میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔

میں نے ابھی ٹی وی کا سوئچ آن ہی کیا تھا کہ آگے بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ ایک ”محب وطن “قوم سے خطاب کرنے والے ہیں۔ میں بڑے انہماک کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا کہ دیکھیں ”محب وطن صاحب “ کیا ارشاد فرما کر ہمارے دلوں کو راحت پہنچاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد قومی ترانے کے بعد ”محبِ وطن جرنیل“فوجی وردی میں ملبوس ”معصوم چہرے اور کرخت لہجے“ میں قوم سے خطاب فرمانے لگے۔ اُنہوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ من و عن آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اُنہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا تو جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔ میں ایسے وقت میں آپ سے مخاطب ہوں جب پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور لاکھوں غریب لوگ گھر بار مال و متاع سمیت اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ ان لاکھوں غریب لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھروں کو ڈوبتے اور اپنے پیاروں کو پانی کی بے رحم موجوں میں بہتے دیکھا ہے اور بے بسی کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر پائے۔ حکومت جس نے سیلاب متاثرین کی بحالی اور دلجوئی کرنی تھی وہ اپنی ذمہ داریوں سے ناصرف عہدہ براہ نہیں ہو پائی بلکہ اس موقع پر سیاسی رہنماﺅں نے بھی لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے سیاسی تماشا اور میلہ لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔ سیاست کو تو خدمت اور عبادت کہا جاتا ہے مگر پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر سیاسی جماعتیں اور سیاستدان جمہوریت کا راگ تو بہت الاپتی ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ نہ تو ان کی اپنی پارٹیوں میں جمہوریت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے رویے جمہوری ہوتے ہیں اگر ایک پارٹی اقتدار میں آ جاتی ہے تو دوسری جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لئے تمام اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر طرح کا کھیل تماشہ شروع کر دیتی ہے۔ میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔ ملک میں ایک طرف تو سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری طرف ملک دشمن طاقتوں کے ایجنٹ اور آلہ کار تخریب کاری دہشت گردی اور بربریت کے ذریعے معصوم لوگوں اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سینکڑوں لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ عصبیت اور دہشت گردی بھی زور پکڑ رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں فوجی جوان دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے خلاف پوری جرات اور جوانمردی سے لڑ رہے ہیں اور اپنے آج کو پاکستان اور پاکستانی قوم کے کل پر قربان کر رہے ہیں۔ سرحدوں کی حفاظت کرنا فوج کا فریضہ تو ہے ہی اور فوج پوری تندہی کے ساتھ اپنے اس فرض کو پورا کر رہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ فوج نے ہر موقع پر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی اس انداز سے مدد کی ہے کہ پوری قوم نے فوجی کردار کو ہمیشہ تحسین کی نظروں سے دیکھا ہے۔ میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔ آپ سیلاب کو ہی لے لیں یہ قدرتی آفت تو تھی ہی مگر اس کے ساتھ ہمارے ملک کے جاگیر داروں اور وڈیروں نے جو ملکی سیاست میں اہم کردار رکھنے اور اسمبلیوں میں غریبوں کا دم بھرتے ہیں، اپنی زمینوں کو بچانے کے لئے دریاﺅں کے بند توڑ کر پانی کا رخ اُن بستیوں کی طرف موڑ دیا جہاں کے باسیوں کے پاس پینے کاصاف پانی تو درکنار ڈاکٹر جیسی کوئی طبی سہولت یا پھر ایسی ہی کوئی دوسری بنیادی ضرورت تک دستیاب نہیں۔اور تو اور ان وڈیروں نے نہ صرف اُن کے سر وںسے سائبان چھین لیے بلکہ تف ہے ان پر کہ یہ اُن کے دکھوں کا مداوا مگرمچھ کے آنسو بہا کر کرتے نظر آتے ہیں اور وہ بھی صرف ٹی وی پر۔۔۔ میرے عزیزہم وطنوں۔۔۔ صورتحال یہاں تک ہی بگڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی کرپشن نے تو سابقہ ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں۔ حالا ت اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ پاکستان میں تاریخ کی بدترین تباہی ہوئی ہے کروڑوں لوگ براہ راست اور پو را ملک بلواسطہ متاثر ہوا ہے مگر سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اس دیدہ دلیری کے ساتھ کرپشن کی ہے کہ عالمی برادری حکمرانوں کی وساطت سے مصیبت زدہ پاکستانیوں کی مدد سے کھلم کھلا انکاری ہے۔ سیاستدان اور حکمرانوں کی کرپشن نے پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے دھونس، دھاندلی، اقرباپروری، کرپشن، لوٹ مار اور قومی دولت کو لوٹنا سیاستدانوں اور حکمرانوں کے نزدیک ایک فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ میرے عزیزہم وطنوں۔۔۔ پاکستان میں اس وقت جو نظام رائج ہے وہ انتہائی بدبو دار بوسیدہ ، گلا سڑا اور تعفن زدہ ہے جسے ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت قرار دیتی ہیں مگر یہ قطی طور پر طے ہے جسے ہمارے سیاستدان جمہوریت قرار دیتے ہیں اسے جمہوریت قرار دینا جمہوریت کی توہین ہے اس سے پہلے ملک میں کئی مرتبہ فوجی جرنیلوں نے اس گندے نظام کی بساط لپیٹ کر اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر ہر مرتبہ یہ تبدیلی صرف چہروں تک ہی محدود رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ گزشتہ ادوار مین بعض جرنیل "دانستہ یانادانستہ"قومی مفادات کی بجائے کرپٹ اور لٹیرے سیاست دانوں کو اپنے گرد جمع کر کے اپنے اقتدار کو طول دیتے رہے ہیں اور اُن کے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔ ملک کی سرحدوں کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ غیر ملکی طاقتیں ملک میں تخریب کاری کی وارداتوں میں پوری طرح ملوث ہیں۔ داخلی سطح پر عوام کا جو حال ہے اس نے مکمل طور پر قوم کو بدحال کر دیا ہے۔ بجلی کا بحران، مہنگائی کاطوفان ، قومی املاک کا نقصان ، حکمرانوں اور سیاستدانوں کی عیش و عشرت اور عیاشیوں کا سامان اس تیزی کے ساتھ ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کہ اگر اب بھی "محب وطن قوتوں "نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ میں آپ کی توجہ ایک مرتبہ پھر سیلاب کی بربادی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں ابھی تو پانی کی جولانیوں میں شدت برقرار ہے اور کئی ایک شہر اور دیہات سیلاب کی زد میں ہیں حکومت کی طرف سے بحالی کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ابھی تو سیلاب کا پانی بھی نہیں اترا اور حکمرانوں نے عزت مندانہ انداز میں متاثرین کو زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹانے کے بجائے انہیں بھکاری بنا دیاہے۔ یہ سب اس بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کا نتیجہ ہے کہ ملک تباہی کے دہانے پر آن پہنچا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوم تبدیلی چاہتی ہے اور اب کے بار تبدیلی چہروں تک محدود رہی تو پھر اس ملک کی سالمیت کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ۔ اب قوم نے بھی ذاتی مفادات کے اسیروں ، کرپشن کے شہنشاہوں اور قومی دولت کو شیر مادر کی طرف ہڑپ کرنے والے لٹیروں جنہوں نے قوم کی رہنمائی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے پہچا ن لیا ہے بلکہ قوم اب ان سے نجات کی متمنی ہے۔ قوم کی خواہشات ا ور جذبات کی قدر کرتے ہوئے محب وطن جرنیلوں نے ملک و ملت کی تقدیر بدلنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہما رے اس خطاب کے بعد قوم مکمل یکسوئی کے ساتھ نظام بدلنے کے لئے اپنے فوجی بھائیوں کا مکمل ساتھ دے گی اور ہماری اس جدوجہد کی راہ میں روڑے اٹکانے اور مزاحمت کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دے گی ۔ اس مختصر خطاب کے چند روز بعد ہم ایک مرتبہ پھر آپ کی خدمت میں نظام بدلنے کا خاکہ لے کر حاضر ہوں گے۔ اس وقت تک ہمارا اور آپ کا اللہ حامی و ناصر ہو۔ پاکستان پائندہ باد ابھی میں ”محب وطن جرنیل“ کے خطیبانہ سحر سے نکل بھی نہ پایا تھا اور نیوز اینکرز نے مذکورہ خطاب پر تبصرے اور تجزیے لینے بھی شروع نہ کئے تھے کہ اچانک ٹی وی آف ہو گیا ۔ کیبل کو ہلا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ لائٹ چلی گئی ہے۔ میں تلملا کر رہ گیا کہ کم بخت بجلی کو بھی ابھی جانا تھا ۔ خیر بجلی تو بجلی ہے اس کی آنکھ مچولی تو چلتی رہتی ہے مگر بجلی جانے کی وجہ سے جب پنکھا بند ہوا تو حبس اور گرمی کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور میں ہڑبڑا کر اٹھا تو ”محب وطن جرنیل“ کے بارے معلوم ہوا کہ وہ تو خواب میں تقریر کر گئے۔ اللہ خیر اور بھلا کرے اس جرنیل کا جو روز ایک ہی تقریر میرے خوابوں میں آ کر کرتے ہیں ۔ یہ کوئی بدشگونی کی بات ہے یا پھر ۔۔۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.