صدر آزاد کشمیر مسعود خان سے برطانیہ میں عوامی سوالات
ڈاکٹر مسفر حسن
صدر جموں کشمیر لبریشن لیگ برطانیہ و یورپ
بریڈ فورڈ کالج میں کشمیر سیمینار کا انعقادہوا جس کے مہمان خصوصی صدر آزاد
کشمیر جناب مسعود خان تھے جبکہ پینل میں لندن کے پروفیسر دبیش آنند اور
ساشہ بھٹ پینل کے اراکین تھے جبکہ نظامت کے فرائض نتاشا کول صاحبہ نے سر
انجام دیئے۔پروگرام کی ترتیب یوں تھی کہ نتاشا نے مہمانوں کا تعارف کروایا
اور اس کے بعد سیمینار کی غرض و غائیت بیان کی جس کے بعد ساشا بھٹ نے اپنے
ابتدائی کلمات میں جموں کشمیر کو کو ایک سیاسی مسئلہ کہا اور اس میں تمام
کوگوں کے یکساں حقوق کی بات کی۔ دبیش آنند نے بھی اسے مذہبی تقسیم سے ہٹ کر
دیکھنے اور امن کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔صدر آزادکشمیر
مسعود خان نے ابتداء کلمات میں امن کی ضرورت اور انتہا پسندی سے ہٹ کر حل
کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے وادی کشمیر میں حالات پر تبصرہ کرتے
ہوئے ہندوستانی افواج کے ظلم کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمے کی ضرورت اور
امن کی بحالی پر زور دیا۔ اس کے بعد صدر محترم نے آزادکشمیر کے خطہ کو بزور
طاقت آزاد کرانے کی بات کی جو ان کی پہلی کہی گئی امن پسندی کی تلاش کی بات
کی صریحا نفی اور مجوزہ حقائق سے ہٹ کر تھا۔ یہ بات کرتے ہوئے انکی باڈی
لینگویج امن کی زبان سے ہٹ کر تشدد کی غماضی کرتی تھی۔
اگلے رائونڈ سے پہلے نتاشا کی مختصر بات کے بعد پھر ساشا کو بات کرنے کا
موقع دیا انہوں نے مختصر بات کی جس میں عمومی حقوق اور امن کی ضرورت پر زور
دیا جبکہ دبیش آنند نے آزادکشمیر کے آئین میں غیرمسلم لوگوں کو حکومتی
عہدوں پر فائز ہونے کے حق سے محرومی کاذکر نمایاں تھا۔مسعود خان نے ان
تحفظات پر اپنی معروضات پیش کیں پھر سوالات کا سلسلہ شروع ھوا ۔شرکاء نے
اپنے تحفظات کے حوالے سے سوال کئے جنکی جوابات تینوں شرکا نے دئے۔ اس کے
بعد سوالات کا ایک اور رائونڈہوا جس میں سجاد راجہ نے صدر صاحب سے آزاد
کشمیر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ،لنٹ افسروں اور گلگت میں سیاسی گرفتاریوں اور
ایک شہری بابا جان کو دی گئی سزا کے بارے میں سوال کئے۔اس کے جواب میں
مسعود خان نے نہایت غیر سفارتی انداز میں ان سے کہا کہ کیا یہ سوال اپ کسی
کے کہنے پر کر رہے ھیں، لیکن انہوں نے پہلے دو سوالوں کے جواب تو جیسے تیسے
دئے کہ اب صرف دو لنٹ آفیسر ھیں اور اگلے چند سالوں میں بجلی کا معاملہ بھی
حل ھو جائے گا لیکن 85000 مربع میل کی ریاست کے دعویدار صدر صاحب کو گلگت
کے بارے میں یا وہاں کے حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا اور ہوتا بھی
کیسے کہ وہ فارن سروس کے ملازم صرف بریفنگ کی حد تک محدود رہتے ھیں وہ
سیاسی آدمی تو ٹہرے نہیں لیکن انہوں نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ
آزاد کشمیر کا خطہ انکے آبائو اجداد نے اپنے بل بوتے آزاد کروایا ۔ نتاشا
جو سٹیج سیکرٹری تھیں، اس بار بھی انہوں نے صدر صاحب کو اس بات سے نہیں
روکا۔اپنے رائونڈ اپ میں وہ بات کر رہیں تھیں تو مجھے مجبورا اٹھ کر مداخلت
کرنا پڑی کہ ایک طرف آپ لوگ امن کی زبان کی بات کر رہے ھیں اور دوسری جانب
مسعود خان نے دوسری مرتبہ پر تشدد طریقوں کو فخر یہ انداز میں پیش کیا اور
انہں روکا نہیں گیا جس سے یہ بات ظاہر ھے کہ یہ سارا سیمینارفضول، وقت کے
