واہ عزیزی واہ

آج سے دو، تین سال پہلے پاکستانی فنکاروں کا ایک گروپ برطانیہ میں اپنے شوز کرنے آیا تھا - ان میں پاکستان کے دو چوٹی کے فنکار بھی شامل تھے. یہ کسی تعارف کے محتاج نہ تھے مگر شو آرگنائزرز کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ انکو اپنے شو کے ٹکٹ بیچنے اور شو کی مشہوری کے لیے لوکل میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے. میں ان دنوں ایک برطانوی ٹی وی چینل پہ صبح کے پروگرام کی میزبانی کرتا تھا. میری ساتھی میزبان ایک پنجابی انڈین لڑکی تھی.

اس روز جیسے ہی وہ دو فنکار ہمارے شو کا حصہ بننے کے لیے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اور ہرپریت نے جیسے ہی سہیل احمد کو دیکھا تو بڑے اشتیاق سے بولی " پا جی ! بابا ڈانگ آ گیا " آج کا عزیزی کل کا بابا ڈانگ تھا. بابا ڈانگ ایک کردار تھا جو لاہور، کراچی، راولپنڈی اور پشاور میں تو شائد دھندلا گیا ہو مگر امرتسر، جالندھر اور لدھیانے میں تب تک زندہ تھا. یہ ہوتی ہے ایک اچھے فنکار کی خوبی کے اسکا کردار اسکی پہچان بن جاتا ہے. ہمارا یہ پروگرام برطانیہ اور یورب میں لاکھوں لوگ دیکھتے تھے اور اس روز کی ٹیلی فون کی کالوں سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کردار کتنا مشہور تھا اور کردار نبھانے والے نے کس کمال سے لوگوں کے ذہنوں پر اپنی چھاپ چھوڑی.

اب پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر کل کا بابا ڈانگ آج کا عزیزی ہے. ایک ایسا کردار جو اپنی کم علمی اور سادگی میں علم اور منطق کی باتیں کرتا ہے. عزیزی ایک عالمگیر کردار ہے جسمیں پاکستان بستا ہے جس کی باتیں ایک مفکر کی باتیں ہوتی ہیں اور جو عام شخص کا درد اپنے چٹکلوں اور لطیفوں میں بیان کرتا ہے.

پاکستان میں ایسے عزیزی پہلے بھی نظر آئے، لوگوں کو ان سے بہت سی امیدیں تھی کبھی یہ عزیزی کسی مذہبی جماعت کے پلیٹ فارم سے ابھرے اور کبھی کھیل کے میدان سے – کبھی ان کا جنم فوج کی صفوں سے ہوا اور کبھی یہ فنون لطیفہ کے پس منظر سے ابھرے . لوگوں کو ان عزیزیوں سے یہ امید تھی کہ یہ کچھ انقلابی کام کر پائیں گے. ٹی وی چینل پہ ابھرنے والے عزیزی کو تو کیمرے کی آنکھ ہی دنیا تک پہنچاتی ہے مگر وہ عزیزی جو کبھی پاکستان کے قومی ہیرو تھے جب اصل میدان سیاست اور زندگی کی دور میں قوم کو راحت دینے نکلے تو ناجانے کیوں چند سالوں میں ان کے اندر کا عزیزی مر گیا اور وہ شخص ابھرا جس نے کرپٹ نظام میں خود کی تحلیل کر لیا.

معاشرے میں سدھار ذاتی کردار سے آتا ہے اور ذاتی کردار میں عزیزی ہونا لازم ہے. زندگی اسقدر پیچیدہ نہیں ہوتی جتنی ہم بنا لیتے ہیں. یہ دستور زمانہ ہے کہ جس کو موقع ملا اس نے نظام کا استحصال کیا. گو کہ میں برطانیہ میں رہتا ہوں اور پچھلے سال تک میرے سامعین اور ناظرین کی تعداد لاکھوں میں تھی مگر میری پیدائش حد متارکہ جنگ والے کشمیر کی ہے اور کشمیر کے دور افتادہ علاقوں میں ہر علاقے اور قصبے میں ایک عزیزی بستا ہے اسے لوگ بابا، چاچا، بابو جی یا ماسٹر جی کے نام سے جانتے تھے ان عزیزیوں کے پاس کسی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی مگر ان کے فیصلے بڑے شاندار ہوتے تھے انکی انسان دوستی سے لوگ رحم اور شفقت سیکھتے اور ان کے علم و تدبر سے لوگوں میں تہذیب کا چراغ روشن رہتا اور بڑے سے بڑے مقدمے کا حل یہی بابے نکالتے.

