کہتے ہیں ’’چور چوری سے جائے ،ہیراپھیری سے نہ جائے‘‘
تو چلو آج ہم بھی یوٹرن لیتے ہوئے ’’ہیراپھیری‘‘ کرکے ایک دفعہ پھرسیاسی
کالم لکھتے ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے پرسیاسی
کالم تو بنتا ہے۔ میاں صاحب نے بھی ’’پاکستان کھپے‘‘ کا سا انداز اپناتے
ہوئے جے آئی ٹی میں پیشی سے پہلے کہا ’’پاکستان کے لیے میری جان بھی حاضر
ہے ۔یہ نادان نہیں جانتے میرے لیے وزارتِ عظمیٰ نہیں ،پاکستان عزیز ہے۔ میں
نے تو ہر دَور میں احتساب کا سامنا کیا ،یہ تو میرا اپنا دَور ہے۔ پاکستان
کی ترقی پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے‘‘۔
میاں صاحب کے اِس بیان پر لیگیئے بہت خوش تھے۔ ایک لیگیئے نے ملاقات پر بڑے
فخر سے کہا ’’دیکھا! اِسے کہتے ہیں میڈ اِن پاکستان‘‘۔ ہم نے کہا ’’یہ سب
کچھ کپتان صاحب کی بدولت ہے جن کے ڈَر سے نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ ادارے
بھی محبّ ِ وطن بنے بیٹھے ہیں‘‘۔ لیگیئے نے مُنہ ٹیڑھا کرکے طنزیہ ہنسی
ہنستے ہوئے کہا ’’یہ آپ نے بالکل درست کہا ۔کپتان سے واقعی سبھی ڈرتے ہیں
لیکن بالکل ویسے ہی ،جیسے کوئی پاگل ہاتھ میں پتھر لے کر سڑک پر آ جائے تو
سبھی عقیل وفہیم ’’دُڑکی‘‘ لگا جاتے ہیں کیونکہ کسی کو ’’کَکھ‘‘پتہ نہیں
ہوتا کہ پاگل کا پتھر کِس کے ’’کھُنّے سیک‘‘ دے‘‘۔ اُس بدتمیز کی یہ باتیں
سُن کر ہم نے جَل بھُن کر سیخ کباب ہوتے ہوئے کہا ’’ویسے تو تم لوگوں کو
کپتان صاحب کی غیرپارلیمانی زبان پر بہت اعتراض ہے ،لیکن کبھی اپنے گریبان
میں جھانک کر دیکھا؟۔ تم لوگوں نے تو انتہا کر دی ہے ۔تمہارے تو وزیر شزیر
بھی اِس سے باز نہیں آتے ۔خواجہ آصف سیالکوٹی نے پہلے شیریں مزاری کو
’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہا اور اب فردوس عاشق اعوان کو ’’ڈَمپر‘‘ہی کہہ دیا۔
دانیال عزیز ،طلال چودھری اور رانا ثناء اﷲ ہر روز کہیں نہ کہیں مجمع لگا
کر ایسی ایسی الزام تراشیاں کرتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ کبھی سیتا وائٹ کا
ذکر ہو رہا ہوتا ہے تو کبھی ٹیرن وائٹ کا۔ ایک ’’مجمع باز ‘‘ نے تو یہاں تک
کہہ دیا کہ اگر پاکستان میں اسلامی حکومت ہوتی تو کپتان کو سنگسار کر دیا
جاتا ۔ کیا یہ پارلیمانی زبان ہے؟‘‘۔ اُس نے کہا ’’بی بی ! خربوزے کو دیکھ
کر ہی خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ ابتداء کپتان نے کی، انتہا ہم کر رہے ہیں۔ ویسے
بھی شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے والا احمق ہوتا ہے اور
یہ حماقت آپ کے کپتان صاحب ہی سے سَرزد ہوئی ،ہم سے نہیں۔ جِس جے آئی ٹی کے
عشق میں کپتان صاحب ’’گوڈے گوڈے‘‘ ڈوب چکے ہیں ،پہلے اُسی جے آئی ٹی کو
ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اب اِس ’’اُلفت‘‘ کی وجہ یہ ہے کہ جے آئی
