پاکستانی عوام نے یہ تاریخی لمحہ بھی دیکھاکہ ملک
کاوزیراعظم عدالت عظمیٰ کی حکم کے مطابق تشکیل دئے گئے جے آئی ٹی کے سامنے
پیش ہوئے انکی اس پیشی کو اپنے اپنے نقطہء نظرسے دیکھاجارہاہے وزیراعظم کے
پاس کوئی دوسراراستہ نہیں تھا اورانہوں نے تاریخ رقم کی یہ دومختلف آراء
سامنے آرہی ہیں اس پیشی کو ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی کی جانب قدم
قراردینے والوں کی بھی کمی نہیں اوراسے مجبوری قرار دینے والے بھی
گلاپھاڑرہے ہیں تیسری مرتبہ ملک کے منتخب شدہ وزیراعظم پرالزام ہے کہ انکی
دولت کرپشن کے بطن سے جنم لیکرپیداہوئی ہے اورانہوں نے اپنی سرکاری حیثیت
کاناجائزفائدہ اٹھاکراپنے کاروبارکووسعت دی ،غیرقانونی ذرائع سے کمیشن وصول
کئے اوراس دولت کوملک سے باہرمنتقل کرکے اپنے بچوں کے نام کرایاگیا پاکستان
میں حکمرانوں پرکرپشن کے الزامات کوئی نئی بات نہیں اگرہم زیادہ دورکی کوڑی
لانے کی بجائے نوے کی دہائی کاجائزہ لیں توبینظیربھٹوکی پہلی حکومت غلام
اسحاق خان نے کرپشن الزامات لگاکرہی برطرف کی اسکے بعد1993میں نوازشریف
حکومت بھی کم وبیش انہی الزامات کے تحت برطرف ہوئی1996میں بینظیرحکومت اپنے
صدرفاروق لغاری کے ہاتھوں کرپشن ہی کے الزامات پررخصت ہوئی اسی طرح 1999
میں مشرف نے طیارہ سازش کیس کے علاوہ کرپشن کے سخت ترین الزامات
لگاکرنوازشریف کوناصرف حکومت سے محروم کیابلکہ انہیں جیل بھی بھیجاگیاایک
سال تک انہیں جیل سے عدالتوں اورکچہریوں کے چکرلگوانے کے
بعدپراسراطورپرسعودی عرب بھیجاگیا انہیں کس قانون کے تحت رہائی نصیب ہوئی
اوران پرکرپشن کے الزامات کاکیابنایہ سوال ریاست کے ذمے قرض ہے اس وقت
جوحکومت موجودتھی اسے عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے آئینی جوازفراہم کیاگیاتھااس
حکومت کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں دس بیس سال بعدان
فیصلوں پرشورمچاناقرین انصاف نہیں اگراس حکومت کے فیصلے منسوخ کرنے
مقصودہیں تویہ ساری حکومت ہی منسوخ ہونی چاہئے ویسے بھی آئینی حکومت
کوغیرآئینی طریقے سے رخصت کرنااب آئینی طورپربغاوت کے زمرے میں آتاہے اس
طرح ملک کے ان گنت سیاستدان اس حکومت میں شامل تھے انہیں چن چن کرسزادینااب
ممکن نہیں نوازشریف یقیناًغیرآئینی طورپرباہرگئے مگریہ ماضی کاقصہ ہے اس
ماضی میں این آراوبھی آتاہے ،ریفرنڈم بھی آتاہے،پیٹریاٹ بھی قابل احتساب
ہے،کارگل کی بے جامہم جوئی بھی جواب طلب ہے اورسب سے بڑھکرعدالت عظمیٰ جواب
دہ ہے کہ اس نے ایک آمر کے غیرآئینی اقدامات کوتحفظ فراہم کیاقابل احتساب
لوگوں کے لشکرمیں محض شریف خاندان کااحتساب سمجھ سے بالاترہے یہ بات اظہرمن
الشمس ہے کہ اس ملک کے99.99%سیاستدان قابل احتساب ہیں یہاں تقریباًسب نے
اپنے اپنے حصے کابراکرداراداکیاہے دیگرلوگوں پرکرپشن کے زبان زدعام قصے
بھلاکرحکمران خاندان کورگڑاجارہاہے بہرحال شریف خاندان نے
اقتدارواختیارہونے کے باوجوداپناحساب دینامناسب سمجھاپانامہ لیکس کامعاملہ
سامنے آتے ہی وزیراعظم نے خود کواحتساب کیلئے پیش کرنے کی پیشکش کی
مگراپوزیشن اور حکومت کی سوئی ٹی اوآرزپرآکراٹک گئی اس ڈیڈلاک کاخاتمہ
عدالت عظمیٰ کی جانب سے بینچ تشکیل دئے جانے پرہوا عدالت عظمیٰ نے بینچ
بنایابینچ نے جے آئی ٹی بنائی اورجے آئی ٹی اپنامطلوبہ کام کرنے میں مصروف
ہے اس دوران وزیراعظم سمیت انکے دونوں صاحبزادوں اور بھائی وزیراعلیٰ پنجاب
کوجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوناپڑااورانہوں نے پیش ہونے کومعیوب نہیں
