پرانا ٹائر بڑے کام کا

پرانا ٹائر بڑے کام کا
فیچر: یاسین صدیق، کراچی
نئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو استعمال ہونے پر مخصوص کام سر انجام دیتی ہیں لیکن جب استعمال کے قابل نہیں رہتی اور پرانی ہوجاتی ہیں تو ان کا استعمال دوسرے طریقوں اور جگہوں پرکرکے زندگی کی اس ٹرین کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ یہاں ہم ایک ٹائر کی مثال لیتے ہیں جو نہ صرف گاڑی چلانے کے کام آتا ہے بلکہ دنیا میں اس کو الگ الگ طریقوں سیاستعمال بھی کیا جاتا ہے۔ جب ٹائر پرانا ہو جاتا ہے تو اس کا استعمال دوگنا ہوتاجاتا ہے گاڑی میں لگا ٹائرگاڑی کو کھڑی کرنے چلانے اور اس کا وزن اٹھانے کے کام آتا ہے یہی نہیں بلکہ جب گاڑی تیز رفتار ہوتی ہے تو یہی ربڑ کے ٹائر اس کو روکتے ہیں۔

کچھ دنوں پہلے ایک سڑک سے گزر ہوا توسڑک کے کنارے کچرے کے ڈھیر میں کچھ پرانے ٹائر پڑے تھے۔ بچوں نے ان ٹائروں کو اٹھاکر کھڑا کیااور ایک لکڑی کی مدد سے اسے آگے لے چلانا شروع کردیا ان کیلئے یہ ایک مزیدار کھیل تھا لیکن یہ روایت کم و پیش آج بھی اسی طرح جاری ہے۔

ٹائر اگر کسی چپل بنانے والی کمپنی میں دیا جائے تو اس ٹائر کی مدد سے چپل کے تلوے بنائے جاتے ہیں جو انتہائی مضبوط ثابت ہوتے ہیں۔ آپ نے پشاوری چپل کا نام تو سنا ہی ہوگا اس کا تلوا خاص طور پر ٹائر کی مدد سے ہی تیار کیاجاتا ہے اور اتنی مضبوط چپل ہوتی ہے کہ آدمی اس کو پہن پہن کر تھک جاتا ہے لیکن یہ خراب نہیں ہوتی۔ ان چپلوں کو دوسرے شہروں اور ملکوں میں لوگ اپنے پیاروں کو تحفے کے طور پر بھی بھیجتے ہیں۔

گاؤں دیہات میں بچوں کے لئے جو لے نہیں ہوتے لیکن وہ اپنا گزارہ اس طرح کرتے ہیں کہ ٹائر کی چاروں طرف سوراخ کرتے ہیں ان چاروں سوراخوں میں ایک ایک رسی ڈال کر ٹائر کو درخت کی کسی مضبوط شاخ سے باندھ کر لٹکا دیتے ہیں پھر ٹائر پر تکیہ رکھتے ہیں اور اس پر بیٹھ کر جو لا جوالتے ہیں اور اس کا مزہ کسی مشینی جھولے سے کم نہیں۔

کراچی کے کئی علاقوں میں لوگوں کو گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کی شکایت رہی ہے کیونکہ ڈھکن چوری ہو جانے کے بعد گٹر کو خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 11 مئی کو ایک نیوز رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے کی وجہ سے سات سالہ اویس نامی بچہ کھلے گٹر میں گڑ کر جاں بحق ہواتھا جس کی لاش تین دن بعد ملی تھی۔ بلدیاتی نظام درہم برہم ہوجانے کی وجہ سے لوگ اب گٹر کے ڈھکن چوری ہوجانے کے بعد اس پر پرانا ٹائر رکھ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کے یہاں گٹر کھلا ہوا ہے۔

ایک ریسرچ کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پرانے ٹائروں سے پھولوں کے گلدان بھی سجائے جاتے ہیں۔ ٹائر کو نیچے کی طرف سے کسی چیز سے بند کرکے اس میں مٹی اور کھادڈالی جاتی ہے پھر اس میں پھول لگایا جاتا ہے اور گھروں کے آنگن میں سجادیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انڈونشام مں پرانے ٹائروں سے فرنچرب بھی تا ر کاپ جاتا ہے جو گھر کی خوبصورتی کا باعث بنتے ہں ا جس مں کڑسی، ٹبلے اور صوفہ بھی شامل ہں ج یہ فرنچرو عام فرنچر ز کے مقابلے زیادہ خوبصورت اور مضبوط ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈونشیامیں نائی کی دکان میں شیشے کو ٹائر کے اندر فٹ کرکے فریم بنائی جاتی ہے جو شیشے کو محفوظ رکھتا ہے۔

ٹائر کی اہمت سیاسی جماعت سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ جب کوئی سیاسی جماعت سراپہ احتجاج ہوتی ہے اور شہر کی سڑکوں کو بند کرنا ہوتاہے تو ان کا پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ سڑکوں پر پرانے ٹائر جلائے جائیں تاکہ دور دور سے آنے والوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہاں سڑکیں بند ہیں کیونکہ ٹائر جلنے کے بعد اس کا دھواں آسمان کی طرف رقص کرتا ہے جو دور دور سے دیکھنے والے لوگوں کو اپنے جلنے کی گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ سڑک پر اپنے جلنے کا نشان بھی چھوڑ جاتا ہے۔

ایک دفعہ کا اتفاق ہوا کہ رات کے 3 بجے سنسان سڑک پر موٹرسائیکل کا ٹائر پنکچر ہوگیا میں دوست کے ہمرا ہ تھا قریب میں کوئی پنکچر ٹھیک کرنے والے کی دکان موجود نہیں تھی۔ ہم آگے چلتے گئے میں فٹ پاتھ پر چلنے لگا اور دوست موٹرسائیکل کو آ رام آرام سے روڈپر چلاتا رہا آخرکار مجھے تھوڑی دور فٹ پاتھ پر ٹائر پڑے نظر آئے میں نے نظروں کو ان ٹائروں کے آس پاس گمایا تو مجھے کچھ پرانے ٹائر ایک بھانس میں لٹکے نظر آگئے جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں پنکچر ٹھیک کرنے والے کی دکان موجود تھی اس نے پرانے ٹائر فٹ پاتھ اور بھانس میں اس لئے لٹکائے تھے تاکہ دور سے لوگوں کو معلوم ہو جائے کے یہاں پنکچر کی مرمت کرنے والے کی دکان موجود ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141277 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.