ٹی بھی کنٹینر پر چڑھ چکی ہے۔ اُس نے بھی کپتان صاحب کی طرح اخباری تراشوں
،ٹاک شوز اور سوشل میڈیا کا سہارا لے کر سپریم کورٹ میں کئی صفحات پرمشتمل
’’شکایت‘‘درج کرا دی ہے جبکہ سبھی متعلقہ اداروں نے مکمل ثبوتوں کے ساتھ
سپریم کورٹ میں یہ جواب جمع کروایا ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات جھوٹ پر
مبنی ہیں۔ کپتان صاحب کو جے آئی ٹی میں چونکہ اپنا ہی عکس نظر آیا ،اِس لیے
وہ اِس کی تعریف میں رطب اللساں ہو گئے‘‘۔ باتیں تو اُس کی سچ ہی تھیں اِس
لیے ہم نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
بات میاں صاحب کی جے آئی ٹی میں پیشی سے شروع ہوئی تھی، نکل کسی دوسری طرف
گئی ۔ آمدم بَرسرِمطلب ،ہمارا خیال تھا کہ میاں صاحب جے آئی ٹی کے سامنے
پیش ہونے کی بجائے لیت ولعل سے کام لیں گے جس پر خوب ’’ دھوم دھڑکا‘‘ہو گا۔
کپتان صاحب نے تو سونامیوں کو تیار رہنے کا حکم بھی دے دیا تھا ۔اُن کا
خیال تھا کہ نوازلیگ ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی پر
حملہ آور ہو سکتی ہے اِس لیے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی حفاظت کی جائے۔ ہم
بھی نہ صرف کمربستہ تھے بلکہ ہم تو چشمِ تصور میں اِس ’’دھینگا مشتی‘‘ کو
دیکھ کر خوش بھی ہو رہے تھے لیکن ہوا ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں۔ میاں صاحب بنا کسی
پروٹوکول اور حفاظتی دستے کے وزیرِاعظم ہاؤس سے نکلے ،یہ محض تین گاڑیوں پر
مشتمل قافلہ تھا جن پر میاں شہباز شریف ،حسین نواز ،حمزہ شہباز اور
وزیرِاعظم کے مشیر آصف کرمانی سوارتھے۔ کوئی ’’ہَٹو ، بچو‘‘ کا شور نہ
اُٹھا اور میاں صاحب سیدھے جوڈیشل اکیڈمی پہنچ گئے۔ میاں شہباز شریف اور
حمزہ شہباز کو ساتھ لانے کا مقصد شاید یہ ہو کہ وزیرِاعظم صاحب کسی کو ’’ہم
سب ایک ہیں‘‘ کا پیغام دینا چاہتے ہوں۔ حالانکہ اِس کی ضرورت نہیں تھی
کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کا اُتنا ہی
احترام کرتے ہیں ،جتنا اپنے مرحوم باپ کا۔
جوڈیشل اکیڈمی میں تین گھنٹے تک سوال وجواب کی نشست ہوئی جس کے بعد اُنہوں
نے میڈیا سے مختصر خطاب کیا اور واپس روانہ ہو گئے۔ میڈیا سے خطاب میں
اُنہوں نے کہا ’’میں نے پائی پائی کا حساب دے دیا ہے۔ہم پر سرکاری خزانے کی
خورد بُرد یا کرپشن کے الزامات نہیں بلکہ شریف خاندان کے ذاتی کاروبار اور
معاملات کو اُچھالا جا رہا ہے ۔احتساب کا سلسلہ میری پیدائش سے پہلے 1936ء
سے شروع ہو کر آئندہ نسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ایسا کوئی خاندان نہیں جس کی
تین نسلوں کا ایسا بے رحمانہ احتساب ہوا ہو۔سب یاد رکھیں کہ عوامی جے آئی
ٹی اور عدالت بھی لگنے والی ہے جو 2013ء سے بھی زیادہ ہمارے حق میں فیصلہ
کرے گی۔ عوام کے فیصلے روند کر مخصوس ایجنڈے چلانے والی فیکٹریاں بند نہ
ہوئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ،ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے مُڑنے نہیں دیں گے ۔وہ زمانے گئے جب سب کچھ پردوں
کے پیچھے چھپا رہتا تھا ۔کٹھ پُتلی تماشا اب ختم ہونے والا ہے‘‘۔
وزیرِاعظم صاحب کے پریس خطاب کے بعد کپتان صاحب نے کہا ’’ وزیرِاعظم نے فوج
اور عدلیہ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ہم اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں ‘‘۔ لیکن
ہمارا ’’ ارسطوانہ تجزیہ‘‘ یہ ہے کہ وزیرِاعظم صاحب نے ’’کَٹھ پُتلی‘‘
کپتان صاحب کو کہا ہے جن کی ڈور دور ،کہیں دور ، سات سمندر پار سے ہلتی ہے
۔اگر کسی کو یقین نہ آئے تو مولانا فضل الرحمٰن سے رجوع کرے جنہوں نے اِس
معاملے میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔
لال حویلی والے شیخ رشید نے ایک اور پیشین گوئی کر دی کہ پانچ اووَرز کا
میچ باقی رہ گیا ہے۔ نون لیگ کا سیاسی تابوت سپریم کورٹ ہی سے نکلے گا ۔
شیخ رشید کی اِس پیشین گوئی کے بعد کم از کم ہمیں تو یقین ہو گیا ہے کہ اب
2023ء تک نوازلیگ ہی کی حکومت رہے گی کیونکہ شیخ صاحب کی ہر پیشین گوئی کی
تعبیر ہمیشہ اُلٹ ہی ہوتی ہے ۔ ویسے تو تحریکِ انصاف کی ترجمانی کرنے کے
لیے شیخ رشید ہی کافی تھا لیکن اب فواد چودھری بھی سامنے آ گیا ہے۔ موصوف
کبھی آمرپرویز مشرف کے گُن گایا کرتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کپتان صاحب کے
ساتھ اُس کے تعلقات اُسی دَور میں استوار ہوئے ہوں کیونکہ اُس وقت کپتان
صاحب بھی پرویزمشرف کے چاہنے والوں کی فہرست میں شامل تھے۔ جب پرویز مشرف
کو زوال آیا تو فواد چودھری نے پیپلزپارٹی میں چھلانگ لگا دی ۔آجکل وہ
تحریکِ انصاف کا ترجمان ہے ۔اُس نے کہا ’’ وزیرِاعظم جے آئی ٹی میں بطور
مجرم پیش ہو رہے ہیں‘‘۔ فواد چودھری کا بیان پڑھ کر ہمیں یقین ہو گیا کہ
موصوف کے پاس بھی لاء کی ویسی ہی ڈگری ہے ،جیسی بابر اعوان کے پاس ڈاکٹریٹ
کی۔ قانون کا ادنیٰ سا طالب علم بھی ’’ملزم اور مجرم‘‘ کا فرق جانتا ہے ۔
میاں نوازشریف ملزم ہیں نہ مجرم اور نہ ہی اُنہیں کوئی سمن جاری ہوا۔اُن کے
خلاف نہ کوئی ایف آئی آر کٹی اور نہ ہی مقدمہ درج ہوا ،پھر بھی اُنہیں ملزم
یا مجرم کہنے والا کوئی احمق ہی ہو سکتا ہے ۔ اُنہیں جے آئی ٹی نے کچھ
معاملات کی تصدیق یا تردید کے لیے نوٹس بھیجا جس پر میاں صاحب نے جے آئی ٹی
میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میاں صاحب کی اِس ادا پر لاکھوں لوگوں نے ٹویٹ
کیا ’’نواز شریف اِز مائی پرائیڈ‘‘۔ ٹویٹر پر یہ ٹویٹ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ۔فواد
چودھری کہتا ہے ’’آج نواز لیگ رو رہی ہے ‘‘۔ لیکن حقیقت اِس کے برعکس ،نواز
لیگ رو نہیں رہی بلکہ فخر سے سَربلندکھڑی ہے ، آج اُس نے ثابت کر دیا کہ وہ
آئین و قانون کی حکمرانی کی محافظ ہے۔ |