تحریر: حبیب اﷲ قمر
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کادو روزہ دورہ کر کے واپس پہنچ چکے
ہیں ۔ ان کی طرف سے یہ دورہ ایسے وقت میں کیاگیا ہے جب کشمیر میں تحریک
آزادی پورے عروج پر ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج ہر قسم کے
وسائل اور صلاحیتیں صرف کرنے کے باوجود جدوجہد آزادی کشمیر پر قابو پانے
میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ بھارتی فورسز نے پیلٹ گن، پاوا شیل اور دیگر مہلک
ہتھیار استعمال کر کے دیکھ لئے۔ سینکڑوں کشمیر یوں کی آنکھوں کی بینائی چلی
گئی ، ہزاروں زخمی ہوئے۔کشمیری تاجروں کو اربوں روپے مالیت کا نقصان اٹھانا
پڑا۔ ان کی فصلیں اور املاک تباہ کر دی گئیں لیکن کشمیریوں کے جذبہ حریت
میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ روزانہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتے اور
پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔سبز ہلالی پرچم کشمیر میں ایسے
نظر آتے ہیں جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں لہرائے
جارہے ہوں۔ہندوستانی حکومت اور فوج کیخلاف نفرت کا ایک طوفان ہے جو ہر
کشمیر ی بچے، بوڑھے اور نوجوان کے دل میں ہے۔ کشمیری قوم کا ہر طبقہ اس وقت
سڑکوں پر ہے حتیٰ کہ طالبات بھی پیلٹ گن کے چھرے برسائے جانے کے باوجو دآئے
دن احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ اس سار ی صورتحال نے ہندوستانی حکام، فوج اور
عسکری اداروں کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بھارتی جرنیل اور عسکری
دانشور علی الاعلان یہ باتیں کر رہے ہیں کہ کشمیر بھار ت کے ہاتھ سے نکل
چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی آرمی چیف ، وزیر دفاع اور دیگر اداروں کے
جرنیل آئے دن کشمیر کے دورے کر رہے ہیں اور بھارتی فورسز کے مورال کو
سہاراد ینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کی جانب
سے کشمیریوں کی دن بدن مضبوط ہوتی جدوجہد آزادی کو کچلنا اس وقت سب سے بڑا
چیلنج بن چکا ہے۔بھارتی ایجنسیاں کشمیر میں داعش جیسے تکفیری گروہوں کو بھی
پروان چڑھانے کی کوششیں کر رہی ہیں لیکن کشمیری سیاسی و جہادی تنظیموں کے
باہمی تعاون کے سبب کشمیر میں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی یہ سازش بھی فی
الحال صحیح معنو ں میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔اس لئے تحریک آزادی کشمیر کی
حالیہ لہرپر قابو پانے کیلئے اب بھارت نے واضح طور پر امریکہ سے مدد مانگی
ہے اور نریندر مودی کا حالیہ دورہ بھی بلاشبہ اسی مقصد کیلئے تھا۔بھارتی
حکام کی طرف سے آئے دن یہ ہرزہ سرائی کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان مبینہ طور
پر سوشل میڈیا کے ذریعہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کو پروان چڑھا رہا ہے ۔ اسی
طرح دراندازی کے پرانے الزامات کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا رہاہے۔ اس دوران
بھارتی سفارتکار اور ان کا میڈیا مسلسل بیرونی دنیا کو گمراہ کرنے میں
مصروف رہے ہیں۔ مودی کے چونکہ انتخابات سے قبل ہی ٹرمپ سے گہر ے مراسم
استوار ہو چکے تھے اورامریکی صدر نے 2014ء میں دورہ بھارت کے دوران
ہندوستانی وزیر اعظم کے حوالہ سے خیر سگالی کے جذبات کا برملا اظہار کیا
تھا اس لئے ٹرمپ کے برسر اقتدار آتے ہی دونوں طرف سے تعلقات میں گرم جوشی
آئی اور پاکستان جس کی دشمنی میں دونوں ایک جیسے ہیں‘ اب کھل کر سامنے آتے
نظر آرہے ہیں۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح روزانہ بے گناہ کشمیریوں کا
خون بہایا جارہا اور ممنوعہ ہتھیار استعمال کر کے کشمیریوں کی زندگیاں
اجیرن بنائی جارہی ہیں لیکن ٹرمپ کو یہ سب کچھ نظر نہیں آیااورالٹا چور
کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق پاکستان سے ہی اپنی سرزمین دہشت گردوں کے ہاتھوں
استعمال ہونے سے روکنے کے باتیں کی جارہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے سربراہان کا
کہنا ہے کہ پاکستان ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ملزموں کو سزا دے۔ایک
رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے بھارتی خوشنودی کیلئے مودی کے
دورہ امریکہ سے چند گھنٹے قبل کشمیری لیڈر سید صلاح الدین کوبھی دہشت گردوں
کو فہرست میں شامل کر لیا گیاہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور مودی کے ایک دوسرے سے
ہاتھ ملا کر پاکستان کیخلاف الزامات کی بوچھاڑ کرنے سے ان کے آئندہ کے
عزائم کھل کر واضح ہو رہے ہیں۔سید صلاح الدین پر کشمیریوں کی مددکا الزام
عائد کرتے ہوئے ان کے امریکہ میں اثاثے منجمند کردیے گئے اور کہا گیا ہے کہ
وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل میں رکاوٹ ہیں۔یعنی ہندوستان کی آٹھ لاکھ مسلح
بھارتی فوج جوکشمیر میں دن رات ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کر رہی ہے وہ
امن پسند ہے اور اپنی عزتوں وحقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنے والے
کشمیری امریکہ کی نظر میں دہشت گرد ہیں۔
چند ماہ قبل جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے جب سال 2017ء کشمیر
کے نام کرنے کا اعلان کیا اور اس عزم کا اظہا رکیا گیا کہ وہ آنے والے دنوں
میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے بڑے جلسوں، کانفرنسوں و ریلیوں کا
انعقاد کریں گے توہندوستانی میڈیا نے شور مچایا اور پھر مودی سرکار کے کہنے
پر ٹرمپ انتظامیہ نے حکومت پاکستان کو فی الفور رپیغام دے ڈالا کہ اگر حافظ
محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کیخلاف کاروائی نہ کی گئی تو اسے اقتصادی
پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے چند دن بعد ہی جماعۃالدعوۃ کے
سربراہ سمیت چار مزید رہنماؤں کو ان کی رہائش گاہوں پر نظربند کر دیا گیا
جنہیں تاحال رہا نہیں کیا گیا۔ سید صلاح الدین اور حافظ محمد سعید دونوں
لیڈروں پر کشمیریوں کی مددوحمایت کا الزام ہے اور انہی الزامات کی بنیاد پر
ان کیخلاف دہشت گردی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔ پاکستان سے اپنی سرزمین
دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال روکنے کا واویلا بھی اسی پروپیگنڈا کا حصہ
ہے۔امریکہ کی طرف سے سید صلاح الدین کو دہشت گردقرار دیے جانے پر دفتر
خارجہ اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا ردعمل آیا ہے جس میں کشمیریوں
کے حق میں بولنے والوں کو دہشت گردقرار دیے جانے پر افسوس کا اظہا رکیا گیا
ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حافظ محمد سعید اور سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار
دینا تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی قرار دینے کے مترادف ہے۔ حکومت
پاکستان نے بھارت و امریکہ کو خوش کرنے کیلئے حافظ محمد سعید اور ان کے
ساتھیوں کو نظربند کیا گیا اور ان کی جماعت کی دعوتی و ریلیف سرگرمیوں میں
رکاوٹیں پید اکی گئیں لیکن ہندو، صلیبی و یہودی اس سے خوش نہیں ہوئے بلکہ
ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے اب سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا
ہے۔آنے والے دنوں میں وہ کسی اور مذہبی لیڈر کے دہشت گرد ہونے کا اعلان کر
دیں گے۔ بیرونی قوتوں کے سامنے جھکنے والی پالیسی اختیار کرنے سے یہ سلسلہ
کبھی نہیں رکے گا۔ ان کے مطالبات دن بدن بڑھتے جائیں گے۔ اگر ماضی میں اس
حوالہ سے بیرونی دباؤ قبول نہ کیا جاتا تو آج صورتحال اس سے بالکل مختلف
ہوتی۔ کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اور الحاق پاکستان
کی خاطر لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں لیکن اس سب کے باوجود
پاکستانی حکمرانوں نے اپنا فریضہ صحیح معنوں میں ادا نہیں کیا اور بین
الاقوامی سطح پر جدوجہد آزاد ی کشمیر کو آزادی کی تحریک کے طور پر منوانے
میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مودی اور ٹرمپ کی حالیہ ملاقات کے بعد تحریک آزادی
کیخلاف ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے سازشوں کے جال بنے جائیں گے۔حافظ محمد
سعید کی طرح سید صلاح الدین جیسے لیڈروں کی نظربندیاں اور ان کی سرگرمیاں
محدود کرنے کیلئے بھی دباؤ بڑھے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز
شریف اور ان کی کابینہ کس حدتک بھارتی و امریکی دباؤ کا مقابلہ کرتی ہے۔
سید صلاح الدین اور حافظ محمد سعید جیسے لیڈر وں کیخلاف دہشت گردی کے
پروپیگنڈا سے ان کی مقبولیت بڑھے گی اور انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑھے گا
تاہم میں سمجھتاہوں کہ اس وقت اصل امتحان حکمرانوں کا ہے کہ وہ اس صورتحال
میں اپنے اعصاب پر مودی سرکار کو حاوی تو نہیں ہونے دے رہے۔ اگر وہ بیرونی
دباؤ کا شکار ہونے کی بجائے دنیا کے سامنے دوٹوک انداز میں واضح کرتے ہیں
کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس پر غاصب
بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور
قائداعظم محمد علی جناح کی کشمیر پاکستان کی شہ رگ والی دوٹوک پالیسی پر
عمل پیرا رہتے ہیں تو اس سے کشمیریوں کا اعتماد بھی بحال ہو گا اور بھارتی
و امریکی سازشیں بھی جلد ان شاء اﷲ دم توڑ جائیں گی۔ تحریک آزادی کے ہیرو
برہان وانی ، ابوالقاسم،سبزار بھٹ اور جنید متو جیسے کشمیری کمانڈروں کی
شہادت نے کشمیر کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ ان حالات میں ضرورت
اس امر کی ہے کہ حافظ محمد سعید و دیگر رہنماؤ ں کو فی الفور رہا کیا جائے
اور دنیا کو بتایا جائے کہ سید صلاح الدین اور حافظ محمد سعید جیسے لوگ
دہشت گردنہیں بلکہ ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں اور کشمیریوں کی طرح پوری
پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔حکمرانوں کے جرأتمندانہ کردار ادا کرنے سے ہی
کشمیریوں کی مشکلات کم ہوں گی اور کشمیر پر سے غاصبانہ ختم کرنے میں ان کی
مدد کی جاسکے گی۔ |