آزاد کشمیر حکومت کے چٹے بٹے اور نئی اُمیدوں کے امکانات ؟

آزاد کشمیر حکومت کے چٹے بٹے اور نئی اُمیدوں کے امکانات ؟؟؟

آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہفتہ اتوار کی تعطیلات کے بغیر سات ایام جاری رہنے کے بعد پرامن اور خوشگوار ماحول میں وزیراعظم فاروق حیدر کے اختتامی خطاب کے ساتھ وزیر خزانہ ڈاکٹر نجیب نقی کی جانب سے نئے مالی سال کیلئے پیش کردہ بجٹ کی منظوری دیتے ہوئے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہو گیا ہے جس کا یہ اعزاز رہا ہے پاکستان میں آمدہ انتخابات کے تناظرمیں وہاں کے سیاسی حالات کے فطرتی اثرات کے باوجود چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کی طرح ہنگامہ آرائی کے برعکس حزب اقتدار ، حزب اختلاف کے سبھی ممبران کی جانب سے بجٹ پر اپنی اپنی بساط کے مطابق اظہار خیال کیا گیا بجٹ سمیت مجموعی حالات ایشوز پر بھی اپنا اپنا نقطہ نظر سامنے لایا جن میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومت کے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی بشمول کابینہ کے بعض ارکان نے بھی گلے شکوے تحفظات کھل کر پیش کیے یہ شائد طویل آمریت پھر ہماری سیاست و عمومی سماج کا طرز عمل بھی بن گیا تھا صرف حمایت برائے حمایت اور مخالفت برائے مخالفت ہی کو سیاست سمجھا جاتا رہا ہے جب کہ سیاسی اسلوب جمہوری طاقت کا راز ہی حقیقت پسندی اور مثبت اختلاف رائے کا برملا اظہار کرتے ہوئے اجتماعی فلاح کی طرف بڑھنے کا راستہ ہے اور یہی انسانیت کا اصل فلسفہ ہے جس کی جھلک سات روزہ بحث ونوک جھونک ، نرم گرم اختلافاتی بیان سخن سے عیاں ہوتی رہی غزل جوا�آں غزل کے آغاز سے لیکر اختتام تک مثبت فکر وعمل سے بھرپور کارروائی کا آئینہ دار اجلاس رہا جس میں کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان کی بارہ نشستوں سے منتخب ممبران نے بارہ نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن حوالے سے اپنے گلے غم وغصے کا کھل کر اظہار کیا پٹیشن کے دائر ہونے میں اپنے ہی اندر کے عناصر کی جانب توجہ دلاتے ہوئے واپس لیے جانے پر زور دیا تا ہم وزیراعظم فاروق حیدر سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر اطلاعات مشتاق منہاس نے واضح اور شفاف جب کہ دیگر سب نے بھی بطور خاص ان نشستوں کی تائید وحمایت میں اپنا اپنا نقطہ نظر واضح کرکے مہاجرین ممبران کو اطمنان دلانے کی بھرپور سعی کی جس کے بعد زیادہ امکان ہے اپیل ہی واپس ہو جائے گی ورنہ بہتر یہی ہوتا سپریم کورٹ کے اندر وہ تمام عوامل جن کے باعث یہ تنازعہ جنم لیتا رہتا ہے کے متعلق دلائل وحقائق کی بنیاد پر مناسب فیصلہ ہونے دیا جاتا تعلیمی پیکج کے تحت اداروں میں ہونے والی تقرریوں کا تحفظ بھی یقینی ہو گیا ہے جس کیلئے پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر ، میاں عبدالوحید ، مطلوب انقلابی ودیگر نے سیاسی ، عدالتی سطح پر بھرپور مہم جوئی کی تھی تاہم وہ طلبہ جن کے داخلے ہوئے تھے کے بارے میں مناسب حل کیا جانا باقی ہے حکومتیں اپنے پیش کردہ بجٹ ہمیشہ ہی منظور کراتی رہیں ہیں مگر اس بار حزب اختلاف کی جانب سے بجٹ نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے متعلق مستقبل کے سی پیک پیش منظر میں آئینی پوزیشن کی تیاریوں یعنی صوبہ بنائے جانے کے غیر مصدقہ شک وشہبات پر تا حال حکومت پاکستان کا واضح موقف سامنے نہ آنے پر جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم نے بائیکاٹ کا اعلان کیا جن کے ساتھ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر عبدالماجد خان اور مسلم کانفرنس کے صغیر چغتائی بھی ایوان سے باہر چلے گئے جنہوں نے خصوصاً عبدالماجد خان نے کٹوتی کی پچاس سے زائد تحاریک پیش کرتے ہوئے بھرپور تیاری کی ہوئی تھی مگر باقی اپوزیشن کے قائدین وارکان نہ ہونے کے بحث ان کی محنت رنگ نہ لا سکی جو پہلے ہی روانہ ہو چکے تھے صحیح معنوں میں بطور لیڈر خالد ابراہیم نے اپنے کھرے انداز میں قائد ایوان و حکومت کو اپوزیشن کی موجودگی کا احساس دلانے کا فریضہ نبھایا اور پیپلزپارٹی کا بھی دفاع کیا یہ ایک سوچ کا نام ہے ورنہ اپوزیشن جس طرح عام انتخابات کے آغاز سے لیکر اختتام تک درست طرح اندازہ ہی نہیں کر سکی حالات تو بدلنے تھے مگر اتنے زیادہ بدل جائیں گے اسی طرح پیش کردہ بجٹ کے اسباب پہلے سے مختلف ہونے پر