میں اس جیالے کو تقریباً پندرہ
برس سے جانتا ہوں۔ ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو کا شیدائی، معاملات کو
سمجھنے اور جانچنے کے باوجود اپنی پارٹی کے لئے نہ صرف مرنے مارنے پر تیار
ہوجاتا تھا، مجھے یاد ہے کہ محترمہ کے قتل کے بعد وہ کس طرح غم سے نڈھال
تھا اور کیسے اس نے دنیا چھوڑ ہی دی تھی، بھٹو کی ہر برسی اور اب بینظیر کے
یوم شہادت پر گڑھی خدا بخش کا سفر تو جیسے اس پر فرض ہوچکا ہے، گھر میں
بچوں کے کھانے کے لئے کچھ ہو نہ ہو، وہ ہر سال کم از کم دو مرتبہ گڑھی خدا
بخش کا چکر ضرور لگاتا ہے۔ اکثر اس کے ساتھ گپ شپ رہتی ہے جس میں وہ بھٹو
کے ترانے ہی گاتا نظر آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا جیالا اور ورکر ہو اور بھٹو
کا دیوانہ نہ ہو، یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟ گزشتہ روز جب اس سے ملاقات ہوئی
تو وہ بہت غمزدہ اور دل گرفتہ نظر آرہا تھا، میں نے پوچھا چوہدری صاحب! خیر
تو ہے ناں، آج بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں؟ کہنے لگا بس کیا بتاﺅں رات کو
ایک لمحے کے لئے بھی نیند نہیں آئی، میں نے کہا کیا دوبارہ کوئی عشق کا روگ
پال لیا ہے جو راتوں کو جاگتے رہتے ہیں؟ چوہدری صاحب جواباً گویا ہوئے ”ارے
نہیں یار، بس کچھ پارٹی معاملات نے نیندیں اڑا رکھی ہیں“ مختصراً انہی کی
زبانی سنئے۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو ایک آمر سے ڈیل کر کے
وطن واپس آنے کے بعد دسمبر کی ایک سرد شام کو لیاقت باغ میں جام شہادت نوش
کرگئیں۔اس دن مجھے ایسے لگا جیسے ماں کا سایہ ایک بار پھر میرے سر سے اٹھ
گیا، میری عمر شائد محترمہ جتنی ہی ہوگی لیکن میں انہیں اپنی ماں کی طرح ہی
سمجھتا تھا۔ میں خود گڑھی خد ا بخش میں موجود تھا جب صدر زرداری نے پوری
دنیا کے میڈیا کے سامنے مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کہا تھا اور محترمہ کے
اپنے خط سے بھی ایک بات عیاں ہوتی تھی کہ اگر مجھے قتل کردیا گیا تو چند
افراد، جن کے نام اس خط میں درج کئے گئے تھے، وہ ذمہ دار ہوں گے۔ ہم سارے
جیالے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے، آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے
تھے، اس وقت شکوک و شبہات کے باوجود ہمیں لگا کہ آصف علی زرداری ضرور ہمارے
زخموں پر مرہم رکھیں گے، ہماری قائد کے قاتلوں کو نہ صرف بے نقاب کریں گے
بلکہ انہیں پھانسی گھاٹ بھی پہنچائیں گے، شروع شروع میں تو ایسا محسوس بھی
ہوتا تھا لیکن جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور مشرف کی پالیسیاں ہی جاری
رہیں تو شکوک نے یقین کی حدوں کو چھونا شروع کردیا۔ ہم جیالے یہ سمجھتے تھے
کہ شائد یہ صدر صاحب کی کوئی چال ہوگی اور وہ کسی دن اچانک قوم کو بتائیں
گے کہ یہ لو، ہم نے محترمہ کے قاتلوں تک رسائی حاصل کرلی ہے، انہیں گرفتار
کرلیا ہے اور بہت جلد عدالت میں کیس چلا کر انہیں پھانسی دیدی جائے گی،
لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جب وفاقی حکومت کا ایک اہم وزیر اور صدر صاحب کا دست
راست ایسا شخص ہو جس پر الزام ہو کہ وہ بھٹو کی پھانسی کی خوشی میں پنڈی
میں مٹھائیاں تقسیم کرتا رہا تھا اور ایک صوبے کا گورنر مشرف کا لگایا ہو
اور ایسے لوگ وزیر بنا دئے جائیں جن کو جیالے پارٹی کا دشمن سمجھتے ہوں تو
امیدیں تو دم توڑ ہی جاتی ہیں، وہم اور وسوسے تو پیدا ہوتے ہیں! جیالوں نے
میاں نواز شریف سے اپنی ”دشمنی“ اس لئے ختم کردی تھی کہ وہ دس سالہ جلا
وطنی کے بعد کافی ”سمجھدار“نظر آنا شروع ہوگئے تھے، پہلے انہوں نے محترمہ
سے معافی مانگی، میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور بعد ازاں اپنے موقف پر ڈٹے
