مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت۔۔

 کئی دنوں سے دل میں ایک خواہش لیے پھر رہا ہوں کہ کاش تمام اسلامی سیاسی جماعتیں متحد ہو جائیں اور پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ، اسلامی، جمہوریہ اور پاکستان بنا ئیں جس میں اسلام کا عملی نفاذ ہو جس مقصد کے لیے پاکستان معرض ِ وجود میں آیاتاکہ ایک اسلامی ریاست میں بنائے ہوئے قوانین اور ضوابط اور اسلام کی اس تجربہ گاہ میں اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی دی ہوئی تھیوری کو اپنی تجربہ گاہ میں عملی جامہ پہنائیں تاریخ اِ س بات کی شاہد ہے کہ جنہوں نے اپنی تجربہ گاہوں میں اسلام اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کے بنائے ہوئے قوانین اور تھیوریزکو پریکٹیکل کیا نتائج مثبت آئے اور پراڈکٹ یعنی حکومت و نظام کا پورے عالم ِ اسلام میں چرچہ ہوا لیکن جب سے ہم نے اپنی تجربہ گاہوں میں اپنے دیسی وڈیروں اور جاگیرداروں کی دی ہوئی تھیوریز کو پریکٹیکل کرنا شروع کیا ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان (جو کہ نہ اسلامی ، نہ جمہوری اور نہ ہی پاکستان ہے )میں ہر شخص اسلامی نظام کا خواہاں ہے علما ء کرام ہر محفل ، ہر مجمع، ہر نماز کے بعد اﷲ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار پاکستان کو حضرت عمر فاروق ؓ جیسانیک اور صالح حکمران عطا فرما اور نظام مصطفی نافذ فرماـ۔۔لیکن یہ علماء کرام یہ نہیں سمجھتے کہ اﷲ رب العزت کے بھی کچھ قوانین ہیں وہ سب کام صرف دعاؤں سے ہی نہیں کرتا ساتھ دوابھی کرنا لازم ہوتی ہے جس سے ہم ناواقف ہیں ،دوا ہے اس نظام کی بہتری کے لیے عملی جدوجہد کرنا لیکن ہمارے علما ء کرام تو سیاست میں حصہ لینا توشائد گناہ ِ کبیرہ سمجھتے ہیں ساتھ اپنے اشتہاروں پہ موٹا موٹا کر کے فخر سے لکھواتے ہیں عالم ِ اسلام کی غیر سیاسی تنظیم اور اگر کوئی عالم ِ دین اِس نظام کی بہتری کے لیے سیاست میں قدم رکھ ہی لے تو اُس کے خلاف دائرہ ِ پاکدامنی سے خروج کا فتوا صادر کر دیتے ہیں حالانکہ سیاست تو نبیوں ؑ کی سُنت ہے حضرت امام حسینؓ ۹ذلحج کو احرام اُتار کے اہل و عیال کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں جو کچھ ہوا وہ سب جانتے ہیں یہ سب صرف اور صرف نظام مصطفی کے لیے ہوا اگر اسلام صرف عبادات تک ہی محدود ہوتا تو آپؓ حج ادا کرتے لیکن آپؓ نے ایسا نہیں کیا بلکہ آپ نے اسلامی نظام ِکے لیے عملی جدوجہد کی اور اُس کے لیے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ گواہ ہے اور کیا یزیذ نے یہ کہا تھا کہ نماز نہ پڑھو یا عبادات نہ کرو ۔؟ نہیں بلکہ وہ بھی مسلمان ہی تھا حکومت بھی مسلم ہی تھی لیکن وہ نظام ِ مصطفی نہیں رہا تھا جو آقاء دوعالم ﷺ اور صحابہ کرام نے رائج کیا تھااور پاکستان میں بھی آج نظام مصطفی کا نفاذ ہونا لازم ہے اور تب ہو گا جب سیاست کو پاکیزہ کیا جائے گا سیاست بنیادی طور پہ ایک پاکیزہ طرزِ حکومت ہے وہ الگ بات کہ ہم نے پاکستانی سیاست کو غلاظت سے بھر دیا اور یہ بھی ہمارا ہی قصور ہے کیوں کہ اچھے انسان کو تو ہم لوگ آ نے ہی نہیں دیتے اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ایک اچھے انسان اور عالم ِدین کا سیاست میں کیا کام۔؟ تو سیاست میں کس کا کام ہے جعلی ڈگری ہولڈرز کا۔؟ غنڈوں اورلٹیروں کا۔؟ان پڑھ لوگوں کا۔؟جھوٹوں اور چوروں کا۔؟کس کا آخر بتاؤ تو سہی ۔؟جب اچھے لوگ سیاست سے منسلک نہیں ہوں گے تو سیاست سے گند کیسے نکلے گا ۔؟اِس میں کوئی شک نہیں کہ جسم پہ لگی گندگی کو صاف کرنے کے لیے ہاتھ گندے ہو سکتے ہیں لیکن یہ جسم بھی تو آپ کا ہے بے شک یہ کپڑے سے چھپا ہے لیکن اُس گندگی سے تعفن بھی پھیل سکتا ہے آ پ کے جسم میں کیڑے بھی پڑ سکتے ہیں اور ناک صاف کرتے ہوئے آپ کے ہاتھ ضرور گندے ہو تے ہیں لہذاتمام لوگ اِس گورکھ دھندے سے نکل آئیں کہ سیاست کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں خدا کے لیے اِسلام کو صرف عبادات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ِ حیات ہے ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں چلے بھی لگاتے ہیں اور ساتھ ایک کافرانہ اور طاغوت کے نظام کو بھی قبول کرتے ہیں جو کہ صرف اورصرف سودی نظام ہے۔لیکن ہم اس سودی نظام کوپاش پاش کر سکتے ہیں اگر صرف مذہبی سیاسی جماعتیں ہی متحد ہو جائیں تو نظام ِ مصطفی نافذ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہر پارٹی نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائی ہوئی اور نظام ِ مصطفی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے آخر یہ آکٹھے کیوں نہیں ہوتے جب سب کا ایجنڈا صرف اور صرف نظام ِ مصطفی ہے تو پھر متحد کیوں نہیں ہوتے ۔؟ مولانا فضل الرحمان صاحب(جے یو آئی،ایف) الگ اپنی جماعت بنا کے اسلامی نظام اور نظام ِ مصطفی کی باتیں کر رہے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب(پی اے ٹی) الگ اسلامی انقلاب کی جدوجہد کر رہے ہیں، حافظ سعید صاحب(ج ،یو،د) علیحدہ اسلامی نظام کی کوشش میں سرگرداں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس(ایم ڈبلیو ایم) بھی اپنے الگ پلیٹ فارم پہ تگ ودؤ کر رہے ہیں اور سراج الحق صاحب( جماعت اسلامی)بھی اپنا الگ اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کا نعرہ لگا رہے ہیں جو کہ مستقبل قریب میں تواِن میں سے کسی کے پلے کچھ آتانظر نہیں آ رہا تو کیوں کہ الگ الگ مذہبی اختلاف کی وجہ سے وہ پاور نہیں بنتی جس سے موجودہ نظام کو تبدیل کیا جائے یاکوئی اور کام کروایا جا سکے اگر یہ سب اکٹھے ہو جائیں باقی مذہبی جماعتوں کو بھی ساتھ لیں چاہے اُن کے پاؤں ہی کیوں کہ پکڑنا پڑے کیوں کہ یہ دین کا بنیادی کام ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ جو ایک دوسرے کے خلاف کفر و شرک کے فتوے دے چکے ہیں وہ کیسے متحد ہوں گئے اور ساتھ وڈیرے اوراقتدار پہ قابض جاگیر دارنہیں چاہتے کہ ایسا ہوجو ملک میں اندر کھاتے فرقہ واریت کو ہوا بھی دیتے ہیں وہ کیسے ایک دوسرے کے قریب آنے دیں گے، لیکن کیا اسلام اور نظام مصطفی کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے۔؟ ناموسِ رسالت کے لیے اگر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو اُسی عظیم ہستیﷺ کے نظام اور قرآن و سُنت کے عملی نفاذ کے لیے کیوں اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔؟اگر باقی سیاسی وڈیرے اور جاگیرداراپنے مقاصداپنے اقتدار کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پھر علما ء کرام نظام ِ مصطفی کے لیے کیوں نہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے کیا کوئی مرد ِ قلند ر ایسا کرنے میں پہل کر سکتا ہے جو اُمت ِ محمدی کو یکجا کرے اور اِس طاغوتی، ظالم، غیرمنصفانہ اور سودی نظام ِ کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے۔؟میرا تمام مذہبی جماعتوں سے ایک مودبانہ سوال ہے۔آخر کب تک اِس طاغوتی ، ظالم اور سودی نظام کو سپورٹ کرتے رہو گے جس میں غریب کودو نوالے روٹی کے میسر نہیں، شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں ، غریب کو انصاف نہیں ملتا اورمنصف کو تحفظ ،گھر بیٹھی بیٹھی غریب کی بیٹی کے سَر میں چاندی اُگ آئی اور غریب علاج کو ترس رہے ہیں۔؟ کب تک نظام مصطفی کے نفاذ کے لیے صرف دعائیں ہی مانگتے رہو گے کب تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے اِس ملک کو غیر مسلم طاقتوں کے نرغے میں رہنے دو گئے۔؟ کب تک آئی ایم ایف،ورلڈ بنک ، ایشیا ڈیولپمنٹ بنک ،ایگزیم بنک آف چائنہ، یوایس ایڈ، چائنہ ایڈ،ترکی ایڈ، سودی ایڈ کے سودی قرضے اور خیرات لے کے اُن کے ایجنڈے پہ کام کرتے رہیں گے۔؟کب تک اُوروں کے ناپاک مقاصد کے لیے سُنی ،شعیہ،دیوبندی اور وہابی وہابی کا خونی کھیل کھیلتے رہیں گئے۔ کب تک ایک دوسرے پہ کفر و شرک کے فتوے لگا کر ایک دوسرے کا قتل ِ عام کرتے رہیں گئے؟آخر کب تک۔۔۔؟ ہاں اُس وقت تک جب تک ہم سب فرقہ واریت چھوڑ کے ایک مسلم قوم بن کر اِس ظالم نظام سے ٹکر نہیں لیں گے اور اِس وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارہ حاصل نہیں کریں گے جس میں دولت اور اقتدار کی ترسیل چند خاندانوں تک محدود ہے اُس وقت تک جب تک جب تک اﷲ کا نظام قائم نہیں ہو گااور جب تک تمام قوم اور مذہبی جماعتیں متحد ہو کر ملکی سیاست سے گندنہیں نکا لیں گئے تب تک زلت و رسوئی ہمارے ساتھ ہے اگر ہماری قوم پھلوں کا بائیکاٹ کر سکتی ہے تو اِس فرسودہ اور طاغوتی نظام کا بائیکاٹ کیوں نہیں کر سکتی ہے۔؟ آخر میں میری تمام مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں خاص طور پہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب(پی اے ٹی) ، سراج الحق صاحب ( جے آئی) ،مولانا فضل الرحمان صاحب(جے یو آئی،ایف) ، علامہ راجہ ناصر عباس(ایم ڈبلیو ایم) ، حافظ سعید صاحب(ج ،یو،د) اور ساتھ اُن علما ء کرام سے جو سیاست کو شائد گناہ سمجھتے ہیں جناب مولانا الیاس عطار ی قادری صاحب (جماعت ِاسلامی)اور جناب مولانا طارق جمیل صاحب( تبلیغی جماعت) ، اورتمام پیر اور گدی نشین جیسا کہ پیر مہر علی شاہ ؒ گولڑہ شریف ، سلطان الفقر حضرت سلطان باہوؒ، لال شہباز قلندر ؒ،حضرت خواجہ غلام ٖفرید کوٹ مٹھن ؒ، حضرت بابا فرید شکر گنج پاکپتن شریفؒ، حضرت داتا علی ہجویریؒ ، اوراَن کے وابسگان سے گذارش ہے کہ اپنے ذاتی اختلاف کا چھوڑ کر خدا کے لیے صرف اور صرف نظام ِ مصطفی ﷺ کے لیے ہی متحد ہو جاؤ اور نظام ِمصطفی کے نفاذ کا حصہ بنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ـ"اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو" القرآن ، سور ہ العمران: آیت ۱۰۳
 

Engr.Mazhar Khan
About the Author: Engr.Mazhar Khan Read More Articles by Engr.Mazhar Khan: 11 Articles with 13871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.