پاکستان کے اس نجی ٹی وی چینل نے عزیزی کے اس کردار میں پھر سے پاکستانی قوم کو ایک بابا دیا ہے جو پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات پہ تبصرہ ایسے کرتا ہے جیسے ایک دید بان اپنی فوجوں کو دشمن کی حرکات و سکنات کی خبر دیتا ہے. عزیزی کے دوست جنید سلیم اور ناجیہ ہی نہیں بلکے ہر وہ شخص ہے جو اس ڈائیلاگ کا حصہ ہے. پاکستان اور پاکستان سے باہر بسے لوگ نہ صرف اس آدھ گھنٹے میں خوش ہو جاتے ہیں بلکہ جب جب عزیزی اور اسکی ٹیم یہ شو ختم کرتے ہیں تو جاتے جاتے اپنی مسکراہٹوں میں کروڑوں کی تربیت کرتے جاتے ہیں.

میری ناقص رائے میں ایسے کرداروں کو معاشرے میں کھوجنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ لوگ اپنی عمروں کے تجربوں سے قوم کی تربیت کر سکیں. مجھے نہ بابر اعوان میں عزیزی نظر آتا ہے اور نہ ہی کائرہ میں نہ کوئی بھائی عزیزی ہے اور نہ کوئی سردار، نہ کسی جرنیل کو عزیزی گر آتے ہیں اور نہ کسی پیر کو. آصف زرداری کا ماضی نہ عزیزی جیسا ہے اور نہ نواز شریف کا حال. اس فہرست میں فوزیہ وہاب، رحمان ملک، عزیزی کے پیر و مرشد گیلانی صاحب اینڈ کمپنی کا تذکرہ کرنا اتنا اہم نہیں یہ بیچارے لوگ ہیں اور ان میں کبھی عزیزی تھا ہی نہیں. مہذب ملکوں میں عزیزی کردار کے مالک خواتین و حضرات کو قوموں کی تربیت پہ مامور کیا جاتا ہے.

آج کا عزیزی پاکستان کے حکمرانوں میں نہیں عوام میں بستا ہے اور آج کا ہر پاکستانی عزیزی ہے. سرد موسموں نے یورپ کا رخ کر لیا ہے بہت جلد اسلام آباد کی سڑکوں پہ بے پیندے کے سیاستداں خشک پتوں کی طرح اڑتے نظر آئیں گے کیونکہ کافی سارے عزیزی حالات سے تنگ پڑ رہے ہیں. یہ سوگ یا غم کا وقت نہیں بلکہ ظالم کو اسکے کیفر کردار تک پہنچانے کی تبدیلی کا وقت ہے.

اگر پاکستانی قوم آج بھی اٹھ کھڑی ہو تو ایسے عزیزی جو اس ہجوم میں چھپے کھڑے ہیں سامنے آ سکتے ہیں. پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان نہیں بس مکاروں کی حکومت ہے جن میں خوف خدا نہیں علم فرعون کی پاسداری ہے . انکا حاصل زیست یہی کاروبار سیاست ہے جسمیں عوام کا استحصال ہو رہا ہے.

عزیزی سہیل احمد کا کردار نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا ترجمان چہرہ ہے. امید ہے کہ یہ کردار ایک شو تک ہی محدود نہ رہے گا بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہوگا کہ نشانہ سیاستدانوں پہ باندھے رکھیں مگر تربیت کا عمل جاری رکھیں اور عوام کو عزیزی بننے کے گر سکھا دیں.
اگر ایسا ممکن ہو سکا تو سب یہی کہیں گے
واہ عزیزی واہ
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 69708 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More