قوم کو ہیجان میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ گویاایسی ان
ہونی کبھی دیکھی نہ سنی کہ حاکمِ وقت ایک ایسی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں جو
اُسی حکومت کے ماتحت ملازمت کرتے ہیں اور حکومت کے ہی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
کوئی دن ہوتے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا تھا، جس میں وزیراعظم
کے خاندان کے پاناما لیکس میں ملوث ہونے کے ثبوت تلاشنے کے لئے جے آئی ٹی
تشکیل دی گئی، جس نے مزید تحقیقات کرنا تھی۔ تب قوم نے دیکھا تھا کہ میاں
نواز شریف، ان کے خاندان کے دیگر افراد انہیں مبارکباد دے رہے تھے، ایک
دوسرے کو مٹھائی کھلائی گئی تھی۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کے مراحل سے لے کر کام
کرنے کے سلسلے تک حکومتی افراد کی طرف سے احتجاج، تضحیک اور اسی قسم کے
سلسلے جاری ہیں۔ اب وزیراعظم کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا وقت آیا تو
غیظ وغضب کی ایک نئی لہر اٹھی، ہر شہر میں مسلم لیگ ن نے ریلیاں نکالیں،
مدعا احتجاج بھی تھا اور اپنے قائد سے اظہارِ یکجہتی بھی۔ بہت سے مقامات پر
تو یہ بھی ہوا کہ کچھ وکلا تنظیموں نے عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔
رہ گئے مشیر وزیر (اور مشیر وزیر بننے کے امیدواران) تو ان کا تو یہ فرضِ
منصبی ہے کہ ہر کام میں حکومت کے حق میں بیان دیا کریں اور مخالف کی مخالفت
کیا کریں۔ انہوں نے بھی جی بھر کر جے آئی ٹی کے خلاف جذبات کا اظہار کیا
اور مسلسل کر رہے ہیں۔
وزیراعظم کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد قوم کو بتایا گیا کہ وہ
پروٹوکول کے بغیر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے دفتر پہنچے۔ مگر دیگر خبروں میں
یہ بھی بتایا گیا کہ وزیراعظم کے وہاں جانے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے
تھے، جن میں پورے علاقے کی صفائی ستھرائی، ڈھائی ہزار سکیورٹی اہلکاران کی
تعیناتی، مطلوبہ جگہ کے تین حصار تھے، دوردراز تک علاقے سیل کر دیئے گئے
تھے۔ گویا سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات تھے، ایسے میں بغیر پروٹوکول کی
خبر بھی خوب ہے۔ گزشتہ دنوں ایک تصویر قوم کو مختلف ذرائع سے دکھائی گئی،
خادمِ اعلیٰ پنجاب ایک رمضان بازار میں داخل ہو رہے ہیں اور وہاں موجود ایک
سکیورٹی گارڈ ان کی تلاشی لے رہا ہے۔ مختلف تبصرے اس تصویر پر ہو رہے ہیں،
یقین جانئے میں نے بہت کوشش کی مگر مجھے اس کے لئے مناسب الفاظ ہی نہیں مل
سکے۔ عام طور پر ایسے بازاروں میں داخلے کے وقت صارفین کی تلاشی نہیں لی
جاتی،(سوائے اس کے کہ وہاں کسی وی آئی پی نے آنا ہو) اور وہ شخص جس کے لئے
پروٹوکول اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے، وہی جہاں سب سے اہم فرد ہوتا
ہے، اگر خود اسی کی تلاشی ہونے لگ جائے تو ایسے منظر کشی کے لئے الفاظ کہاں
سے آئیں گے؟
ایک ہنگامہ یہ بھی برپا ہے کہ صرف شریف خاندان کو ہی کیوں احتساب کا نشانہ
بنایا جارہا ہے؟ جواب بہت سادہ ہے، کہ جب معاملہ پاناما لیکس کا ہے، اور
اسی خاندان کے خلاف درخواستیں دی گئی ہیں، تو دوسرے لوگوں کو اس میں کون
اور کیوں گھسیٹے گا؟ رہے وہ لوگ جن کا میاں شہباز شریف صاحب نے ذکر کیا ہے
کہ انہیں کوئی نہیں پوچھتا ، تو جناب حکومتیں آپ بھائیوں کے ہاتھ میں ہیں،
کرپشن کرنے والوں کو اور کون پوچھے گا؟ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ کرپشن
کا خاتمہ کرے، ایسے لوگوں کی گردن دبوچے۔ اگر حکومت بھی عوام کی طرح واویلا
اور احتجاج کرنے لگے تو یوں جانئے کہ وہ بے بس ہے یا پھر مصلحت کا شکار۔
خاص طور پر ایسی صورت میں جب خود اِنہی لوگوں نے گزشتہ دور میں حکمرانوں کے
خلاف جو اعلانات کئے تھے وہ لوگوں کے ذہن سے ماؤف نہیں ہوئے۔ سابق حکمرانوں
کو الٹالٹکانے کے دعوے تھے، انہیں اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں
تھیں۔ مگر اب کہا جارہا ہے کہ انہیں کوئی نہیں پوچھتا، جناب! جب حکمران ہی
ان لوگوں کو نہیں پوچھیں گے تو عوام کیا کریں گے۔ عوام نے تو اپنا کام
کردیا، انہیں انتخابات کے موقع پر مسترد کرکے ان سے انتقام لے لیا۔ اب اگر
جے آئی ٹی پر اعتراضات ہیں، تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی
تحقیقات کو متنازع قرار دے کر مسترد کرنے کی کوشش کی جائے۔اب ایک طرف جے
آئی ٹی کی تحقیقات کی بنا پر عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ قبول کرنے کی ضرورت ہے
تو دوسری طرف حکومتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے کرپٹ لوگوں کی
گردن دبوچنے کا بندوبست کرنا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ |