جون کا مہینہ حکمران خاندان اور جماعت کے لیے خاصا تکلیف
دہ ثابت ہوا ہے ، اس گرم ترین مہینے میں وزیر اعظم نواز شریف کو سعودی عرب
اور جے آ ئی ٹی کے روبرو دست بستہ حاضری کے لیے پیش ہونا پڑا، یہ امر
حکمران خاندان اور جماعت کے لیے کافی تکلیف دہ امر ہے، اچانک وزیر اعظم پاک
فوج کے سپہ سالار جناب قمر جاوید باجواہ اور دیگر کابینہ ارکان کے ہمراہ
سعودی عرب تشریف لے گئے۔
تکلیف دہ اس لیے کہ جے آئی ٹی میں ان افسران کے سامنے بطور ملزمان پیش ہونے
کے دن دیکھنے پڑے جو اپنی ترقی اور پوسٹنگ کے لیے ان کے گھر کے باہر کھڑے
ہوتے رہے ہیں۔
حکمران خاندان اس حوالے سے بھی پریشان ہے کہ کہیں جے آئی ٹی حسن اور حسین
نواز ، نواز شریف اور شہباز شریف کی پیشی کے بعد شریف خاندان کی دختر مریم
نواز کو بھی نہ طلب کرنے کا پروانہ جاری نہ کردے۔شہباز شریف نے اپنی پیشی
کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے خاندان کے احتساب کرنے کی وہیں
پرانی طوطا کہانی دہرائی جو وزیر اعظم کئی بار پارلیمنٹ اور قوم سے خطاب کے
بیان کر چکے ہیں،۔
شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں بار بار خود کو خادم پنجاب کہا لیکن ایک
بار بھی نواز شریف کو خادم پاکستان نہیں کہا بلکہ انہیں بار بار وزیر اعظم
پاکستان کہتے رہے، اس موقعہ پر کچھ لوگوں نے کہا کہ کیا خادم کا لقب یا
خطاب کا ٹائیٹل شہباز شریف نے اپنے نام رجسٹرڈ کروا رکھا ہے کہ نواز شریف
اسے استعمال نہیں کر سکتے ، شہباز شریف کوئی تین گھنٹے سے زائد جودیشل
اکیڈمی میں زیر تفتیش رہے، حکومت کے اعلان کے باوجود مسلم لیگی ارکان
پالرلیمنٹ اور جماعتی ورکروں کی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔
جے آئی تی کو متنازعہ بنانے کے لیے باقاعدہ مہم جاری ہے، جے آئی ٹی کا نام
اور کام متنازعہ بنانے کے لیے حکمران جماعت کے ارکان خصوصا وزرا کسی لگی
لپٹی کے بغیر بیانات جاری کر رہے ہیں، حالانکہ حکمران جماعت اور خاندان کو
شکایت صرف جے ٓائی ٹی کے دوارکان سے ہیں، لیکن بدنام تمام ممبران کو کیا جا
رہا ہے، جے آئی ٹی میں سول ممبران کے ہمراہ پاک فوج کے افسران بیٹھتے ہیں،
اس پروپیگنڈا مہم کے ذریعے پاک فوج کے افسران کی عزت اور شہرت مجروح ہونے
کا امکان ہے۔
مشہور بر روایات وزیر اعظم پاکستان سعودی عرب اور قطر کے درمیان پیدا ہونے
والی کشیدگی کی صورتحال سے بہت رنجیدہ تھے، اور وہ دو برادر ممالک کے
درمیان صلح صفائی کا مشن لے کر ریاض پہنچے، جبکہ ایک اور روایت کے مطابق
سعودی عرب کے شاہ سلمان کی جانب سے وزیر اعطم کو ریاض طلب کیاگیا تھا، تاکہ
ان سے قطر کے معاملے پر دوٹوک موقف اپنانے کا مطالبہ کیا جائے اور ان کے
موقف سے آگاہی حاصل کی جائے۔
وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب مقاصد کے حصول میں کس حدتک قرار دیا جا سکتا
ہے ؟ اس سوال کا جائزہ لینے سے قبل اس بات کوذہن نشین رکھنا ہوگا کہ وزیر
اعظم نواز شریف اور آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ سعودی عرب جانے والے
بھاری بھرم وفد کے اس دورہ کو سعودی عرب تک کیوں محدود رکھا گیا؟ اس وفد نے
قطر سمیت خلیج کے دیگر ممالک کا موقف جاننے زخمت کیوں نہیں اٹھائی، بحرین ،امارات،مصر
سمیت بہت ساریممالک کا موقف وہیں تھاجو سعودی عرب کا نکتہ نظر ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو قطری حکمران خاندان سے پاکستان کے حکمران
خاندان کے مراسم اور کاروباری شراکت داری کے باعث تشویش ہے، اس کا خیال ہے
کہ ان خصوصی ذاتی اور کاروباری مراسم کے باعث نواز شریف حکومت کہیں کھل کر
ساتھ دینے سے کنی کترا نہ جائیں۔ شنید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے ایسے
تمام خدشات اور تحفظات پر سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے،۔
سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف اسلامی عسکری اتحاد کے
کمانڈر انچیف ہوتے ہوئے اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کروانے سے قاصر
سمجھے گئے؟ یاانہوں نے اس معاملے میں کودنا مناسب نہیں سمجھا؟ یقیناًیہ
سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے، موجود آرمی چیف کی ضرورت کیوں پیش آئی؟حکومت
پاکستان کو یا حکومت سعودی عرب کو ان خبروں کی وضاخت کردینی چاہیے جن میں
کہا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف اسلامی عسکری اتحادسے الگ ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے عمرہ کے لیے سعودی عرب جانے اور عید وہاں کرنے ، اور عید کے
فوری بعد لندن روانگی کی خبروں سے بہت چہ میگوئیاں ہونے لگی ہیں، اپوزیشن
کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ پوری حکومت سعودی عرب جا کر بیٹھے گی؟ ان چہ
میگوئیوں پر مبنی الزامات کو سوشل میڈیا میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔
ایک لیگی متوالے نے کہا کہ میاں صاحب کو اس سے قبل کہ بی بی مریم نواز کو
جے آئی ٹی میں طلب کیا جائے اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے اور پانامہ فیصلے
تک حمزہ شہباز شریف کو عبوری وزیر اعطم منتخب کرلینے میں ہی دانشمندی
ہے۔شریف خاندان کو اپنے دماد کیپٹن صفدر کی جوڈیشل اکیڈمی میں طلبی بھی
ہزیمت سے کم نہیں، ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈائریکٹر جنرل آ ئی بی آفتاب سلطان نے جے آئی ٹی
کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آئی بی نے جے آئی
ٹی ارکان کے کوائف جمع کیے ہیں، لیکن کسی رکن کو ڈرایا اور دہمکا نہیں گیا،
آفتاب سلطان نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اعلی عہدوں پر تعینات سول سرونٹس
کے کوائف جمع کیے جاتے ہیں، کیونکہ پانامہ کیس کے ملکی سیاست پر اثرات مرتب
ہو رہے ہیں اس لیے کوائف جمع کرنے لازمی تھا۔
شائد آفتاب سلطان یہ بھول گئے کہ جے آئی ٹی کے ارکان پہلے سے ہی اعلی عہدوں
پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اور ان کے کوائف بھی پہلے سے ہی آئی بی سمیت
دیگر ملکی اداروں کے پاس موجود ہوں گے، لہذا نئے سرے سے کوائف جمع کرنا
سمجھ سے بالاتر ہے۔ آئی بی کے ڈی جی آفتاب سلطان اچھی شہرت کے حامل افسر
ہیں، ان کا شمار بھی حکومت کے قریبی اور حامی افسران میں ہوتا ہے،یقیننا
انہوں نے کوائف جمع کرنے کا عمل حکمرانوں کی آشیر باد سے ہی شروع کیا ہوگا۔
معاملہ چونکہ عدالت کے روبرو ہے اس لیے مذید کچھ لکھنا مناسب نہیں فیصلہ تو
عدالت نے کرنا ہے۔
مسلم لیگ نواز اور ھکومتی وزرا کا یہ کہنا کہ عمران خاں اشتہاری ہے اسے
عدالت میں پیش ہونا چاہیے، عمران کے حامی کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ نثار علی
خان اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیوں نہیں کرتا۔
|