ملک کی موجودہ صورتحال جتنی نازک اور دھماکہ خیز ہوتی
جارہی ہے اسے دیکھ کرکوئی بھی سیکولر اور جمہوریت پسند انسان صرف اور صرف
تشویش میں ہی مبتلا ہوسکتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ حالات جس قدر خراب ہوتے
جارہے ہیں عام لوگوںکی بے حسی تو جانے دیجئے خودسیکولر ذہن کے افرادپر بھی
بے حسی اور خوف کے سائے بڑھتے جارہے ہیں ۔ملک کی پارلیمانی سیاست سے لے کر
ریاستی سطح تک جس طرح غیر جمہوری انداز کی حکمرانی کا ماحول بنایا جارہا ہے
اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اگر یہی صورتحال کچھ عرصہ مزید باقی
رہی تو ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘کے منافقانہ نعرے کے نتیجے میں وکاس کے
بجائےیہ ملک ایک ایسا جہنم زار بن جائے گا جس کی آگ میںنہ صرف اقلیت بلکہ
اکثریت کے بھی خواب جل کر راکھ ہو جائیں گےاور اس ملک کی سب سے قیمتی
شئے’یکجہتی ‘ کی تو راکھ بھی نہیں مل پائے گی ۔ ملک میں جو ماحول ہے وہ بتا
رہا ہے کہ اب قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے یا پھرانتظامیہ نے
دانستاً ملک کوغنڈوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں پیٹیں ،ان کے
مویشی چھینیں اور انہیں مار ڈالیں کیونکہ حکومت کی شہ کے بغیر یہ سب ممکن
ہی نہیں ہے ۔یہ سب گذشتہ پارلیمانی انتخابی مہم سے شروع ہوا تھا اس وقت آج
کے وزیراعظم نے یہ کہا تھا کہ دیش واسیوں کو سفید انقلاب اور گلابی انقلاب
میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔گلابی انقلاب سے مراد ظاہر ہے کہ گوشت
خوری ،مسلمان اور ان کے مذبح تھے ۔اس کے بعد سے جو کچھ ملک میںہورہا ہے وہ
انہی کے اُکسانے کا راست نتیجہ ہے۔باقی سب بہانے ہیں ۔ اور یہ جو عورتوں کے
تحفظ کی باتیں ہورہی ہیں یہ تو محض ایک مذاق ہے ۔آپ مسلمانوں کو مار کر
مسلم خواتین سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہیں مسلم مردوں کے ظلم سے بچانا
چاہتے ہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ اس سے بڑا کوئی مذاق ،پچھلے ڈیڑھ دو سو سال
میں اس دیش میں کیا گیا ہو !یہ ایک نہایت غیر سنجیدہ بات ہے لیکن اس کو
سنجیدگی سے لینا اس لیے ضروری ہے کہ سرکار یہ کہہ رہی ہے ۔ در اصل یہ لوگ
ملک کو ایک خاص طرح کا ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں جس میں اصل اقتدار صرف
غنڈوں کے ہاتھوں میں ہوگا جس میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا ۔ یہ بات خاص
طور پر ہندوؤں کے سوچنے کی ہے کہ انہیں اس دیش کی سبھیتا کو بچا کر رکھنا
ہے یا نہیں کیونکہ یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اُس تہذیب اور انسانیت کے سراسر
خلاف ہےجواس ملک کی خاص روایت رہی ہے ۔
اب ذرا اس تناظر میں ملک کے سب سے بڑےجمہوری سربراہ پرنب مکھرجی کا عید کے
موقع پر دیاگیا ایک پیغام پڑھیئے۔انہوں نے ’’ ملک اور بیرون ملک رہنے والے
شہریوں خاص طور پرمسلم بھائیوں اور بہنوں کو عیدالفطر کی دل کی گہرائیوں سے
مبارکباددیتے ہوئے کہا کہ یہ مبارک موقع ہم سب کے اٹوٹ اتحاد اور مشترکہ
روایات کے تئیں ہمارے پختہ یقین کو مزید مضبوط و مستحکم کرے گا جو کہ صدیوں
سے ہماری مشترکہ ثقافت کا خاصہ رہا ہے ۔رمضان المبارک کے روزوں کے بعد آنے
