تحریر: ایم اے طاہر محمدی، کراچی
مشرق وسطیٰ میں چپقلش کا موضوع اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔پڑوسی ممالک
نیقطر کے سفارتی ، بری ، بحری اور فضائی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جو قطر
کیلئے پریشان کن صورتحال کی گھنٹی بجارہا ہے۔ قطر اپنی غذائی و دیگر اہم
ضروریات انہی ذرائع سے پوری کرتا ہے۔خدشہ ہے کہ بائیکاٹ کے باعث قحط کی
صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو تا چلا
جارہا ہے۔ طرفین کی جانب سے بیان بازی کاسلسلہ جاری ہے۔ایسے میں ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ ہر ممکن طریقے سے معاملے کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کروایا
جاتا لیکن قطر کے دیرینہ دوست ترکی نے تو ممکنہ سعودی جارحیت کو جواز بناتے
ہوئے فوج بھیجنے کا اعلان بھی کر دیا۔ مزید برآں دستیاب اطلاعات کے مطابق
امریکا اور ایران بھی پٹرول کی مدد سے اس ا?گ کو بجھانے کی کوششوں میں خوب
مصروف نظر آرہے ہیں۔
ایک طبقہ فکر کا خیال ہے کہ قطر کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور قطر کے اس
بیان کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ وہ بالکل بے گناہ ہے۔ جب کہ دیگر کا کہنا
ہے کہ سعودی عرب، بحرین، یمن وغیرہ میں بادشاہت مخالف سیاسی تنظیم کی کھل
کر سپورٹ اور ایران نواز ریاست مخالف عناصر کی عرصہ دراز سے سہولت کاری وہ
قابل اعتراض جرائم ہیں جنہیں عرب اتحاد کی جانب سیہضم نہ کیا جانا کوئی
اچھنبے کی بات نہیں۔
کہا جارہا ہے کہ موجودہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب امریکی صدر نے اپنے
پہلے سرکاری دورے کیلئے سعودی عرب کا رخ کیا اور 50 سے زائد ممالک کے
سربراہان سیخطاب کیا، جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ ناقدین کہتے مذکورہ
دورے میں قطر کے خلاف سازش رچی گئی جس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاتے ہی عمل درآمد
شروع کیا گیا۔ اس سوچ کو مزید تقویت تب ملی جب ٹرمپ نے ٹوئٹر پر قطر مخالف
بائیکاٹ کا سہرا اپنے سرسجانا شروع کیا۔ جب کہ عرب اتحاد کے مطابق قطر کے
ناپسندیدہ اقدامات طویل عرصہ سے سیکورٹی اداروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ خطے
کے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب بھی اپنی داخلی اور خارجی ضروریات خاص کر
اسلحے کے حصول کے پیش نظر امریکا سے بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ بہتر
تعلقات کی یہ خواہش صرف سعودیہ ہی کی نہیں بلکہ دیگر ممالک بھی اس دوڑ میں
پیش پیش رہے ہیں۔ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ قطر بھی امریکی نیاز
مندوں کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔
امریکا قطر مضبوط دوطرفہ تعلقات کی کہانی کئی عشرون پر محیط ہے۔ 1973ء میں
باقاعدہ سفارتکاری کا آغاز دراصل اس ’’بے لوث ‘‘ دوستی کا نقطہ آغاز ثابت
ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کے علاقائی سیاسی معاملات پر دونوں کے درمیان ہم آہنگی
پائی جاتی ہے۔ دونوں کے مابین وسیع البنیاد اقتصادی روابط بالخصوص
ہائیڈروکاربن سیکٹر میں قائم ہیں۔ امریکا ہزاروں قطری طلبہ کو ویزے جاری
کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں قطر مشرق وسطیٰ میں وہ واحد ملک ہے جہاں امریکا کی
بیشتر نامور جامعات (یونیورسٹیز) کی شاخیں موجود ہیں۔سفارتی تعلقات کے آغاز
سے اب تک کئی اعلیٰ امریکی عہدیدار ساڑھے 11ہزار مربع کلومیٹر پر قائم اس
چھوٹے سے ملک کی یاترا کر چکے ہیں۔ جن میں سب اہم دورہ مسلم ممالک پر صلیبی
لشکر کشی کا اعلان کرنے والے جارج ڈبلیو بش کا 2003ء کا ہے جس میں انہوں
قطر میں امریکی فوجی اڈے پر تعینات امریکی افواج سے خطاب بھی کیا۔ یہاں یہ
بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ قطر ہی وہ ملک ہے جہاں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا
اور فعال امریکی فوجی اڈا ’’العبید‘‘ ہے جہاں کم از کم 10ہزار امریکی فوجی
اپنے ’’فرائض‘‘ کی انجام دہی کے لیے موجود رہتے ہیں۔ ’’السیلیہ‘‘ نامی فوجی
اڈہ اس کے علاوہ ہے جو 2000ء میں افغانستان اور عراق پر حملوں کے لیے بیس
کیمپ کے طور پر قائم کیا گیا۔
غالبا اب یہ سمجھنا مشکل نہ ہو گا کہ امریکا بہادر سیبہتر تعلقات کی دوڑ
میں قطر بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہ وہ حمام ہے جہاں شاید سب ہی بے لباس
ملیں۔ مشرق وسطیٰ کے سیاہ سونے (Black Gold) کی دولت سے اپنی معیشت کو قوی
کرنے والا بدمست امریکا کسی ایک ملک سے بھی مخلص نہیں ، اس کا ایجنڈا صرف
ایک ہے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ سو وہ کر رہا ہے۔ امریکا دو دھار ی تلوار
کاوہ کردار ادا کر رہاہے جس کیلئے کہا گیا
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
مسلم حکمرانوں کو صدام حسین ثانی بننے کے بجائے امریکا کی چالوں کو سمجھنا
چاہئے۔ ایسے میں اگر کوئی نا عاقبت اندیش بن بلائے مہمان کی طرح لاؤ لشکر
کے ہمراہ چلا آئے گا تو یہ دوراندیشی نہیں نادانی کہلائے گا۔ بغض معاویہ
میں حب علی کا دم بھرنے والوں کودنیا اچھی طرح پہچانتی ہے۔ یہ کشیدہ حالات
مسلم حکمرانوں سے معاملہ فہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح اس
صورتحال کومعمول پر لایا جائے۔ وگرنہ طرفین کے ضد اور ہٹ دھرمی کی روش نہ
چھوڑنے کے باعث ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔
ان تمام چشم کشا حقائق کے بعد بھی اگر کوئی طاقت کسی پر امن ملک میں
افغانستان، عراق، لیبیا اور یمن کی طرح جمہوری نظام لانے کا خواہاں ہے تو
اسے فقط نادان دوستی اور خودکشی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ |