روزوں کے تقدس کو ختم کرنے والی سیاسی افطار پارٹیاں

ماہِ رمضان اﷲ کی طرف سے مسلمان عالم کے لئے عظیم تحفہ ہے۔ یہ مہینہ فضیلتوں و برکتوں کا ہی نہیں بلکہ انسانی صحت اور احتساب کا بھی آئینہ ہے ۔ طبی و سائنسی نقطہ نظر سے روزوں سے جو انسانی صحت کو فائدے ہیں اس کو دنیا تسلیم کر رہی ہے اور دینی لحاظ سے روزہ انسان کے کردار و عمل کو صالح اور مضبوط کرتاہے اور ایک محتسب کا رول ادا کرتا ہے ۔ روزے کا مقصد کیا ہے وہ کلامِ الٰہی میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔(القرآن ، سورہ البقرہ،آیت ۱۸۳،کنزالایمان)روزہ کا سب سے بڑا مقصد ہے تقویٰ (اﷲ کا خوف رکھنا)۔تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجھک و شرم معلوم ہواور گناہوں سے بچنے اور نیک باتوں کی طرف اس کی تڑپ پیدا ہواور روزہ کا یہی مقصود ہے کہ انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہو۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ نے روزہ کے مقاصد کے تین امورذکر کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ طبیعت کو عقل ِ سلیم کا مطیع بنانے کے لئے بسا اوقات عبادت و ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ روزہ اسی ریاضت کا نام ہے ۔ روزہ دار کی طبیعت اطاعت و بندگی کی خوگر بن جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ گناہوں کے سرزد ہونے کی صورت میں نفس کو سزا دینے کے لئے کنٹرول کرنے کے لئے بھی روزہ ضروری ہوتا ہے ۔شدتِ شہوت کو کم کرنے کے لئے بھی روزہ اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ (حجتہ اﷲ البالغہ)ْ۔روزہ کے بے شمار فوائد ہیں۔ اس کی فضیلت و عظمت کا اعلان رب تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں فرمارہا ہے اور شاہِ مدینہ حضور ﷺ نے بے شمار فوائد اور فضیلت ارشاد فرمائے ہیں۔روزہ اور ماہِ رمضان کی کیا فضیلت ہے ؟ اس کی تشریح نبی اکرم ﷺ کی اس طویل حدیث پاک سے ہوتی ہے جسے حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے روایت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے، وہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے۔ اور اس مہینہ کی راتوں میں قیام (تراویح کو غیر فرض یعنی سنت) کیا، جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خواہش سے بطور خود کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسا عام دنوں میں فرض اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا کہ جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں کسی نے ستر فرض ادا کئے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ حاجت مند بندوں کے ساتھ ہمدردی کا ہے ۔(طویل حدیث سے ماخوذ،بیہقی شعب الایمان، حدیث نمبر ۳۳۲۹)اس حدیث میں تمام چیزیں آگئی ہیں اور تمام فائدے بھی بتا دیئے گئے ہیں اور مقصد بھی واضح ہوگیا۔ روزہ دراصل بندے کو یہ احساس دلاتاہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی غذا بھی صحیح سے میسر نہیں۔ روزہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم ان لوگوں کا خیال کریں ، ان کی مدد کریں۔ آج امت مسلمہ کو شدید ضرورت ہے کہ وہ اپنے اندر خیر خواہی ، ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں۔

