انصاف لانڈری ۔۔۔۔۔

پاکستانی سیاستدان اس کبوتر کی مانند ہے جو دانہ دنکا دیکھ کر نت چھتری بدلتا ہے ۔

پاکستان کے معروضی حالات بڑی برق روی سے تبدیل ہورہے ہیں جہاں بنی شریف کی شرافت کا بھانڈا بیچ چوراے کے پھوٹ چکا ہے وہاں دوسری جانب آل زرداری بھی مسلسل زوال پذیر ہے ۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے زرداری صاحب نے اپنے ہی لشکر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہو ۔ شرفاء نان ایشو کو ایشو بنا کر مظلومیت کا آخری پتہ کھیل چکے ہیں ۔ بنی شریف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز اہل قلم اک الگ ہی داستان رنج والم بیان کررہے ہیں ۔ مثال کے طور بر جناب جاوید چوہدری صاحب کے دادا مرشد جناب محقق دوراں قبلہ قاسمی صاحب کو یہ دکھ کھائے جارہا ہے کہ حسین نواز کو روزے کی حالت میں کئی کئی گھنٹے انتظار کروایا جاتا ہے ۔ اہل دانش کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ آپ کو شائد یاد ہو کہ نہ یاد ہو پر مجھے یاد ہے ذرہ ذرہ ، قبلہ قاسمی صاحب کی دو نسلوں کے مرید جناب جاوید چوھدری صاحب نے پورا ایک کالم حسین نواز کے تقوے پر لکھا تھا کہ حسین نواز ہمیشہ باوضو رہتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے ۔ آل شریف کے جھوٹے اور سچے ہونے کا فیصلہ آپ خود کریں اور ان دانشوروں کی دانش کا ماتم کریں کہ انھیں وضو اور روزہ بھی حسین نواز کا ہی نظر آتا ہے ۔ انھیں لاکھوں وہ روزہ دار کیوں نظر نہیں آتے جو بنو شریف کی حکومت میں کیڑے مکوڑوں کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ قاسمی صاحب کی خدمت میں گذارش ہے کہ جو سلوک حسین نواز کے ساتھ برتا جارہا ہےوہی سلوک عام پاکستانی کے ساتھ بھی برتا جانا چاہئیے آپ بنو شریف سے کہہ کر یہ ایک کام کروا دیں ہم آپ کی حکومت سے اور کچھ نہیں مانگتے ۔ آپکو حسین نواز کا انتظار کرنا گوارا نہیں جبکہ پوری قوم تذلیل کے پل صراط سے روزانہ گذرتی ہے ۔ بنو شریف کی حکومت کے کسی محکمے میں چلے جاؤ انسانیت تمھیں سسکتی دکھائی دے گی ۔ اہل دانش کی نظر میں سارے انسانی و اخلاقی حقوق صرف اشرافیہ کے لئیے ہی کیوں ہیں ؟ عام غریب آدمی کے لئیے انسانی حقوق مانگتے میں نے کسی نیم دانشور کو نہیں دیکھا۔

پاکستان میں کئی دہائیوں سے دو پارٹیوں نے باریاں لگا رکھی تھیں تحریک انصاف کا وجود اک تازہ ہوا کا جھونکا تھا مگر اس تازہ ہوا کو زہر آلود ہوتا ہوا میں دیکھ رہا ہوں ۔ خان صاحب نے پارٹی بنائی نئے نظریاتی لوگوں کو موقع دیا مگر کچھ عرصے سے خان صاحب بھی سیاستدان بن چکے ہیں لیڈر کی مسند سے اتر چکے ہیں ۔ سیاستدان کی نظر اگلے الیکشن جبکہ لیڈر کی نظر اگلی نسل پر ہوتی ہے ۔ عمرآن خان نے کچھ گھاگ سیاستدانوں کےمشورے سےانصاف لانڈری کھول لی ہے جسمیں دوسری پارٹیوں کے سیاستدانوں کے تمام گناہ میل کچیل دھل جاتی ہے اور وہ پوتر ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ خان صاحب نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جو کہ چلے ہوئے کارتوس ہرگز نہیں بنا سکتے ۔ انصافین ارسطو یہ دلیل دیتے ہیں کہ تمام سیاستدان عمرآن خان کے نظریے پر پارٹی میں آرہے ہیں دل بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے ورنہ اس سے بڑا دھوکہ کائنات میں کوئی نہیں ۔ خان صاحب ہوسکتا ہے ان لنگڑے گھوڑوں سے الیکشن کی ریس جیت جائیں مگر نئے کرپشن سے پاک پاکستان کا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے ۔ یہ سیاستدان نظریاتی تو ہوتے نہیں فصلی بٹیرے ہوتے ہیں جہاں مفادنظر آیا وہیں خیمہ زن ہو گئے ۔ پاکستانی سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں کوئی بھی ایسا نہیں جسے لیڈر کہہ سکوں اور جسکا ہاتھ قوم کی نبض پر ہو ، جو صحیح معنوں میں قوم کے جذبات کی ترجمانی کرسکے۔

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186574 views System analyst, writer. .. View More