سمجھاجے آئی ٹی کوکچھ محکموں سے شکایات ہوئیں شریف خاندان کوبھی جے آئی ٹی
کے بارے میں تحفظات رہیں مگراس سب کے باوجودعدالت عظمیٰ کی زیرنگرانی کام
ہورہاہے اورتوقع ہے کہ چارماہ سپریم کورٹ بینچ کی سماعت اورساٹھ دن(ساٹھ دن
مزیدلگ سکتے ہیں) جے آئی ٹی کی تفتیش کے بعدجورپورٹ سامنے آئیگی اسے تسلیم
کرناحکمران خاندان کیلئے ضروری ہوگامگرعمران خان کی سیاست چونکہ نوازشریف
کے گردگھوم رہی ہے لہٰذا انہوں نے حکمران خاندان کونشانے پہ رکھاہواہے
اورانکے ہمنوانوازشریف کونفرت کی علامت کے طورپرپیش کررہے ہیں حالانکہ
نوازشریف اس ملک کے مقبول لیڈرہیں انہیں چاہنے والے یقیناًخان صاحب اورشیخ
رشیدسے زیادہ ہیں جس کاثبوت انکاتیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوناہے ملک میں
ہونے والے چارانتخابات میں نون لیگ نے لیڈنگ پوزیشن حاصل کی ہے اب اگروہ جے
آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں نااہل ہوتے ہیں توانکی پارٹی اسکے باوجودزندہ
رہیگی اوراسے انتخابات میں ہراناخان صاحب کی تحریک انصاف ،طاہرالقادری صاحب
کی عوامی تحریک ،شیخ رشیدکی یک رکنی مسلم لیگ،آصف زرداری اوربلاول کی نئی
پیپلزپارٹی یامشرف کے سنگ اقتدارکے مزے لوٹنے والے چوہدری برادران کاسب سے
بڑامسئلہ ہے اوراس مسئلے سے نمٹنے کیلئے شریف خاندان کی کرپشن
کواچھالاجارہاہے مخصوص سیاسی مفادات کی خاطرایک مقبول سیاسی لیڈر کی
کردارکشی منظم اندازمیں ہورہی ہے بعض سیاسی لیڈروں کی سیاست سے اگرنوازشریف
کے خلاف بیانات حذف کرادئے جائیں توانکے پاس سیاست کیلئے کوئی نعرہ ہی نہیں
بچتاسیاست کیلئے ملکی سلامتی سے کھیلنے والی روش سے ملک وقوم کوکوئی فیض
ملناممکن نہیں آج سیاستدانوں نے اپنی داڑھی عدلیہ کے ہاتھ میں دے رکھی ہے
کل فوج کوآوازیں دی جارہی تھیں فوج نے اقتداربخوشی نہیں سنبھالااسی
اندازمیں عدلیہ کوبھی اپنے کام سے روک کر آئینی اورسیاسی مسائل میں
الجھایاگیاہے جب عدلیہ کے پاس سیاسی کیسوں سے فرصت نہ ہوتولازمی بات ہے لوگ
مرنے کے سولہ سال بعدہی بری ہونگے گزشتہ فوجی حکومت نے سیاستدانوں کویہ سبق
تودے دیاکہ تیسری اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے مگراب بھی سیاستدان
بالغ نظری اورتدبر کاروئیہ اپنانے کی بجائے عدلیہ کوسیاست میں گھسیٹ رہے
ہیں بہت جلداس روئیے پرپچھتاناپڑیگاوزیراعظم نوازشریف کی جے آئی ٹی کے
سامنے پیش ہونااس بات کاثبوت ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی مضبوط ہورہی
ہے الیکشنزکاانعقاداپنے وقت پرہوتوعوام سب سے بڑی جے آئی ٹی
ہیں2002اور2008والی اسمبلیوں کی اکثریت اب منظرسے غائب ہے مگروہی لوگ دوسری
پارٹیوں کاحصہ بنکراقتدارکیلئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں وہ اسمبلی کی
آئینی مدت پوری ہونے کی بجائے اسے رخصت کرکے حکومت میں آناچاہتے ہیں اپنی
خواہش کی تکمیل کیلئے انہوں نے ملک کوسرپہ اٹھایاہواہے اگرشیخ
رشیدکونوازشریف معاف کردیتے تو آج طلال چوہدری اورسعدرفیق کی بجائے وہ
نوازشریف کی مدح سرائی میں مصروف ہوتے بہرحال جے آئی ٹی کے سامنے نوازشریف
کی پیشی معمولی واقعہ نہیں انہوں نے عدالتوں اوراداروں کے احترام کی روایت
قائم کی ہے جوسراہے جانے کے قابل ہے یہ پیشی مجبوری تھی یاقانون کی پاسداری
اس بات سے قطع نظر مستقبل کے سیاسی اورقانونی منظرنامے پراسکے دوررس اثرات
مرتب ہونگے اب عدالتوں کومطلوب دیگرسیاستدان بھی رضاکارانہ طورپرخودعدالتوں
میں پیش ہوں ورنہ کوئی بعیدنہیں کہ انہیں بھی باامرمجبوری پیش ہوناپڑے۔
|