مسلم لیگ ن کے لیے حلقہ این اے 128 اس لیے اہمیت کا حامل
ہے کہ یہاں شریف فیملی کی رہائش گاہیں ہیں ۔ اس حلقے کو مسلم لیگ ن کا گڑھ
ہونا چاہے تھا۔یہاں سے اعلی او رفعال سیاست کی مثالیں ملتیں۔اور اس علاقے
کی فعال سیاست کو دوسرے حلقے ایک نظیر سمجھ کر فالو کرتے۔بد قسمتی سے ایسا
نہیں ہوپایا۔یہاں کی نمائندگی اس طرح کا رول ادا نہیں کرپائی۔یہاں ترقیاتی
کام تو بے تحاشہ ہوئے ہیں۔مگریہاں کے ایم این اے۔اور دونوں ایم پی ایز کی
نالائقی کے سبب اس کا کریڈٹ پارٹی کو نہیں مل پایا۔اس کی وجہ ان رہنماؤں کی
طرف سے عوامی رابطے کا فقدان ہے۔مسلم لیگ کی بد قسمتی کہ ان دونوں نے اعلی
قیادت پر چاپلوسی اور آؤبھگت کے ذریعے اعتماد بنا رکھاہے۔وسیع تر پارٹی
فنڈنگ کے ذریعے انہوں نے اس حلقے پر اجارہ داری بنارکھی ہے۔یہ لوگ اگر چار
کمروں کے گھرسے چار ایکڑ کے گھر تک آگئے تو ان کے لیے پارٹی فنڈنگ بھلا کیا
مسئلہ ہوگا۔البتہ پارٹی کے لیے وہ بوجھ سے کم نہیں ۔اس حلقے کے طول وعرض
میں کہیں بھی قومی ایشوز پر کوئی سیاسی سرگرمی نہیں دکھا پائے۔ایک بھی جلسہ
حکومت یا قیادت کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے نہیں کیا۔ایک بھی ریلی نواز شریف کی
پالیسیاں نمایاں کرنے کے لیے نہیں نکالی جاسکی۔یہ اپنے وہائٹ ہاؤس سے نکل
کر اپنے چند لاڈلوں کے ڈیروں تک کبھی کبار چلے جانے کو تمام تر سیاست سمجھ
بیٹھے ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں تصویر لیکس کے ذمہ دار شخص او راس کے ادارے کا نام
نہیں ظاہر کیا گیا۔بتایا گیا کہ یہ اس شخص کا ایک انفرادی فعل تھا۔جے آئی
ٹی کا کوئی رکن تصویر لیکس میں ملوث نہیں۔5جون کو سوشل میڈیا پر تصویر لیکس
کا معاملہ سامنے آتے ہی جامع تحقیقات کرکے چوبیس گھنٹو ں میں اس واقعہ کے
ذمہ دار کی نشاندہی کردی گئی۔جے آئی ٹی نے عدالت کو بتایا کہ حسین نواز کے
الزامات بے بنیاد اور جے آئی ٹی کے خلاف مہم کا ایک حصہ ہیں۔ان کا مقصد جے
آئی ٹی کے کام میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔تاکہ وہ مقر رہ تاریخ تک اپنی کاروائی
مکمل نہ کرپائے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد یقیناًان افواہ ساز فیکٹریوں کے
منہ لٹک گئے ہوں گے جو اس تصویر لیکس کو حکومت کا ایک ہتھکنڈہ قر ار دینے
میں مصروف تھے۔سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف او راس کے ہمنواؤں کو ہوا۔جو
اس تصویر کو لے کر شریف فیملی کی بزدلی او رکمزور دلی کے قصے گھڑنے میں لگے
تھے۔کہا جارہاتھاکہ شیر کی چیخیں نکل گئیں۔حالانکہ جے آئی ٹی خود اس بات کا
اقرار کررہی ہے کہ جس دن کی تصویر ہے اس دن حسین نواز نہ تو کوئی دستاویز
لائے اور نہ ہی انہوں نے کسی سوال کا جواب دیا۔بے ایمان ٹولے نے اس تصویر
کو لیکر جانے تصحیک کا کون کون سا پہلو نہ اچھالا۔یہ کہتے تھے کہ یہ تصویر
حکومت نے خود لیک کروائی ہے ۔تاکہ حسین نواز کو مظلوم بناکر عوامی ہمدردی
سمیٹی جاسکے ۔
عیاری کی انتہادیکھیے کہ ایک طرف تو اس تصویر کو دیکھ کر اس کی حالت زار پر