زیاں سے زیادہ اور کچھ نہیں اور یہ سارا قصہ برطانیہ کے عوام اور منتخب
نمائندوں کے ذہن میں مزید الجھن پیدا کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ۔
دوسری جانب حکومت پاکستان ہندووستان کے زیر انتظام کشمیر میںہونے والے
انسانیت سوز مظالم کو رکوانے کے لئے اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد پیش کرنے
میں ناکام رہی ہے ۔یہ ساری صورتحال انتہائی گھمبیر حالات کی نشاندھی کرتی
ہے جس میں سیر سپاٹوں کی بجائے مظفر آباد اور پاکستان کے ایوانوں میں
منصوبہ بندی اور صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ھے نہ کہ برطانیہ یورپ یا
امریکہ میں اپنا تماشہ بنانے کی۔ صدر محترم، آپ کے جانے کے بعد یہاں کے
اراکین پارلیمنٹ ھم سے پوچھتے ہیں کہ یہ لوگ یہاں کیا تلاش کرنے آتے ہیں
اور انتہائی تمسخر اڑایا جاتا ہے جو شائد آپ کے چاپلوس اور ملازم آپکو نہیں
بتاتے ۔
یکم جولائی کوبریڈفورڈ کالج میں منعقدہ اس سیمینار میں موجود کشمیری قوم
پرست جماعتوں کے نمائندوں نے صدر صاحب سے سوال و جواب کے دوران کچھ سوالات
کئے جن پر صدر صاحب کا یہ کہنا کہ آپ کسی کی ایماء پر سوال کر رہے ہیں۔ذاتی
طور پر میرے لئے اچھنبے کی بات تھی کہ باشندہ ریاست اگرریاست کے صدر سے کسی
بات پر سوال اٹھائے تو جواب دینے سے قبل اس قسم کے تبصرے کو کم از کم آزاد
دنیا میں خاصا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور پھر صدر صاحب کے بارے میں یہ تاثر
کہ وہ ایک منجھے ہوئے سفارتکارہیں، کم از کم میرے ذہن میں ان کا یہ تاثر
انکے ایک جملے سے مکمل زائل ہو گیا۔ بہرحال سیمینار کے اختتام پر صدر صاحب
کوہمارے ایک دوست محمود کشمیری جو جموں کشمیر نیشنل انڈی پینڈنس الائینس کے
چیئرمین ہیں اور نیشنل عوامی پارٹی جموں کشمیر کے صدر بھی ہیں انکی ایک
مختصر گفتگو ھوئی جو قارئین کی نظر کر رہا ہوں کہ دوست اس دورے کے حوالے سے
بہت سی باتیں پوچھ رہے ہیں۔محمود صاحب نے صدر محترم سے کہا کہ آپ اپنا عہدہ
لکھتے ہیں صدر آزاد ریاست جموں کشمیر لیکن ایکٹ کی موجودگی میں آپکو آزاد
ہونے یا با اختیارہونے کے کوئی حقوق حاصل نہیں اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ اپ
اپنے آپ کو صرف صدر جنوبی کشمیر لکھا کریں اس دوران ایک اور ساتھی یہ بات
چیت اپنے موبائل کیمرے سے ریکارڈ کر رہے تھے۔ اس نقطے پر پہنچ کر صدر صاحب
نے اس بات چیت کی ریکارڈنگ پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے سٹاف کے آدمی سے کہا
کہ یہ ریکارڈنگ بند کی جائے تو انکے سٹاف کے رکن یا کونصلیٹ سے متعلق شخص
نے کیمرے کے آگے ہاتھ رکھتے ھوئے کہا کہ آپ برٹش نیشنل ہیں آپ ریکارڈنگ
نہیں کر سکتے ۔بعد ازاں انہوں نے وہ کیمرہ چھیننے کی بھی کوشش کی یہ سارا
منظر ریکارڈ ہوا اور وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں نے اسے فوری طور ہر
خبروں کی زینت بنا دیا ۔جبکہ یہ چند منٹ کی کاروائی سوشل میڈیا پر وائرل ھو
گئی اور چوبیس گھنٹے میں بارہ ہزار سے زائد لوگوں نے ان مناظر کو دیکھا اور
صدر صاحب کے ساتھ موجود سٹاف کے اس تبصرے کو بھی سنا۔
اب یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ایکٹ 74 کی موجودگی میں مظفر آباد حکومت
اختیارات کے حوالے سے ایک عضو معطل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور اس ضمن
