بدنام ہوں گے تو کیا.....؟؟نام نہ ہوگا

پاکستان دنیا کا بدعنوان ملک بننے کی دوڑ میں 47سے42نمبر پر آگیا.....بولو ...کیسا.....؟؟؟

اُف زوالِ وطن کا یہ آغاز اُف کمالِ وطن کا یہ انجام! آہ ! یہ ملکُ ! آہ یہ ملت آہ یہ قوم ! آہ یہ اِسلام

یہاں مجھے اِس شعر کی تشریح بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بس مجھے یہ شعر یاد آگیا تو میں نے لکھ دیا اَب اِسے پڑھنے والے خود سمجھیں اور اِس کی تشریخ اپنی اپنی عقل اور سمجھ دانی کے مطابق خود کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ اَب ہم کو اپنے وطن کے لئے ایسا کیا کچھ اچھا کرنا ہے کہ ہمارا ملک بھی عظمتوں کے مینار سے بھی زیادہ بلند ہوجائے۔اور ہم ذلت و رسوائی کی اِس دلدل سے نکل کر اپنا کل بہتر بنا سکیں جس پر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی فخر ہو اور وہ اپنے پرکھوں پر بھی ناز کرسکیں ..اور اَب یہ سوچنے اور سمجھنے کا کام ہم سب کا ہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں دنیا میں اپنا وقار مجروح ہونے سے بچانے کے لئے کیا کیا جتن کرنے ہوں گے......؟؟کہ ہماراکھویا ہوا وقار بحال ہوسکے۔ بہر حال مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ آج میں جس وطن کا باشندہ ہوں وہ ساری دنیا میں اپنے نام اور معنی کے لحاظ سے ایک پاک اور عظیم ترین ملک کی حیثیت سے اپنی سب سے منفرد اور جُدا پہچان ضرور رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اِس وطن عزیز جِسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے اِس پر گزشتہ 62سالوں میں جتنے حکمران آتے رہے ہیں سب اِس کا وجود گد کے مانند نوچتے رہے اور جس کا جہاں سے جتنا بھی بس چلا سب سیاہ سفید کر کے قومی خزانے سے لوٹ مار کرتے رہے اور اپنا اپنا پیٹ بھر کر چلتے بنے اور آج بھی اِس سرزمینِ پاکستان پر ایسے ہی حکمرانوں کا راج ہے جو ایک لاٹھی سے سب کو ہانک رہے ہیں اِن کی نظر میں ہاتھی گھوڑااور سیاہ سفید سب برابر ہیں اور یہ وہ حکمران ہیں جو اپنی اصلاح سے متعلق کسی کا ایک لفظ بھی سُننے کو تیار نہیں ہیں گو کہ اِن کے نزدیک اگر کوئی اچھا ہے تو وہ اِن کا لایا ہوا وہ مفروضہ اور قانون جسے یہ اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں وہ ہی اِن کے لئے کارآمد ہے اور باقی سب کچھ غلط ہے۔ شائد ہمارے موجودہ حکمرانوں کے اِسی روئے کے باعث گزشتہ دنوں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کرپشن کے حوالے سے ایک سنگین نوعیت کی چارج شیٹ جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ رواں سال 2010کے دوران کرپشن کا ناسور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس کا تدارک کیا جانا بہت ضروری ہے ورنہ اِس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اوراِس کے ساتھ ہی اِس چارج شیٹ میں اِس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کی ایلفی لگی جوڑی نے ملک میں کرپشن کو گزشتہ سال 2009کے مقابلے میں آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے جو ایک عام پاکستانی سمیت عالمی اداروں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی آپس کی لیپا پوتی اور ایک دوسرے کو تھپکی دینے اور اپنا حکومتی وقت گھسیٹنے جیسے عمل کے باعث جہاں ملک میں عوام کو موجودہ حکمرانوں سے مایوسی ہوئی ہے تو وہیں اِن حکمرانوں کی ناقص حکمتِ عملیوں اور فرسودہ منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک میں کرپشن کے کلچرل کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک میں کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور پاکستانی قوم اِن حکمرانوں کے اِس فعل شنیع کی وجہ سے دنیا کی کرپٹ ترین قوموں اور ممالک کے مقابلے میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور پاکستان جو گزشتہ سال کرپشن میں 47نمبر پر تھا مگر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ممکن ہے کہ اگر پاکستان میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے ناسور کا آپریشن بروقت نہ کیا گیا تو یہ پاکستان کرپشن میں47سے42نمبر پر بھی آسکتا ہے رپورٹ میں اِس کی وجہ یہ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی اداروں میں حکومت کے طرز حکمرانی اور کرپشن پر سخت ترین اظہار تشویش پایا جاتا ہے۔ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ ویسے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو اپنی اِس(بدنام زمانہ) کامیابی پر مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اِسی بہانے دنیا کے سامنے ہمیں اپنی پہچان کرانے کا ایک اچھا موقع ہاتھ آیا ہے ہمیں یہ سوچ کر خاموش رہنا چاہئے اور موجودہ حکومت کو اِس کی مدت پوری کرنے کا موقع دنیا چاہے کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا چلو اِس بہانے دنیا ہمیں جان تو جائے گی کہ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو شائد کسی اور حوالے سے تو نہ صحیح مگر کرپشن کے میدان میں تو ترقی کر ہی رہا ہے تو اِسے کرنے دیا جائے۔اور اِس کے ساتھ ہی یہ ریت بھی ازل سے چلی آرہی ہے کہ ہر دور میں آنے والے انسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کارناموں کے باعث مشہور ہوئی اور اِسی طرح دنیا میں مختلف ادوار میں جتنی بھی قومیں آتی رہی ہیں وہ بھی اپنی کسی نہ کسی منفرد خصوصیات اور خامیوں کی وجہ سے جن میں اِن کی اچھائیاں اور بُرائیاں دونوں ہی شامل ہیں وہ تاریخ کا حصہ بنیں اور آج اِس 21ویں صدی کے جدید سائنسی دور میں بھی یہی روایت قائم ہے کیونکہ آج کے اِس دور میں بھی دنیا کے کئی انسان اور قومیں ایسی ہی جو اپنی پہچان آپ ہیں اِن میں کچھ ایسے انسان بھی ہیں جنہوں نے اپنی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے باعث دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی پہچان کرائی اور کچھ انسان ایسے بھی ہیں جن کے منفی کارنامے عالمِ انسانیت کے لئے کلنگ کا ٹیکہ ثابت ہوئے ہیں اور اِسی طرح کچھ اقوام بھی دنیا کی تاریخ میں ایسی گزری ہیں اور آج بھی موجود ہیں کہ جن کے مثبت اور منفی کارناموں سے انسانی تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں جن کے کارناموں سے آج بھی بنی نوع انسان سبق اور عبرت حاصل کررہے ہیں اِن ہی میں سے ایک پاکستانی قوم بھی ہے جو کرپشن کے حوالے سے جہاں دنیا بھر میں شہرت حاصل کررہی ہے تو وہیں اِس کا یہ فعل پاکستانیوں سمیت ساری دنیا کے لئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔مگر شائد اِن ساری باتوں اور برائیوں کے باوجود بھی ہمارے حکمران اَب بھی اِس ذلت اور رسوائی سے بچنے اور اِس سے کوئی عبرت نہیں پکڑ پائے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی جیسی تنظیمیں جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتی ہیں وزیراعظم کے اِس بیان سے یوں لگتا ہے کہ وہ 47سے42اور پھر نمبر ون بننے کی دوڑ میں لگے رہیں گے۔تو اِس پر ہم بس اتنا کہیں گے کہ ” فکر نہ کر اور ذکر نہ کر......“جو ہم کر رہے ہیں ہمیں کرنے دیا جائے باقی سب ٹھیک ہے ورنہ....ورنہ سب غلط ہے ۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972375 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.