اس وقت پاکستان میں عالمی طاقتوں میں سے صرف چین ہی معاشی
راہداری کا پراجیکٹ کر رہا ہے جبکہ باقی عالمی طاقتیں اس منصوبے کے خلاف
کام کر رہی ہیں۔ ان عالمی طاقتوں کی شہہ پاکر بھارت بھی کھل کر کھیل رہا ہے۔
پاکستان کی ساحلی پٹی اتنی بڑی ہے کہ اگر امریکہ، روس، برطانیہ اور عرب
امارات سب اپنی الگ الگ بندرگاہ بھی بنائیں تو بھی ماشاء اﷲ ہمیں کمی نہیں
ہوگی اور ساتھ کے ساتھ پاکستان کو جو معاشی فائدہ ہوگا وہ الگ، یہ سب ملک
خود پاکستان میں امن قائم کرنے میں لگ جائیں گے۔ ایسے میں بھارت تنہا رہ
جائے گا اور ان منصوبوں سے چین کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مجھے معلوم
ہے کہ یہ سب اتنا آسان نہیں مگر آسان تو پاکستان بنانا، ایٹم بم بنانا اور
پاکستان کو ٹی ٹی پی سے نجات دلانا بھی نہیں تھا۔ تو ہمیں ان ممالک کو بھی
ایسے ہی منصوبوں کی دعوت دینی چاہئے تاکہ بڑی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہوں
جائیں اور ہم پر سے دھیان ہٹ جائے۔ اس طرح ہم مسئلہ کشمیر کا حل بھی اپنے
حق میں کروا سکتے ہیں۔پاکستان چین اقتصادی راہداری اور توانائی کے منصوبے
کسی بھی صورت بھارت کیلئے بالواسطہ اور بلا واسطہ نقصان دہ نہیں ہیں البتہ
مستقبل میں بھارت ان منصوبوں سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی صورت
میں مستفید ہوسکتا ہے۔ بھارت کی ایران اور افغانستان کے ساتھ خواہ کتنی بھی
قربتیں ہوجائیں مگر اس کیلئے پاکستان کی مدد کے بغیر ان ممالک تک آسان
رسائی ممکن نہیں۔اقتصادی راہ داری لاہورسے گزرے گی۔بھارت کو اس راہداری سے
منسلک ہونے کیلئے ایک کلومیٹر بھی نئی سڑک نہیں بنانی پڑیگی۔دشمن ممالک کے
درمیان دوستی بس کیلئے بنائی گئی سڑک بھارت کو کاشغر سے گوادر تک جانیوالی
راہداری سے منسلک کردیگی جس کے ذریعے بھارت محض پاکستان کیلئے نرم گوشہ
ظاہر کرکے خشک اور آسان راستے سے ایران اور افغانستان تک پہنچ سکتا
ہے۔افغانستان اور ایران سے آگے پاکستان کی طرح وسط ایشیائی ریاستوں تک
تجارت کے راستے کھلے ہیں مگر لگتا ہے بھارت کو اپنے تجارتی اور معاشی
مفادات سے زیادہ پاکستان کوغیر مستحکم اور شدید نقصانات سے دوچار کرنا
مقصود ہے۔گودار پورٹ آپریشنل ہونے اورراہداری کی تکمیل کے بعداس کے گرد
صنعتی زون بننے سے لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا۔راہداری کی حفاظت کیلئے
ایک فوجی بریگیڈ اسکی مستقل حفاظت پر مامور ہوگا۔انٹیلی جنس بھی ان علاقوں
میں فعال اور متحرک ہوگی۔اس سے بھارت کے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے
منصوبے خاک میں مل جائینگے۔بھارت کو اپنی سازشوں کی بجا آوری میں رکاوٹ کھل
رہی ہے اس لئے وہ اقتصادی راہ داری کی جنون کی حد تک مخالفت کررہا ہے۔
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اسے کسی صورت گوارا نہیں۔ پاک چین راہداری
منصوبہ پر وہ انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔ اس منصوبے کو عملی شکل میں آتے دیکھ
کر اس پر تو گویاپاگل پن کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ اسکے بعد پاکستان کیخلاف
بیانات اور دھمکیوں کا ایک محاذ کھل گیا۔بھارتی وزیر دفاع کہتے نظر آئے کہ
پاکستان کو دہشتگردی کا جواب اسکے اندر جاکر دہشتگردی سے دینگے۔یہ ایسے
بیان کا کوئی موقع محل نہیں تھا۔ بھارتی وزارت خارجہ بے موقع بیان جاری کیا
کہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی بھارت کا
اٹوٹ انگ ہے۔اس دوران مودی کا بھارت کی طرف سے پاکستان کوتوڑنے کی سازش میں
شریک ہونے کا اعتراف بھی سامنے آگیا۔اسی پر ہی بس نہیں بھارت نے برما میں
گھس کر 20شدت پسندوں کو بمباری کرکے ہلاک کرنے کا دعویٰ کیاتو اطلاعات کے
نائب وزیر راجیہ دردن سنگھ راٹھور نے پاکستان کو بھی دھمکی دے دی کہ ایسا
اٹیک پاکستان پر بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب میں مودی کا پاکستان توڑنے کی سازش
میں ملوث ہونے کا بیان سنجیدہ اور سنگین تھا۔مودی اور اسکے وزرا کے بیانات
پر ہمارے وزیروں اور مشیروں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیامگر یہ معاملہ
اتنا سادہ نہیں کہ محض لفاظی پر مشتمل بیان دیکر خاموشی اختیار کرلی
جائے۔ممبئی حملوں کو بھارت نے پاکستان کیخلاف پراپیگنڈے کیلئے اس حد تک
استعمال کیا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے پاکستان
کو کچھ لوگوں اور تنظیموں پر پابندیوں کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ بھارت اب
تک ممبئی حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم نہیں کرسکا۔بھارت
پاکستان میں دہشتگردی کروانے ،اسے غیر مستحکم کرنے اور توڑنے کی سازشوں کا
اعتراف کرتا ہے مگر ہمارے حکمران اسے ڈھنگ کا جواب بھی نہیں دے پاتے۔ گزشتہ
دنوں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزراء
کے پاکستان کیخلاف اشتعال انگیز بیانات کی شدید مذمت کی۔ دونوں ایوانوں میں
متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد وں میں عالمی برادری بالخصوص اقوام
متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کی سیاسی قیاد ت کے حالیہ اشتعال
انگیز بیانات کا نوٹس لے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ نریندری مودی نے بنگلہ
دیش میں بیان دیکر یہ اعتراف کرلیا کہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ میں بھارت کی
سازش اور مداخلت کارفرما تھی۔ پاکستان کسی بھی ملک کو اپنی جغرافیائی حدود
کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیگا۔ مودی کا بیان پاکستان کی سلامتی پر حملہ
ہے۔ بھارت جو کچھ پاکستان کیخلاف کر اور کہہ رہا ہے اسکے جواب میں
پارلیمنٹیرین کی قرار داد اس کا مناسب جواب نہیں۔اس جواب کو مصلحت آمیز ہی
نہیں بزدلانہ کہا جانا چاہیے۔اپنے ملک کی سلامتی پر حملے کا کیا ایسا ہی
جواب ہوتا ہے؟پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی بات کی جاتی تو کیا بھارت کی طرف
سے بھی ایسا ہی ردعمل آتا؟۔مودی کے جارحانہ بیان کے جواب کی ذمہ داری وزیر
اعظم نواز شریف پر تھی مگر وہ کئی روز خاموش رہے اور جب بولے تو لہجہ دھیما
اور الفاظ ایسے کہ بھارت کو ترش بھی محسوس نہ ہوں۔فرماتے ہیں، پاکستان ہر
قیمت پر اپنے اہم مفادات کا تحفظ کریگا۔ اس کو واضح دوٹوک پیغام سمجھا جانا
چاہئے۔ پاکستانی قوم کو بھارت کی سیاسی قیادت کی طرف سے حالیہ غیر ذمہ
دارانہ اور غیر دانشمندانہ بیانات پر مایوسی ہوئی۔ اس طرح کی بیان بازی سے
ماحول کشیدہ ہوگیا۔ یہ ہمیں علاقائی امن و سلامتی کے ہدف سے مزید دور لے
گیا لیکن ہم اشتعال انگیزی کی وجہ سے اپنی بلند اخلاقی روایات ترک نہیں
کرینگے۔۔ وزیر اعظم کا بیان تو اب کے مار کی طرح کا بھی نہیں ہے جس میں کسی
حد تک جرآت اظہار ہوتا ہے۔یہ بیان تو ایک طرف تھپڑ کھا کے دوسراگال آگے
کرنے کے مترادف ہے۔ ’’ہم اشتعال انگیزی کی وجہ سے اپنی بلند اخلاقی روایات
ترک نہیں کرینگے‘‘ اس کا دوسرا گال آگے کرنے کے علاوہ کیا مطلب بنتا
ہے۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا ہے کہ میانمار میں بھارتی فوج کے
آپریشن سے پاکستان پر خوف طاری ہوچکا ہے۔ہمارے حکمرانوں کے رویے سے تو یہی
نظر آتا ہے۔پاک فوج کی طرف سے یقینا ٹھوس اور دندان شکن جواب دیا گیااور
فوج نے کبھی اپنے بیان کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔قوم حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ بھارت کیساتھ مودی کے پاکستان کو
توڑنے کی سازش میں بھارت کے ملوث ہونے کے بیان پر معافی مانگنے تک ہر قسم
کے تعلقات اور تجارت منقطع کرلے۔یہ حب الوطنی اور آج کے حالات کا تقاضا
ہے۔قوم بھارت کے جارحانہ رویے کے جواب میں حکمرانوں کے بزدلانہ رویئے پر
کڑھ رہی اور فوج کو اسکے دلیرانہ موقف پر خراجِ تحسین پیش کررہی ہے۔ |