جے آئی ٹی اور پاکستان تحریک انصاف

لفظـ’’انتقام‘‘ کا سوچ کر دل میں کچھ عجیب سے احساس ہوتا ہے ۔کچھ فساد ی لوگ اس لفظ کو بار بار سوچنے کے عادی ہوتے ہیں ۔انہیں اس لفظ کا عملاََ استعمال ، ذائقہ اور خوشبو خوشگوار لگتا ہے۔یہ چاہتے ہیں کہ انتقامی معاشرت، انتقامی معیشت اور حتی کے انتقامی سیاست کو بڑھ چڑھ کر فروغ دیا جائے تاکہ کمزور، نحیف، لاچار اور بیچارے عزت دار طبقے کو ہمیشہ زیر عتاب یا زیر اثر رکھاجاسکے۔ عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ، جن کے ووٹ اور سپورٹ کی طاقت سے الیکشن اور پھر سلیکشن ہوتی ہے اور بڑے بڑے راشی، شرابی، کبابی اور عوام دشمن لوگ ایوانوں کے زینوں پر صبح وشام منڈلاتے ہیں اور پھر اپنا حق انتقام ایسے استعمال کرتے ہیں،کہ گمان ہونے لگتا ہے گویا مطلق جاہل اعظم ہیں۔ جن قابل احترام پالیمانی ممبران کو عوام چناؤ کر کے ایوان تک بھیجتی ہے وہ لوگ جب ایواان کو مچھلی منڈی بناتے ہیں اور غلیظ القابات سے ایک دوسرے کو نوازتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ غبی لوگ ایک دن بھی سکول نہیں گئے۔ عوام کی محبت اورخلوص لے کر آنے والے جعلی سیاستدان عدالت کو ہی دھمکیاں دیتے ہیں کہ تمہاری جے آئی ٹی متنازعہ ہے اور ٹھیک کام نہیں کررہی !ہمیں ان پر شدید تحفظات ہیں کیوں کہ یہ لوگ ہمیں تنگ کمرے میں چھوٹی سی کرسی پر بٹھا 12 کر تفتیش کرتے ہیں اورہمیں اقبال جرم پر مجبور کرتے ہیں۔حقیقت احوال یہ ہے کہ جب جے آئی ٹی بنائی گئی تو اس وقت مسلم لیگ ن نے اعتراض نہیں کیا؟ مگرجب انہیں اکھاڑے میں اتر کر خود کو پاک دامن ثابت کر نے کا کہا جارہا ہے تو ان کا رویہ ایسے ہوگیا ہے جیسے انہیں کسی امریکی، بھارتی یا اسرائیلی سنڈی نے کاٹ لیا ہو۔ ’’شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ‘‘ والا عنصر مسلم لیگ ن میں بدرجہ اتم موجو د ہے۔ تقریباََ ہرپولیٹکل ورکر کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے پارٹی قائداور اس کے اہل و عیال کے ہر نیک وبد کی ہمیشہ تعریف و توصیف بجا لائے اور حتی الامکا ن ہر کوشش و سعی کے ذریعے ان پر آنے والی آنچ ، طوفان اور ہر بھونچال کا نہ صرف مقابلہ، مجادلہ اور مبادلہ کرے گا بلکہ اپنے گھر بار،رشتہ تعلق، سیاسی و دینی سوچ، عوامی و جمہوری سوچ اور غرض ہر قسم کے نتائج و حالات سے ماوراء و بے غرض ہو کرقائد کے حکم کی تعمیل و تخریب بجا لائے گا۔ آج کل تو عجیب سماں بندھا ہے کہ حکومتی حواری وپچاری سپریم کورٹ کو اپنے مطلوب بیانیے کے ذریعے بتاتے ہیں کہ ہم لوہے کے چنے ،چبانہ بھی جانتے ہیں۔ حیرت ہے ایوان مقدس میں تقدیس و تمیز کا حلف اٹھانے والے بھی جے آئی ٹی کوقصائی کی دکان سے تشبیہ دیتے ہیں۔ گلو بٹوں کا میدان کارزار میں کودنا، نہال ہاشمی کی فلم چلانا، نیب کو ٹھکانے لگانا، پیمرا کو کھلی چھٹی دینا، اور جے آئی ٹی کو متنازعہ بنا کر نیشنل بینک کے سربراہ کو اتنی شے دینا کہ تم جاؤ، خط لکھو اور جے آئی ٹی اور بلاواسطہ عدلیہ پر الزام لگاؤ کہ ایسی تفتیش تو سزائے موت کے قیدی سے کی جاتی ہے، یقینا حکومتی طاقت کا ناجائز استعمال ہے۔