افطار کرانے کے فائدے: اس مہینہ میں روزہ دار کو افطارکرانے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ ہم میں اس کی استطاعت نہیں تو؟آپ ﷺ نے فرمایا: ایک کھجور یا پانی سے ہی افطار کرادیا جائے۔ افطار کرنے کرانے کی بہت سی احادیث مبارکہ حدیث کے ذخیرہ میں موجود ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ روزہ دار کو افطار کرایا جائے یعنی مومن جس پر روزہ فرض ہے اور روزہ سے ہے نہ کہ ہر کس و ناکس کو افطار میں بلایا جائے ۔ محلہ میں ٹرانسفارمر لگواناہے نیتاجی کو بلالیا۔ میں نے دیکھا خود میرے محلے میں روڈ نمبر 13-Aمیں مسلسل تین سال یہ کام کیا۔وعدہ ،بھاشن بازی ہوئی، خوب فوٹو کھنچوائے گئے لیکن کچھ حاصل نہ ہوااور ایک بار تو نیتا جی جو دوسرے مذہب کے تھے نماز مغرب میں صف میں کھڑے ہوگئے۔استغفراﷲ !گزشتہ سال دہلی میں سونیا گاندھی کی افطار پارٹی میں اسی طرح کی حماقت ہوئی،نرسمہاراؤ کے زمانے میں بھی اس طرح کی قبیح حرکت ہوتی رہتی تھی۔میڈیا نے اس کی خوب تشہیر کی۔آج محلہ کی افطار پارٹی ہو یا دکانداروں کی یا آفسوں میں یا سیاسی جماعتوں کی پارٹیاں ہوں سب جگہ سب صحیح ہے کے فارمولے پر افطار میں دھڑلے سے تصویر لی جارہی ہے جیسے یہ حرام ہے ہی نہیں۔ آج جس طرح کھلے عام تصویر یں لی جارہی ہیں روزہ جیسی اہم فرض عبادت کا حصہ افطار کی تصویریں لے کر Facebookپر ڈالی جارہی ہیں ۔کیا اس کا جواز کہیں سے بنتاہے؟اب تو حال یہ ہے کہ تصویر کشی کی حرمت کا تصور بھی ذہنوں سے نکل گیا ہے ۔ چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے ، شادی کی محفلوں میں، ٹرینوں میں ، ہوائی اڈوں حتی کہ میت کی بھی تصویریں لے رہے اور شیئر کر رہے ہیں۔ اب اس کی مخالفت کرنے والا ہی مجرم سمجھا جاتا ہے۔ ایک وہ دور تھا کہ تاجدارِ اہلسنت شہزادہ اعلیٰ حضرت مصطفی رضا بمشہور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ نے حج کے لئے بھی اس کا ر حرام کو جائز قرار نہیں دیا۔پھر ضابطہ ِ ضرورت کے تحت شرائط کے ساتھ محدود کیا گیا مگر اب تصویر کشی والی وبا (عام مرض) عام ہوگئی ہے۔ امت مسلمہ کے کچھ کو چھوڑ کر خاص بھی اس کے اسیر ہوگئے ہیں۔افطار پارٹیوں میں کھلے عام رواداری کے نام پر غیر مسلم لوگوں کو بھی بلایا جارہا ہے اور اب تو غیر مسلم لوگ اپنے یہاں افطار پارٹی میں بلا رہے ہیں اور اتحاد و محبت کا عظیم پلیٹ فارم افطار پارٹیوں کو بتایا جارہا ہے ۔ بعض حضرات وہ ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مکمل حرام ہے ۔غیر مسلم حضرات کے یہاں افطار خاص کر سیاسی جماعتوں کے یہاں جہاں حرام و حلال کی کوئی تمیز ہی نہ ہو نہ ہی اس کی طرف سوچاجائے ۔ اﷲ ہم تمام مسلمانوں کو حلال کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔دن بھر روزہ رکھ کر کم از کم افطار تو رزق حلال سے کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ روزہ تو اﷲ کے لئے رکھا اور اس کو حرام رزق سے افطار کررہے ہیں۔ حرام آمدنی سے افطار کرکے روزہ برباد کر رہے ہیں ۔ یہ کیساروزہ ہوا؟ یہ عبادت کی روح کا قتل نہیں ہے ۔ افطار جیسی اہم اور فضیلت والی عبادت کے مقصد کو فوت نہیں کرتا ۔ اب تو گھروں کی افطار پارٹیوں میں تصویریں لی جارہی ہیں اور پھر وہ تصویر اپنے لاڈلوں، جو باہر ملکوں میں کما رہے ہیں ،بھیجی جارہی ہیں اوروہ اپنے دوستوں کو دکھا کر سوشل میڈیا میں پھیلا کر خوش ہورہے ہیں۔روزہ بھی حج کی طرح بدنی عبادت ہے صرف اور صرف ایمان والوں پر فرض ہے اور اس کی جزویات سحری، نماز،افطارکرناکراناوغیرہ صرف مسلمانوں کے لئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے۔(القرآن) خدارا عبادت کے معنی و مفہوم کو سمجھئے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی رعایت کے ساتھ عبادت کریئے نہ کہ نام ونمود کے لئے جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اخوت و محبت ، رواداری کے لئے دوسرے مواقع کا استعمال کریں۔ افطار جیسی متبرک عبادت کو دکھاوا اور نام و نمود پر قربان نہ کریں۔ روزہ نہایت قیمتی اور بے مثال عبادت ہے۔ اس کا اجر و ثواب بے حساب ہے ۔ حدیث قدسی ہے۔ اﷲ فرماتاہے:روزہ میرے لئے اور میں اس کی جزا دوں گا۔(حدیث کا مفہوم)اس لئے اس کی حفاظت کرنا بھی انتہا ئی ضروری ہے ۔ روزہ دار کو ایسے تمام امور اور چیزوں سے بچنا چاہئے جن سے اس کا روزہ خراب ہوتاہے اور اس کے اجرو ثواب میں کمی آتی ہے۔ اﷲ ہم سب کو ہدایت کی توفیق دے اور خوفِ الٰہی عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!

Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 195773 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.