیکن پھر سوال ہوا۔اُس کا رنگ کیسا ہوگا؟حکم
ہوا’’ وہ گائے زرد ہے اس کا رنگ گہرا ہے،دیکھنے والوں کو بھاتی ہے۔‘‘ مزید
سوال کی گنجائش ختم ہو چکی تھی۔لیکن پھر سوال ہوا’’ ابھی بات واضح نہیں
ہوئی تھوڑی اور تفصیل گائے کے بارے ،حکم ہوا ’’ وہ گائے نہ تو ہل چلاتی ہے
جس سے زمین جوتی جائے اور نہ اس سے زراعت وآبپاشی کی جائے ،سالم ہو اور اس
میں کوئی داغ نہ ہو۔‘‘
سوال ختم اور تلاش شروع ہوگئی،دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے
گئے۔لیکن ان تمام صفات کی حامل گائے ان کیلئے نادر ہوگئی۔ان کو بڑی شدت سے
اپنے سوالوں کی زیادتی کا احساس ہونے لگا،وہ ایسی دلدل میں پھنس چکے تھے
جسے انہوں نے خودتیار کیا تھا ۔پھر وہ تھک ہار کر اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے
۔انہیں زیادہ سوال کرنے کا انجام معلوم ہو چکا تھا پھر اﷲ کا کرم ہوا اور
انہیں وہ گائے ایک یتیم کے ہاں سے مل گئی ،جسے منہ مانگی قیمت پر خریدا گیا
اور ان کا کام ہوگیا۔
عمران خان صاحب کو اﷲ نے بہت سے کمالات سے نوازرکھا ہے۔ان میں سے ایک کمال
یہ بھی ہے کہ جناب سوال کرنے میں خود کفیل ہیں ۔پاکستان کے ہر ادارے ہر خاص
شخصیت کے بارے میں ان کے پاس بہت سے سوالات ہیں جو وہ وقتا فوقتا کرتے رہتے
ہیں۔وہ سوالات کا ایسا جال بن چکے ہیں ،جس میں وہ خود بھی پھنسنے والے ہیں۔
عمران خان صاحب سپورٹس کے شعبے سے ہیں اور حیرت کی بات ہے جب یہ اپنے
مخالفین کو مخاطب کرتے ہیں یا کسی کے بارے میں کوئی بیان دیتے ہیں تو
سپورٹس مین شپ اور عمران خان صاحب دونوں میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا
ہے۔جناب کی زندگی کا اولین اور آخری مقصد صرف وزیراعظم بننا ہے اور پچھلے
چار سال سے ان کا ٹارگٹ بھی صرف وزیر اعظم ہی ہے۔ملکی حالات سے انہیں ذرا
بھی دلچسپی نہیں ہے۔عجیب بات ہے کوئی پارٹی جب حکومت میں ہوتی ہے تو بہت سے
غلط فیصلوں اور بہت سی سنگین غلطیاں کرنے کے بعد جب اپوزیشن میں آتی ہے تو
خود کو دودھ سے دھلا ہوا اور حکومتی جماعت کو گناہوں سے ڈوبا ہوا سمجھنا
شروع کر دیتی ہے۔اپوزیشن میں آتے ہی یہ مومنین ،صالحین اور مظلوم بن جاتے
ہیں اور حکومت ظالم۔ایسا ہی کچھ حال پیپلز پارٹی کا ہے ،پیپلز پارٹی کا دور
پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے۔اور آج یہ پتہ نہیں کس منہ سے حکومت
کے خلاف باتیں کر رہے ہیں ۔دو باتیں ہیں یا تو ان کی اپنی یاداشت بہت کمزور
ہے یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی یاداشت انتہائی ناقص
ہے۔پاکستان کی بدقسمتی ہے اسے ہمیشہ تخریبی اپوزیشن ملی،تعمیر ی اپوزیشن
نہیں۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا حکومت کو کام کرنے دیا جاتا اور ان کے ہر کام
کی سخت سے سخت نگرانی کی جاتی اوران کے ناک میں دم کر کے رکھ دیا جاتا ۔ملکی
مفادات پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ ہوتا بلکہ ملکی مفادات اور عوام کو
سہولیات دینے میں حکومت کو مفید مشورے دیے جاتے ۔عمران خان صاحب کے پی کے
میں ہنگامی بنیادوں پر صوبے کی ترقی پر لگ جاتے اور پیپلز پارٹی سند ھ میں
۔لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا ہمارے ہاں صرف کرسی کی اپوزیشن ہوتی ہے
۔حکومت گرانے کی اپوزیشن ہوتی ہے۔چاہے وہ کوئی بھی پارٹی ہو۔ |