اسلام کے لفظی معانی سلامتی کے ہیں۔ اسلام نہ صرف اپنے
ماننے والوں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لئے سلامتی اور بھائی چارے کا
پیغام ہے۔
21ویں صدی میں دنیا نے جس طرح گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کی اس سے پُر امن
عالمی معاشرے کے قیام کی ضرورت اور اہمیت مزید بڑھی۔ وقت کا تقاضہ تھا کہ
مسلم دُنیا باہمی اختلافات کو پسِ پُشت ڈال کر ایک دوسرے کے قریب آنے اور
ایک دوسرے کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرتیں۔ لیکن افسوس مسلم ممالک
نے حالات کی ضرورت و اہمیت کو بالائے طاق رکھتےہوئے اختلافات کم کرنے کی
بجائے اس خلیج کو وسعت دی ہے۔
یہ ہے قطر جو حالیہ ہفتوں میں اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے قہر کا شکار ہوا
ہے۔ اگر ہم نقشے پر سعودیہ کو دیکھیں تو سعودی عرب کے ساتھ ساٹھ کلومیٹر
بارڈر پر ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک قطر نظر آئے گا۔ قطر کا کُل رقبہ
11586 مربع کلومیٹر ہے۔ قطر کی کُل آبادی 2٫3 ملین کے لگ بھگ ہے۔ 87 مختلف
ممالک کے تقریباََ 2 ملین غیر ملکی اس قطعہ ارضی پر روزگار کے سلسلہ میں
آباد ہیں۔ قطر کی مقامی آبادی مجموعی آبادی کا صرف 12فیصد (تقریباََ 0٫313
ملین) ہے۔ باقی 88 فیصد آبادی کا تعلق دیگر ممالک سے ہے۔ جس میں انڈین سب
سے زیادہ 0.65 ملین یعنی مجموعی آبادی کا 25 فیصد آباد ہیں۔ نیز یہاں 0٫13
ملین (مجموعی آبادی کا 5 فیصد) پاکستانی بھی بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔
قطر دُنیا میں سب سے زیادہ ایل پی جی بنانے اور ایکسپورٹ کرنے والا مُلک
ہے۔ دُنیا کا امیر ترین ملک اور اس کا شمار دُنیا کے پہلے دس محفوظ ترین
ملکوں میں ہوتا ہے (جی ڈی پی 129726 ڈالر فی کس)۔
کچھ دن قبل 6 ممالک بشمول سعودی عرب و متحدہ عرب امارت نے قطر سے سفارتی
تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس قدر عجلت و شدت سے متوقع نہیں
تھا۔ اس لئے قطری عوام اور دُنیا بھر میں اس قطع تعلقی کو ناپسندیدہ نظروں
سے دیکھا گیا۔ ستم یہ بھی ہوا کہ صرف سفارتی تعلقات کے انقطاع تک قدم نہیں
اُٹھایا گیا بلکہ سعودی عرب ، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کو
اپنی فضائی و زمینی حدود استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔ قارئین کرام تصور
کریں کہ ایک ایسا ملک جس کا خشک بارڈر صرف سعودی عرب سے ملتا ہو اور باقی
اطراف سمندر ہو۔ یعنی سڑ ک کے راستے وہ 100 فیصد برآمدات کے لئے سعودی عرب
کا محتاج ہو۔ اور اکثریتی بحری و فضائی راستے کے لئے وہ سعودی عرب، دوسری
طرف بحرین، متحدہ عرب امارات سے استفادہ کرتا ہو، اس کے لئے یہ تمام ممالک
خشکی، بحری اور فضائی پابندیاں لگا دیں تو اس ملک کی معاشی، اقتصادی و
معاشرتی زندگی کا کیا حال ہوگا۔ قطر میں ڈیری پراڈکٹس مثلاِِ دودھ، دہی
وغیرہ کی زیادہ مقدار سعودی عرب سے ہی برآمد کی جاتی تھی۔ لیکن اب پابندیوں
کی وجہ سے یہ چیزیں وافر مقدار میں موجود نہیں ہیں۔ قطر کی جغرافیائی
صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے غزہ یاد آرہا ہے، جس کے خشک بارڈر صرف
اسرائیل سے ہی ملتا ہے، اور باقی اطراف سمندر ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ
یہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ نہیں، بلکہ مسلم ہمسایہ ریاستوں کے درمیان
معاملات ہیں۔ مسلمان اکثریتی آبادی کا معاشی و اقتصادی بائیکاٹ کر نا ہرگز
بھی عقلمندی یا انسانیت نہیں کہلائے گا۔ اگر قطری حکومت نے سفارتی وعالمی
قوانین کے برخلاف اقدامات کیئے ہیں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ قطر میں موجود
2٫3 ملین سے زیادہ آبادی کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے۔ قطر کے کردہ
جرائم میں سے ایک جرم ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے
کہ قطر کا بائیکاٹ کرنے والے متحدہ عرب امارات میں ایرانی عوام کی ہزاروں
کاروباری کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔
حرمینِ شریفین کی نسبت سے سعودی عرب کو مسلم اُمہ میں بڑے بھائی کا کردار
ادا کرنا چاہیے لیکن وہ اجارہ داری کی جنگ میں امریکہ اور دوسرے ممالک کے
ہاتھوں کھیل رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ
قطر کے معاملے میں انہوں نے ریاض سمٹ کے موقع پر سعودی حکومت سے اقدامات کا
کہا تھا، جس کے ردعمل کے طور پر یہ سفارتی و معاشی بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ بعد
ازاں ٹرمپ کے ٹویٹس نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ جرمن کے وزیر
خارجہ نے کہا ہے کہ قطر کا بحران جنگ کی طرف لے جا سکتا ہے۔ کیا مسلم دنیا
نے کویت، عراق، یمن، شام ، ایران ، افغانستان، لیبیا، مصر کے ماضی قریب و
بعید کے حالات و واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا؟ کیا بڑے اسلامی ممالک
امریکہ کے ساتھ مل کر کُرہ ارض پر ایک اور مسلمان ملک کو آگ اور خون میں
دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسلام کا نام لینے والے، مملکت اسلامیہ کہلوانے اور اس
پر اظہارِ تفاخر کرنے والی ریاستیں اسرائیل جیسا کردار ادا کرنے سے اجتناب
کریں۔ مسلم دُنیا کو فرقہ وارانہ یا علاقائی تعصب کی بُنیاد پر تقسیم کرنے
اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
تنازعات کا حل چہار طرفہ پابندیوں اور بزورِ قوت محال ہے۔ اقوامِ عالم کو
اسلام کے نام پر مذاکرات، برداشت، بھائی چارے، نیک سلوک کا درس دینے والے
اسلامی ممالک خود اس پر کتنے عمل پیرا ہے، یہ معاملات ہر خاص و عام کی سمجھ
کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان میں جو علمائے کرام اور راہنما سعودی عرب کی
اسلامی اقدار اور اہمیت کی مالا جپتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی مصلحتوں کے تحت
تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مصداق خاموش ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور
ترکی کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اہم ممالک ثالث کا کردار ادا
کرتے ہوئے معاملات کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی صرف
اس صورت میں ممکن ہے جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکن آشیر باد سے
آزاد ہو کر امن اور بھائی چارے کی طرف مائل ہوں۔
|