عذرات نکالنے میں مشکل سے دو چار رہی تو سیاسی ماحول ایشوز پر بھی مواقعوں کے حصول سے استعفادہ نہ کر سکی مگر اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین سمیت ممبران کا مجموعی طور پر مثبت انداز کمزوریوں خامیوں کو سامنے آنے میں پردہ بنا رہا جس میں خود حکومتی ٹیم کی حکمت عملی کا عمل دخل بھی تھا مزاح و نوک جھونک وزیراعظم سمیت حکومتی ٹیم کی خوشی کے سبب فطرتی عمل تھا اس میں اصل بات ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے کے تذکرہ سے سامنے آ گئی جب وزیراعظم فاروق حیدر نے سپیکر شاہ غلام قادر ، سینئر وزیر طارق فاروق ، وزیرخزانہ نجیب نقی کے متعلق فقرہ پھینکا آپ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں تو سپیکر نے بھی برجستہ توثیق کرتے ہوئے کہا آپ تھیلی کے سب سے بڑے بٹے ہیں یہ چٹے بٹے اپنی ماضی کی جس نشان بس کو تنکوں کے سہارے چھوڑ کر اصل ٹرین میں سوار ہوئے تھے کے انداز نے ثابت کیا ان کے طور طریقوں کے حوالے سے اونچ نیچ معمول کا حصہ ہے مگر یہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں ان سب کی بقا ایک دوسرے کے ساتھ ہی ہے جس کا اظہار سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے بھی اپوزیشن کے سیاسی جواب الجواب مفصل جامع انداز کے ساتھ دیتے ہوئے واضح کیا ہم جانتے ہیں شطرنج کے کھیل میں پہلے وزیر نشانہ بنائے جاتے ہیں پھر بادشاہ کے خلاف سازش ہوتی ہے جو پہلے چار بار ناکام بنا چکے ہیں اور آئندہ بھی ناکام ہوں گی وزیراعظم فاروق حیدر نے اپنے اختتامی خطاب میں کشمیر مہاجرین کے اعزازیہ میں پانچ سو ماہانہ اضافے ان کی کی رہائش کے حوالہ سے چار سو کنال اراضی فراہم کرنے اور ماسوائے جریدہ باقی سب عارضی ملازمین کو مستقل کرنے پانچ ہزار نئی اسامیوں کی تخلیق کے علاوہ مزید بھی اعلانات کیے مگر گزشتہ سبھی حکومتوں سے منفرد ان کے تین اعلانات ریاست ، عوام باالخصوص نوجوانوں سمیت حقیقی سیاسی کارکنوں کیلئے خوشخبری کے آئینہ دار تھے اول حکومت پاکستان نے صوبہ کے پی کے کی طرح آزاد کشمیر کو بھی واٹر یوز چارجز ایک روپیہ دس پیسے کے حساب سے دینے کے مطالبے سے اصولی اتفاق کر لیا ہے جس کیلئے معاہدات جلد ہو جائیں گے دوئم آئین اصلاحات کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے کا مرحلہ قریب آرہا ہے سوئم بلدیاتی انتخابات اکتوبر میں کرا دیے جائیں گے یہ تینوں کام ہو جائیں تو یقیناًفاروق حیدر حکومت ان کی کابینہ پارلیمانی پارٹی بلکہ جماعت کے ہر کارکن بشمول ساری اسمبلی اور نظام کیلئے تاریخ ساز اعزازات بن جائیں گے اور حقیقی معنوں میں تبدیلی کا سفر شروع ہو جائے گا جس کا سینہ تان کر موجودہ ملکی حالات میں اظہار میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی بھی کر سکیں گے مگر یہاں خود اعلیٰ عدلیہ سیاسی قیادتوں سمیت کارکنان کو بھی اپنا اپنا کردار شفاف انداز میں تاریخ کا فخریہ حصہ بنانا ہوگا تا حال آزاد کشمیر خصوصاً مظفرآباد ڈویژن کے ماحول یعنی مستقبل میں نئی نسلوں کو لاحق زندگی بے رنگ وبے زار بنا دینے والے خطرات سے متعلق بات تشنہ طلب ہی رہی ہے کوہالہ ہائیڈرل پراجیکٹ کے حوالہ سے ایم ایل اے راجہ عبدالقیوم خان صحیح معنوں میں سارے ملک وملت اور یہاں کے عوام کے مفاد میں آواز بلند کر رہے ہیں اُمید ہے توانائی کے منصوبہ جات سے متعلق معاہدات دریاؤں کی روانی اور ماحول کی شادابی کے ضامن ثابت ہونگے جو بات عوام باالخصوص لیگیوں کے لیے سرپرائز ہے وہ یہ ہے سارے اجلاس میں وزیراعظم فاروق حیدر خود پہ قابو رکھتے ہوئے بات بات پر اُٹھ کر بھڑک جانے سے پرہیز کرتے رہے اور اپنی ٹیم کو بھرپور طور پر کھیلنے دیا موصوف اسی طرح اپنی جبلت میں شامل کھجلی کو تزکیہ طنزونشتر پر گرفت کرتے ہوئے باضابطہ اجلاس وتقریبات میں مستقل مزاجی اختیار کر گئے تو بہت سے مسئلے خود ہی حل ہو جائیں گے اور اگر یہ پابندی ان کی ٹیم کی کاوش ہے تو وہ جاری رکھیں بلکہ عید الفطر کے موقع پر خصوصی دعا کریں یہ اور ان کے ساتھی اپنی مدر پارٹی کے عوام کے سامنے شیر مگر حقیقت میں چیتے کا نشان ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں اوپر سے نیچے تک اعلیٰ سے ادنیٰ تک اپنی مدر پارٹی کی قیادت کی طرح چیتے والی فطرت وانداز اختیار کیے رکھیں اور سب برداشت کرتے جائیں ؟؟

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.