پیارے ملک پاکستان کی ہمیشہ سے ہی بدقسمتی رہی ہے کہ کوئی بھی حاکم آیا اس نے ہمیشہ اداروں کو تہ و بالا کیا، اپنے ذاتی وصفاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا اورجب دیکھا کہ پانی سر سے گزرہا ہے تو ان کے خلاف مقدمات کھلوادیے اور ناکامی کی صورت میں پاک عدلیہ پر ہی زہر فشانی شروع کردی۔ موجودہ حکومت تو ادارہ جاتی کشمکش اور پنگابازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اداروں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے انہیں ہم پر ترس آجائے لیکن جب ان کے مخالف فیصلہ آتا ہے تو پھر ادارے کی بغل سے نکل کر سامنے سے وار کرتے ہیں اور ایسے ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ آئین و قانون بھی دبک ان بادشاہوں او شہزادوں کی باندھی بن جاتا ہے، جس پر بدقسمتی سے عام لوگ قانون کے اندھا ہونے کی مثال دیتے ہیں۔اس کی بدترین مثالین ہمارے سامنے ہیں ، سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جے آئی ٹی رپورٹ بنی اور ہواہوگئی۔ڈان لیک میں تو حکومت نے سب کو ناکو چنا چبوائے۔اب بس پانامہ کافیصلہ باقی ہے اس میں سپریم کورٹ کے دو فاضل ججز کے نواز شریف کی نااہلی کے ریمارکس ہیں جب کہ تین معتبر ججز نے کہا تھا کہ کچھ شکوک و شبہات ہیں جن کی بناء پر اس کیس کی مزید تفتیش کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ کی جی آئی ٹی کی آدھی مدت گزار چکی اور لگ بھگ تیس دن باقی ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ تیس دن نہیں بلکہ اب یہ معامہ مزید لٹک سکتا ہے اور سپریم کورٹ بھی مزید ایک ، دو یا تین ماہ تک کا وقت لے سکتی ہے ۔ کیوں کہ مسلم لیگ ن کا جے آئی ٹی ارکا ن پرتحفظات کا اظہار کرنے کے بعد لگتا ہے کہ یہ ارکان تبدیل ہوجائیں گے اور ن لیگ کے حربے کافی حد تک کامیاب ہوں گے۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کا دائر ہ کافی وسیع ہے اور دو ماہ کا وقت کم ہے ۔ کیوں کہ جے آئی ٹی کو صرف پاکستان نہیں بلکہ، لندن ، قطری خط اور ضروت پڑھنے پر بین الممالک تحقیقات کے لیے مراسلہ بھی جاری کرنا پڑھ سکتا ہے جو بیرون کی اجازت سے مشروط ہے ۔ اگر نواز شریف اکتوبر نومبر میں خود کو اخلاقی طور پر حکومت سے الگ کر بھی لیتے ہیں تو اس سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہی ہے نقصان کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ لیگی تو چیخ چیخ کر کہیں گے’’ آ !کہ نصر من اﷲ و فتح قریب‘‘۔

انصاف گروپ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ کا ٹولہ ہے جنہوں نے انٹراپارٹی الیکشن میں بہرحال گمنام نظریاتی احتسابی گروپ کو ذلیل و رسوا کرنا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف میں عارف علوی،شفقت محمود، نعیم الحق،علی محمد خان، صداقت عباسی وغیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پارٹی کو اوائل میں سہار ا دیا لیکن وائے ناکامی و وائے حسرت اب پارٹی کو ان کے سہارے کی خاص ضرورت نہیں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی انصافی چادر میں جو لپٹا وہ پاک ہو گیا اور نعرہ عمرانی سے معطر ہو کر اب پیپلز پارٹی کے مستانے راجہ ریاض، فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل وغیرہ بھی دیوانہ وار چلے آتے ہیں۔ شنید ہے کہ اب مزید چار پانچ پی پی پی کے غیر فعال مگر کارآمد دانے انصافی بوتل میں بند ہونے والے ہیں۔ تحریک انصاف میں مزید لوگ آئیں گے اور پنجاب میں مضبو اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن خیبر پختون خواہ میں انصافیوں کودھچکا لگ سکتا ہے جو ناقابل تلافی جرم تصور ہوگا۔ سوائے اکا دکا جماعتوں کے پاکستان میں نظریہ تو خیر ایک کھلا جھوٹ، دجل و فریب اور مکر ہے جس کے منجھن یا چورن سے غلاضت اور بدمعاشی ہی جنم لیتی ہے ۔ نظریہ اب نظریہ نہیں بلکہ ’’نظریہ ضرورت ‘‘ بن چکا ہے اور یہی اصل حقیقت ہے۔

Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 112969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.