قہقہے لگائے جارہے ہیں۔اس کی بے بسی کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہاہے۔اور ذمہ داری
بھی حکومت پر ڈالی جاتی رہی۔ بھلا حکومت اس طرح کی تصویر کیوں لیکس کرے
گی۔جو اس کی کمزوری اور تضحیک کا سبب بنے۔اعتزاز احسن ا ورشیخ رشید اپنی
فطرت سے مجبور ہوکر اس تصویر لیکس پر تبصرے کرکے اپنی محرومیوں کا غبار
نکالتے رہے ۔مگر اب جے آئی ٹی نے نہ صر ف جے آٹی ٹی کے عملے کے ذریعے تصویر
لیکس ہونے کا اقرار کرلیا ہے۔اصل میں بات صرف رویے کی ہے۔تصویر لیک کوئی
بڑا معاملہ نہیں ۔حسین نواز نے اگر تصویر لیکس کی بات کی تھی تو رپورٹ پیش
کردینا ہی کافی تھی۔جے آئی ٹی اپنی بے گناہی ثابت کرنے تک ہی رہتی۔مگر جس
طرح جے آئی ٹی نے حسین نواز کو کمنٹس کیا ہے ۔وہ غلط ہے۔انہوں نے حسن نواز
کے تحفظات کو جے آئی ٹی پر دباؤ ڈالناقرار دیا ہے۔مذید یہ بھی کہا کہ دراصل
وہ جے آ ئی ٹی کے خلاف مہم کا حصہ ہیں۔جے آئی ٹی کا یہ رویہ اس طرح ہلکے پن
پر مشتمل ہے کہ حسن نواز کے تحفظات درست نکلے ہیں۔ان کی تصویر واقعی لیکس
ہوئی۔جے آئی ٹی کے عملے کے ہاتھوں لیک ہوئی ۔اور اس تصویر لیکس کے سبب شریف
فیملی کو کئی دنوں تک تضحیک کا سامنا رہا۔اب جے آئی ٹی کی طرف سے کسی معذرت
یا دل جوئی کے اظہار کی بجائے حسن نواز کو عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی تحریک کا
حصے دار قرار دیا جارہاہے۔
کچھ مہینوں قبل نیوز لیکس کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔تب متاثرہ فریق حکومت
کا ایک ماتحت ادارہ تھا۔اس وقت اس لیکس پر زمین آسمان ایک کردیا گیا۔مہینوں
تک یہ معاملہ گرم رہا۔مگر اب جبکہ تصویر لیکس کا واقعہ پیش آیا ہے تو جے
آئی ٹی نامعلوم ادارے کے نامعلوم شخص کا نام تک سامنے نہ آنے کی سوچ رکھتی
ہے۔ اس تصویر کا تعلق خودوزیر اعظم پاکستان کی ذات سے متعلق ہے۔ان کے خلاف
جے آئی ٹی بنی او ر اس جے آئی ٹی میں ان کے بیٹے کی تصویر لیک ہوئی۔تصویر
لیکس اور نیوز لیکس پر قومی سطح پر متضاد رویہ سامنے آنا ہمارے انحطاط کی
علامت ہے۔حکومت کے ماتحت ادارے اور خود حکومت سے متعلق یہ فرق شاید طاقت کے
توازن کی نشان دہی کرتاہے۔جمہوری وزیر اعظم شاید کبھی اتنا طاقت ورنہیں
ہوتا کہ تصویر لیکس کے معاملے پر ہاہا کار مچ جائے۔جمہوریت کی بے بسی کے
پیچھے وہ کھوٹے سکے ہیں ۔جو سیاسی قیادت اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے
ہے۔خودغرض۔لالچی اور بد نیت یہ کھوٹے سکے۔اپنی قیادت پر بر اوقت آنے پرپیٹھ
دکھادیتے ہیں۔یہ نہ اپنے وزیر اعظم کا دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نہ اس
کے لیے عوامی حمایت کا اظہار کرنے کا جزبہ۔حلقہ این اے۔ 128کی قیادت اس طرح
کے کھوٹے سکوں کی ایک مثا ل ہے۔یہ نالائق اور بد نیت لوگ بھلا مرکزی قیادت
کا بوجھ کیا بانٹیں گے۔جب تک نوا زشریف ان کھوٹے سکوں کو جیب میں لیے
برخطرراہوں پر رواں دواں رہیں گے۔انہیں قدم قدم پر تہی دامنی ستاتی رہے گی۔
|