والا یہ تہوار نہ صرف خوشی ، امن اور خوشحالی لائے گا بلکہ انسانیت کی خدمت
کےتئیں خود کو وقف کرنے کے جذبے کو بھی مضبوط کرے گا ۔اسی طرح وزیراعظم
نریندر مودی نے بھی اپنے ٹوئٹر پر مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارکباد دیتے
ہوئے لکھا ہے کہ یہ مبارک موقع معاشرے میں امن اور بھائی چارے کے جذبے
کومضبوط کرے گا ۔اسی موقع پر ملک کے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی
کشمیریوں سے تشدد ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ
مجھے یقین ہے کہ انسانیت کا یہ تہوار وادی میں امن و آہنگی اور بھائی چارے
کے فروغ میں معاون ہوگا اور اس طرح کشمیر میں ایک نئی صبح ضرورآئے گی ۔
جہاں تک ملک کی سالمیت ،تحفظ اور یکجہتی کا معاملہ ہے تو بلا شبہ یہ ہر
شہری کی تمنا ہے کہ ہندوستان خوب ترقی کرے اور اس کی اقتصادی حالت بہتر سے
بہتر ہوسکے اس تناظر میں صدر مملکت اور دیگر ذمہ داران سلطنت کے تہنیتی اور
خیرسگالانہ بیانات کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن جب ملک کی موجودہ صورتحال
کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے ہیں تو سارا معاملہ برعکس نظر آتا ہے اوراس
محاورے کی صداقت سمجھ میں آنےلگتی ہے کہ ’چور سے کہو چوری کرو اور ساہوکار
سے ہوشیار رہنے کو کہا جائے آج وہی سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے اور یہ عمل
خود حکومت کررہی ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں نے انہیں بہت کچھ
سوچنے پر مجبورکردیا ہے، کن کن واقعات کا ذکرکریں اور کیسے کیسے خونچکاں
حادثات کا حوالہ دیا جائے، ان کی رفتار کا یہ عالم ہے، ایک واقعہ ذہن سے
پوری طرح محو نہیں ہوپاتا کہ دوسرا خون آشام سانحہ سامنے رقص کرنے لگتا ہے
۔ہر طرف مسلمانوں کے خلاف ظلم و طغیان کا ایک سیلاب چل پڑاہے ۔گذشتہ دنوں
عید کی خریداری کیلئے نکلے ۱۵؍سالہ جنید کے ساتھ جو واقعہ ہوا اسے بھلایا
نہیں جاسکتا ، دل میں عید کی خوشیوں کا ارمان لئے جب وہ اپنے بھائی ہاشم
اور دوستوں کے ہمراہ متھرا جانے والی ٹرین سے گھر لوٹ رہا تھا، رات کو ۱۰سے
بارہ مسلح افراد کےایک گروپ نے چاقوسے وا رکرکے اسے ہلاک کردیا ۔زخمیوں کے
بیانات کے مطابق ان لوگوں نے ان کے لباسوں پر نکتہ چینی کی اور مذاق اڑایا
، ان کی ٹوپیاں ہواؤں میں اچھالیں ، داڑھی نوچی ،ذہنی اور جسمانی اذیتیں
پہنچائیں ،گائے کا گوشت کھانے والاکہہ کرطعنہ دیا اور تھپڑمارے اور ان
مظلومین کی ایک نہ سنی گئی ۔
یہ تو بالکل تازہ ترین واقعہ ہے لیکن کل جب یہ تحریر شائع ہوگی اس وقت تک
نہ جانے کتنے جنید ، شاکر ہاشم ،اخلاق اور پہلو خان ٹھکانے لگائے جاچکے ہوں
گے ۔مسلسل ظلم و ستم کے جاری اس ہولناک کھیل کے تناظر میں ان سربراہان
مملکت کے بیانات صرف اور صرف مذاق معلوم ہوتے ہیں ۔روز مرہ کا معمول بن چکے
ان مظالم پر یہ طویل خاموشی کیا اس محاورے کو درست ثابت نہیں کررہی ہے کہ
چور چوری کرے اور ساہوکارکو ہوشیار رہنے کو کہا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے
تو مجرمین کیوں آزاد گھوم رہے ہیں ؟۔ایسے میں مسلمانوں کو بھی اپنے عمل
اور کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جس کی کسوٹی وانتم الاعلون ان کنتم
مومنین ہے ۔اللہ اسی کی مدد ونصرت کرتا ہے جو پورے کے پورا اسلام میں داخل
ہوجائے ۔ |