میں سوال کی جو ازیت موجود تھی اور صدر محترم اگر کچھ سیاسی دانشمندی رکھتے
تو وہ مناسب جواب دے سکتے تھے اور بات ختم ہو جاتی۔لیکن ا ن کاسوال کے جواب
کے بجائے کیمرہ بند کرنے پر اصرار اور انکے ساتھ جو بھی صاحب تھے ا،ان کا
جارحا نہ اور غیر قانونی طور سے زبردستی کرکے ریکارڈنگ بند کروانا برطانیہ
کے قانون کے مطابق ایک قابل گرفت جرم کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایک پبلک
فنکشن میں جہاں دیگر میڈیا نے پروگرام کی ریکارڈنگ کی، کوئی بھی کسی کو روک
نہیں سکتا جبکہ زبردستی یا بزور طاقت کسی سے کیمرہ چھیننا قابل دست اندازی
پولیس جرم بن جاتا ہے۔
یہاں ایک اور سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان حکومت کے قونصلیٹ اور
سفارتی عملہ صرف ہاں میں ہاں ملانے والوں کو اپنے آس پاس دیکھنا چاہتا ہے
جو کہ نہ صرف جمہوری سوچ اور طرز عمل کی نفی ہے بلکہ وطن سے محبت رکھنے
والے لوگوں کے ایک ایسے طبقے کو جو لوگوں کے حقوق اور انکی بحالی کی بات
کرتا ہے، اس کو کنارے کر کے یہ سفارت کار ملک و قوم کی کیا خدمت سرانجام دے
رہے ہیں؟ ان کاطرز عمل پوری ریاست جموں کشمیر اور پاکستان میں دیکھا گیا
اور لوگ جو تبصرے صدر صاحب اور انکے عملے کے بارے میں کر رہے ہیں ،اس سے ان
کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ آپ لوگ پاکستان میں تو انسانوں کو
کسی گنتی میں نہیں رکھتے لیکن آپ کا یہ کہنا کہ برٹش نیشنل فلم نہیں بنا
سکتے، مزید سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ملک پاکستان یا پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو آپ ان لوگوں سے چندے کی اپیلیں کرتے
ہیں، بھکاری بن کر، یہ ان لوگوں کی وطن سے محبت ہے کہ لوگ آپ کا غیر انسانی
رویہ بھلا کر دل کھول کر حسب توفیق مدد کو آتے ہیں۔ یہ محنت کش اربوں
پائونڈ کا زر مبادلہ سالانہ پاکستان کے خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ سب سے بڑھ
کر یہ کہ پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں کو حکومت کسی
قسم کی سہولت نہیں دیتی اور یہی لوگ وہاں موجود اپنے رشتے داروں کو ماہانہ
رقوم فراہم کر کے ان کے لئے کچھ با عزت زندگی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
اور یہ سفارت خانے کے ملازم افراد نوکروں کی طرح رہنے کے بجائے پاکستان
والی حاکمانہ ذہنیت یہاں بہی چلانے کی کوشش کریں گے تو حالات میں بگاڑ پیدا
ہو گا ۔
یہ چند گزارشات اس لئے گوش گزار کی ہیں کہ سفارتی عملہ کو کمیونٹی میں گروہ
بندی پیدا کرنے کے بجائے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔آپ کے طرز
عمل سے عوام کی اکثریت پہلے ہی ھی بہت بیزار ہے اور آپ کے اس طرز عمل سے
مزید خرابی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ شائد آپ کی سمجھ میں یہ آ جائے کہ صدر
صاحب کی تقریب میں آنے والا ہر شخص فوٹو اور مفت خوراک کی خواہش لے کر نہیں
بلکہ کچھ دیوانے ملک قوم اود مسائل کی نشاند ہی اور انکے حل کی خواہش لیکر
بھی آتے ہیں۔ انہیں اپنی حاکمانہ ذہنیت سے نیچے آ کر ملک و قوم کی خدمت کی
سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ بہرحال آپ کو اس قوم کے خون پسینے کی کمائی
کے ٹیکس سے تنخواہ ادا کی جاتی ہے اور آپ اس قوم کے حاکم نہیں بلکہ خادم
ہیں۔
شائید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
ڈاکٹر مسفر حسن
برطانیہ
|