ضرب حیدری, جعلی ڈگریاں اور عدلیہ

 "ہم آہ بھی کرتے ہے تو ہو جاتے ہے بدنام
وہ قتل بھی کرڈالے تو چرچا نہیں ہوتا"

یہ مشہور زمانہ شعر کس شاعر کی تخلیق ہے اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ شاعر نے اس شعر کے ذریعے اپنی شاعرانہ طبیعت اور ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد پھیلی مایوسیاں، ناانصافیاں، غیر متوازن سماجی اور معاشرتی طبقاتی نظام اور ان طبقوں کے لیے موجود اختیار اور عدل کا غیر منصفانہ نظام جیسے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے. خالق شعر نے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب ان کا کہا گیا شعر کسی معاشرے کا آئینہ بن جائے گا اور صرف وطن عزیز پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شعر لفظ بہ لفظ اور مکمل طور پر پاکستانی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے.

وطن عزیز میں چور بھی ہے ڈاکو بھی، قاتل بھی ہے اور لٹیرے بھی، جھوٹے بھی ہیں اور مکّار بھی، دھوکے باز بھی ہیں اور فریبی بھی، قبضہ گروپ بھی ہے اور ذخیرہ اندوز بھی، شرابی بھی ہیں اور زانی بھی، رشوت خور بھی ہیں اور رشوت دینے والے بھی، بجلی چور بھی ہیں اور کم تولنے والے بھی. غرض ایسا کونسا گناہ ہے یا گناہ کرنے والا جو ملک عزیز میں موجود نہ ہو لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ صرف جعلی ڈگری رکھنے والے ہی مطعون اور رائندہ درگاہ ٹہرے؟ کیا اس ملک میں راشی سرکاری افسروں، بد ترین آمروں، ضمیر فروش ججوں اور سیاسی پارٹیوں کے پے رول پر کام کرنے والے صحافیوں کا وجود نہیں رہا؟ تو پھر جعلی ڈگری والو کو نشانہ تضحیک بنانے کا مقصد؟

جعلی ڈگریوں پر بہت لکھا گیا اور بہت کہا گیا، صفحوں کے صفحے کالے کر دیئے گئے اور تجزیوں، تبصروں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری و ساری ہے لیکن اس تحریر کا مقصد جعلی ڈگریوں کا دفاع کرنا نہیں بلکہ اس پیمانے کو تلاش کرنا ہے جس کی بنیاد پر جعلی ڈگری والے تو جگ بدنام ہو جاتے ہیں لیکن دوسرے گنہگاروں کے بدترین اعمالوں کا چرچا تک نہیں ہوتا. آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی چوری کرنے والے، ٹیکس ادا نہ کرنے والے تو مہنگائی اور کم آمدنی کو بنیاد بنا کر اور اس کو اپنی مجبوری ثابت کر کے اپنے گناہوں کو ناگزیر تو ظاہر کر دیتے ہے لیکن صرف جعلی ڈگری والے ہی کیوں ہر مجبوری سے مستثنیٰ قرار دیئے جا رہے ہیں؟

اب تو یہ بات تقریبا ً ثابت ہو چکی ہے کہ منتخب ایوانوں میں داخلے کے لئے ڈگری کی شرط انسان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور پوری دنیا میں ایسی کسی شرط کا وجود نہیں. ڈگری کی شرط ایک ایسے جابر اور آمر کے سیاہ دور کی نشانی تھی جس نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو تقویت دینے کی خاطر وہ تمام ہتھکنڈے اپنائے جن کی مدد سے عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھا جا سکتا تھا. مجھے حیرت ہوتی ہے ایسی سیاسی جماعتوں پر جو جعلی ڈگری رکھنے والوں کی بھرپور مذمّت کر کے، ان کے خلاف تقریریں کر کے اور بیانات دے کر پوائنٹ سکورنگ تو کرنا چاہتی ہیں لیکن جعلی ڈگریوں کے حامل ارکان ایوانوں کی لسٹ میں ان کی پارٹی سرفہرست نظر آتی ہیں. اسی طرح کچھ سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو تنقید یا بے جا تنقید کا فرض تو بھرپور طریقے سے نبھا رہی ہیں لیکن ان کی سیاست کا مقصد و محور بس اقتدار ہی رہا ہے، ان کی عملی سیاست کا ان کے منشور سے دور کا بھی تعلق نہیں. ان کا انداز سیاست ان کے نام نہاد دعوؤں کے برعکس ہے. ایسی جماعتیں ہر لمحہ وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر لعن طعن تو کرتی ہیں لیکن عملی سیاست میں وہ ہر وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور آمر کے اقتدار کا حصّہ رہی اور ان کے ہاتھ مضبوط کرتی رہی ہے اور جب کبھی ان سے ان کی منافقانہ سیاست پر بات کی گئی تو وہ جواب میں بس یہی خیال ظاہر کرتے رہے کہ " نظام سے باہر رہ کر نظام نہیں بدلہ جا سکتا، نظام بدلنے کے لئے نظام کا حصّہ بننا پڑتا ہے اور نظام بدلنے کے لئے ہی ہم نے وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور آمروں تک کے ساتھ بیٹھنے کا کڑوا گھونٹ پیا". سبحان الله کیا خوبصورت اور پرفریب دلیل ہے اپنے طویل اقتدار کا جواز فراہم کرنے کی، لیکن جناب ایسی دلفریب مجبوریوں میں پھنسے آپ اکیلے نہیں ہیں، ایسے بہت لوگ ہے جو آپ کی طرح مجبوریوں اور لاچارگی کی کیفیات میں گھرے ہوئے ہیں. ایسے تمام سیاستدان جنہوں نے جعلی ڈگریاں بنوائی وہ یہ جانتے تھے کہ نظام سے باہر رہ کر نظام نہیں بدلا جا سکتا اور نظام بدلنے کے لئے نظام کا حصّہ بننا پڑتا ہے، لیکن وہ نظام کا حصّہ بنتے کیسے؟ جبکہ ایک جابر آمر نے بدترین اور بنیادی حقوق کے منافی قانون بنا کر عوام کے حقیقی نمائندوں کو منتخب ایوانوں سے دور رکھنے کی ناپاک کوشش کی تھی اور یہی وہ وقت تھا جب چند سیاستدانوں نے نظام بدلنے کے لئے نظام کا حصّہ بننے کا فیصلہ کیا اور انہیں جعلی ڈگری بنوانے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور جناب آپ کا تو پتا نہیں لیکن انہی سیاستدانوں نے نہ صرف نظام کو بدلا بلکہ دور سیاہ میں اپنی قیادت کی جلا وطنی کے باوجود نہ صرف اپنی پارٹیوں کا عام آدمی سے تعلق قائم رکھا بلکہ پارٹیوں کو مجتمع رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور آخر کار انہی کی جدوجہد کے بطن سے جمہوریت کا پھول برآمد ہوا جو یقینا ً قابل تحسین اور قابل ستائش ہے.

دوسری طرف آزاد عدلیہ کی جعلی ڈگریوں میں غیر معمولی دلچسپی اور پھرتی اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سارا معاملہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے رچایا گیا ہے. مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ آج کی خود مختار عدلیہ کی آزادی وکلا برادری، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی طویل جدوجہد اور انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہے اور عدلیہ کا رعب و جلال کبھی ایسا نہ تھا جیسا زمانہ فی الوقت میں ہے. لیکن کیا یہ عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرے جس سے اس کے غیر جانبدار اسٹیٹس پر انگلیاں اٹھیں؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ عدلیہ یہ واضح کرے کہ وہ اپنا آئینی کردار بغیر کسی دباؤ اور ہچکچاہٹ کے ادا کرے گی یا اسے بھی وقت پڑنے پر مصلحت کی چادر اوڑھنی پڑے گی؟ قطع نظر اس سے کہ ڈگری کی شرط والا قانون اب حامل وجود نہیں رہا اور عدلیہ نے معاشرے کا گند صاف کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو جعلی ڈگری ہولڈرز سے استعفیٰ لے کر ضمنی انتخابات لڑنے کی اجازت دینا کیا قانون کا نفاذ ہے یا ذاتی انا کی تسکین؟ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ جعلی ڈگری بنوانے والے "دھوکے بازوں" اور "سماج دشمن عناصروں" کو ہمیشہ کے لئے نہیں تو کچھ عرصے تک سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھ کر اچھے اور نیک سیاستدانوں کو اور منتخب ایوانوں کو ان کے بد اثر سے بچایا جاتا لیکن پھر ایک سابق چیف جسٹس کے اس بیان کو کس تناظر میں دیکھا جائے کہ "اگر ہم نے آئین کو مکمل طور پر نافذ العمل کیا تو پوری پارلیمنٹ کو گھر جانا پڑے گا"، تو کیا آپ مصلحت سے کام لے رہے ہیں؟ بیشک آپ مصلحت سے کام لے رہے ہین اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آئین کی پاسداری اور اس کے نفاذ کے لئے 2,1 یا 3 پارلیمنٹ کو گھر بھیجنا کوئی برا سودا نہیں بلکہ نیک نیتی ہوگی ورنہ اس ملک میں تو اپنے مکروہ مفادات کی تکمیل کے لیے بھی کئی بار پارلیمنٹ کو گھر بھیجا گیا ہے.

اگر آپ نے مصلحت سے ہی کام لینا ہے اور جیسا کہ آپ لے رہے ہیں تو پھر جعلی ڈگری رکھنے والوں سے مصلحت کیوں نہیں لی جا سکتی؟ تمام معاملات کو نظر انداز کر کے صرف ایک معاملے پر آئین کی دہائی دینا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے. کچھ دیر کے لئے اگر عدلیہ کے اس کریک ڈاؤن کو صحیح بھی تصّور کر لیا جائے تو کیا اس اقدام سے عوام کا بھلا ہوگا؟ کیا اس سے معاشرے میں بہتری کے آثار نمودار ہونگے؟ کیا عوام الناس میں عدلیہ کی وقعت بڑھے گی؟ تو اس کا جواب "نہیں" ہوگا، کیونکہ جعلی ڈگری رکھنے والے سیاستدانوں کے استعفوں کے باوجود ضمنی انتخابات میں ان کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ ڈگری کی بنیاد پر اپنا نمائندہ منتخب نہیں کرتے اور نہ سیاستدان اپنی انتخابی مہم ڈگری کی بنیاد پر چلاتا ہے، عوام صرف ان لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں میں دیکھنا چاہتی ہے جو عام آدمی کے مسائل سے واقف ہو، ان کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو اور اس کو اپنا اولین فرض سمجھتا ہو اب چاہے وہ اسکالر ہو یا چند جماعتیں پڑھا ہوا شخص، اگر اس کی جڑیں عوام میں ہیئ تو یہ اس کا بنیادی حق ہے کہ وہ ان کی نمائندگی کر سکے اور جعلی ڈگری رکھنے والے مستعفی سیاستدانوں کی ضمنی انتخابات میں کامیابی سے تو صرف عدلیہ کے وقار کو ٹھیس ہی پہنچی ہے.

اگر عدلیہ واقعی ہی معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ ایسے معاملات کو اولین ترجیح دے جس سے عام آدمی کے مفادات براہ راست منسلک ہو؟ اگر عدلیہ یہ پھرتی چینی اور گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف دکھاتی تو ان بنیادی ضروریات تک عام آدمی کی رسائی ممکن ہوتی. عدلیہ اگر سیاستدانوں سے پہلے کرپٹ بیوروکریسی کے خلاف عملی اقدام اٹھائے تو معاشرے میں یقیناً مثبت تبدیلی کا احساس ہوگا کیونکہ بیوروکریسی ریاست کے تمام امور کی ذمہ دار ہوتی ہے اور اکثرو بیشتر سیاسی قوتیں بھی اس کے آگے بےبس ہوتی ہیں. اگر عدلیہ سیشن اور ڈسٹرکٹ لیول کے کورٹ کے نظام کو شفّاف اور بروقت و فعال بنانے کا اقدام کرے تو یہ عام آدمی پر احسان عظیم ہوگا کیونکہ انصاف کے حصول کے لئے عام آدمی کو انہی دروازوں پر جانا پڑتا ہے اور اگر عدلیہ عدالتوں میں زیر التوا ہزاروں لاکھوں مقدمات کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرے ایسے لاکھوں خاندانوں کو سکون نصیب ہوگا جو برسہا برس سے عدالتوں کے پھیرے لگا رہے ہیں اور اپنی عمر بھر کی جمع پونجی وکیلوں کی نذر کر چکے ہیں.

غرض ایسے لاتعداد راستے موجود ہیں جن پر عمل کر کے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے بس ضرورت ہے تو خلوص کی اور دیانت کی لیکن اگر یہ تمام کھیل صرف اور صرف جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لئے رچایا گیا ہے تو یقیناً بدخواہوں کو اس میں ناکامی ہوگی اور صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کا بیان کہ "ہم چیلنجز سے نمٹنا جانتے ہیں" اس بات کی دلیل ہے کہ جمہوریت کے وارث کتنے پرعزم ہیں اور انہوں نے ہر بحران کو جس دانشمندی اور سیاسی مہارت سے شکست دی ہے وہ قابل تحسین و ستائش ہے اور جمہوریت کے دشمنوں کو یہ بات ذھن نشین کر لینی چاہیے کہ ان کی کوئی بھی ناپاک حرکت جمہوریت کے وارثوں کو کمزور نہیں کرتی بلکہ ان کے حوصلہ اور ہمّت کو اور بڑھا دیتی ہے. اور بیشک تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی، جمہوریت کے دشمن بے نام و گمنام ہو جائیں گے اور رہے گا تو بس نظریہ بھٹو، فلسفہ بھٹو اور وارث بھٹو.
Syed Qumqam Ali Zaidi
About the Author: Syed Qumqam Ali Zaidi Read More Articles by Syed Qumqam Ali Zaidi: 8 Articles with 5241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.