پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں بہترین کاروبار

پاکستان میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو ایک لمحے کے لئے آپ کی آنکھیں ضرور نم ہوں گی چاہے آپ کتنے ہی مضبوط اور سخت جان کیوں نہ ہوں۔ پاکستان کی تاریخ کے اس بدترین سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہی اور اس کی زد میں آنے والے غریب اور مجبور چہروں پر عجب قسم کی معصومیت سجائے بچے کچھ لمحوں کے لئے تو آپ کے دل میں نرمی لانے کا سبب اور آپ کو اِن کے لئے کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ملک کا تین چوتھائی حصہ سیلاب کی لپیٹ میں ہے، ہزاروں عورتیں، بچے ، بوڑھے اور مرد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لاکھوں گھر مکمل طور پر تباہ اور ہزاروں دیہات پانی کے تھپیڑوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس کی تند لہروں کی نذر تو ہو ہی گئے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس سیلاب نے ملک کی معاشی حالت کو بری طرح متاثر کیا۔ دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں مگر ملک کے بعض حصے ایسے بھی ہیں جہاں پانی کی بے رحم موجوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ قومی سطح پر اس سے قبل 2005ء کے ہولناک زلزلے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور تب بھی ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی اموات ہوئیں، کئی لاکھ گھر مٹی کا ڈھیر بن گئے اور شہر کے شہر زمیں بوس ہوگئے۔ اس وقت ریسکیو کا عمل ایک ماہ سے کم مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا تھا۔ مکمل ریلیف کے لئے تو ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اور یقیناً متاثرین زلزلہ پہلے کی طرح تو زندگی نہیں گزار رہے ہوں گے لیکن اس بات کا یقین ہے کہ وہ زندگی کی ڈگر پر چل پڑے ہوں گے۔ " اللہ کا خاص کرم "ہے اس قوم پر کہ قدرتی آفات اور ’مین میڈ آفات‘ کا سامنا کرنے میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔ ہم مصائب و مشکلات میں اتنے خود کفیل اور اس کے اتنے عادی ہیں کہ اگر خدانخواستہ ذرا سے بھی حالات ٹھیک ہونے لگیں تو ہم انہیں بگاڑنے میں ایک لمحے کی بھی کوتاہی نہیں کرتے اور پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے بحران پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے لگتے ہیں۔ ملک میں آئے روز پیدا ہونے والے بحران اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مالی طور پر ملک کی معیشت بری طرح لڑکھڑا رہی ہے۔ کاروباری طبقہ پیدا شدہ بحرانوں سے تنگ آ کر اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں منتقل کر رہا ہے تو چند ایک تو اس ملک سے ہی ہجرت کرتے جا رہے ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر اگر ہم کینیڈا، برطانیہ اور یورپ کے سفارتخانوں میں پڑی اِن درخواستوں کا جائزہ لیں جو ہمارے ملک کے پروفیشنلز نے جمع کرائی ہوئی ہیں تو اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور کیوں نہ ہو ۔۔۔ اُن کو اِس پیارے پاکستان میں اپنا مستقبل ہی تاریک نظر آتا ہے ۔ کم و بیش ہر شخص ہی ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت ، بے روزگاری اور وسائل کی کمی کے باعث فرسٹریشن کا شکار ہے۔ صحت کی عدم سہولیات ، طبقاتی نظام تعلیم کے فروغ، ’نہ ملنے والی یوٹیلٹیز‘ کے بلوں کی بھرمار اور درجنوں ٹیکسوں کی لوٹ مار نے نہ صرف دن بدن ’پھیلتے‘پسماندہ طبقے کو بلکہ اِس ٹوٹے پھوٹے معاشرے کو بھی اندھی کھائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ دوسری طرف سیاستدانوں اور حکمران طبقے کی عیاشیوں ، حرس و ہوس ِزر کی لعنت نے معاشرے میں خود کشیوں اور مایوسیوں کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والوں کے گراف میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر حالات کا جائزہ بغور نہ بھی لیا جائے تو آسانی سے پتہ چلتا ہے کہ پیارے پاکستان میں وسائل کم ۔۔۔مسائل میں اضافہ ، ایمانداری کم۔۔۔کرپشن میں اضافہ ، امن کم اور بدامنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ جس چیز نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہ ہے ہمارے سیاستدانوں کے اثاثے ۔ پلڈاٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سال 2003ء سے لے کر سال 2008-09تک ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے اثاثوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی ایک ایسا پارلیمنٹیرین ہو جس کے اثاثوں میں کمی ہوئی ہو۔۔۔ اور کمی ہو بھی کیسے؟۔۔۔ ہمارے حکمران تو ’کاروبار سیاست ‘ سے منسلک ہیں جس میں ہارنے اور اقتدار کے گلی کوچوں سے باہر رہنے کے باوجود بھی خسارے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1982ء میں ایک برطانوی اخبار نے پاکستانی سیاست کے بارے میں کیا خوب کڑوا سچ لکھا تھا کہ ، ’پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار سیاست ہے‘۔ مذکورہ رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی حکمران اور سیاستدان انتہائی کامیابی کے ساتھ منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں۔ میں اپنی اور قوم کی جانب سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ’منافع بخش کاروبار‘ کامیابی سے چلانے پر سلام پیش کرتا ہوں اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ماسوائے اُس کے جو ’ہم نہیں کرتے‘۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.