رہے، صدر زرداری کو مختلف مواقع بھی دئے اور بالآخر ججوں کو بحال کروا کر
دم لیا۔ جب مسلم لیگ کے دوست ہمیں طعنے مارتے تھے کہ صدر زرداری کی موجودگی
میں کیا پارٹی کے لئے کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ تو ان کے کاموں اور وزیروں کو
دیکھ کر ہمیں شرمندگی کے ساتھ بے چینی بھی ہوتی تھی۔ اور تو اور قومی
اسمبلی میں اب اگر کوئی محترمہ کے قاتلوں کی بات بھی کرتا ہے تو وہ مسلم
لیگ (ن) والے ہیں، مجھے تو کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ محترمہ پیپلز پارٹی
کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی قائد تھیں، خیر معاملات کسی طرح چل ہی رہے تھے کہ
اچانک مولوی بابر اعوان ”قاتل“ لیگ کے قائد پرویز الٰہی سے ملنے اس کے گھر
پہنچ گیا، جب سے دونوں کی ملاقات ہوئی ہے مجھے ایک پل قرار نہیں آیا، لعنت
ہے ایسی سیاست پر جس میں اپنی ماں کے قاتلوں کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانی
پڑیں۔ اگر سیاست اسی کا نام ہے تو یہ سراسر ذلالت اور بے غیرتی ہے۔ یہاں تو
کوئی اگر کسی کی ماں بہن کی طرف غلط نظر سے دیکھ بھی لے تو دل کرتا ہے کہ
اس کی آنکھیں نکال لی جائیں اور ہماری قائد جن کو نامزد کر کے گئی ہے ان سے
صرف سیاسی فائدوں کے لئے راہ و رسم بڑھائی جارہی ہے، اسی وجہ سے میری
نیندیں اڑ گئی ہیں، پرسوں سے کچھ کھایا جاتا ہے نہ پیا جاتا ہے، ایک پل
قرار نہیں مل رہا، میرے خیالوں میں بی بی کا چہرہ ہے اور وہ خاموشی کی زبان
میں مجھ سے پوچھتی ہیں کہ کیا ماں کا خون بیچ دو گے؟ کیا تم بھی میرے
قاتلوں کے ساتھ دوستی کرو گے؟ اگر ایسا ہے تو میری ساری تصویریں جو تم نے
اپنے گھر میں، اپنی دکان میں لگا رکھی ہیں، انہیں جلا دو، اپنے دل سے میری
یادیں کھرچ دو، ورنہ جاﺅ کہہ دو میری پارٹی کے جیالوں سے کہ اسے دوبارہ
بھٹو کی پارٹی بنائیں، میری پارٹی بنائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی روح کو
ابھی تک سکون نہیں ملا، وہ پارٹی کی حالت اور اس پر قابض لوگوں کے کام دیکھ
دیکھ کر کڑھتی رہتی ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ جو میرے
پیارے تھے ان کو ”شو کاز“ نوٹس جاری ہورہے ہیں، ان کی رکنیت معطل کی جارہی
ہے اور جو مجھ سے بے وفائی کرتے رہے ان کو اعلیٰ عہدے دے دئے گئے ہیں، وہ
آنکھیں جب مجھ سے خاموش سوال پوچھتی ہیں تو میں سوچتا ہوں، چوہدری! تیری
زندگی کا کیا فائدہ، تو کس کام کا ہے، اگر تو اپنی ماں کی روح کو خوش نہ
کرسکا تو قیامت والے دن کیا جواب دے گا؟ پھر میرا دل یہی کہتا ہے کہ میں
کسی طرح صدر تک اپنا پیغام پہنچا دوں، پارٹی کے ”لیڈروں“ تک محترمہ شہید کے
سوالات پہنچا دوں، پھر خود ہی جواب بھی دیتا ہوں کہ میری بات سنے گا کون؟
کیا وہ لوگ میری بات پر کان دھریں گے جنہوں نے بی بی شہید کے خون کا سودا
کرلیا، کیا وہ میری بات سن بھی سکتے ہیں جنہوں نے ان کے دشمنوں کے ساتھ
دوستیاں پال رکھی ہیں، نہیں، ہرگز نہیں! آخر میں یہی سوچتا ہوں کہ خود سوزی
کرلوں، لیکن اللہ سے بھی ڈر لگتا ہے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچے بھی سامنے
سوال بن کر آ کھڑے ہوتے ہیں، وہ بھی یہی سوال کرتے ہیں کہ بابا! آپ کو آج
تک ملا کیا ہے؟ سوائے اذیتوں اور پریشانیوں کے؟ وہ جانتے ہیں کہ جب میں
سکول میں تھا تو ضیاءالحق کی ماریں کھاتا تھا، پھر عدلیہ بحالی تحریک میں
مشرف کی مار کھائی اور اب ضمیر کی مار کھا رہا ہوں، جاﺅں تو کہاں جاﺅں؟
کہوں تو کس سے کہوں؟ بس میں تو ایک بات جانتا ہوں کہ کوئی بھلے اپنی بیوی
کا، بہن کا، قائد کا خون بیچ دے ، کم از کم میں اپنی ”ماں“ کا خون نہیں بیچ
سکتا! |