محاورہ ہے ’’کیا اچار ڈالوں‘‘ معلوم نہیں یہ محاورہ کن
حالات میں سامنے آیا لیکن اسکا مطلب ایسی فضولیات سے ہے جن کا صرف اچار ہی
ڈالا جاسکتا ہے ۔ ہماری مشرقی ثقافت میں اچار کی خاص اہمیت ہے لیکن یہ پتہ
نہیں کون بدیسی تھے جنہوں نے ایسا فضول اور کلچر پر براہ راست حملہ کرنے
والا محاورہ بنا ڈالا۔ یہ تو بھلا ہو کھانے پینے کا کاروبار کرنے والی
کمپنیوں کا جنہوں نے مزے مزے کے اچار خوشنما پیکنگ میں متعارف کروا دیئے
ورنہ آج کی انٹرنیٹ نسل کو کہاں اچار ڈالنے کی توفیق ہوتی۔ ہمارا موضوع
قطعاً اچار نہیں ہے بلکہ کراچی میں پڑنے والی پہلی بارش ہے جس نے جہاں
شہریوں کے چہروں کو کھلا دیا وہیں تازہ تازہ بننے والی سڑکوں کا کچومر نکال
دیا ۔سڑکوں کا کچومر بننا تھا کہ سندھ حکومت کے جواں سال وزیر اعلیٰ کی
زناٹے بھرتی ترقی زمین بوس قرار دی جانے لگی حالانکہ ابھی جمع خاطر رہنا
چاہیے کہ سڑکوں کا چارج ابھی سندھ حکومت نے لیا نہیں ہے بلکہ ابھی سڑکوں کی
تکمیل کا بہت سا کام باقی ہے ۔
بارش کا یہ پہلا قطرہ محکمہ موسمیات کی ان پیشن گوئیوں کے مقابلے میں کچھ
بھی نہیں جس کے بارے میں انکا کہنا ہے کہ اس سال شدید بارشیں ہوسکتی ہیں
اور ان بارشوں سے کراچی میں سیلابی صورت حال بھی بن سکتی ہے ۔ محکمہ کی
جانب سے اس الارمنگ پیشن گوئی کے بعد حکومت کے مختلف محکموں نے فوری طور پر
اپنے بجٹ سازوں کو متحرک کردیا ہے تاکہ بارشوں کی آمد سے پہلے ہی تخمینہ
لگا کر سندھ کے خزانے سے عوام الناس کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کا
بندوبست شروع کردیا جائے ۔
میڈیا نے کراچی کی پہلی بارش میں شہر کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس نے کراچی کی
عوام کو شدید مایوس کردیا ہے ۔دو دن کی بارش میں 15 لوگوں کی اموات، یقین
نہیں آتا اور شائد اسی لیے جب کسی نے متاثرہ علاقے کے لوگوں کو حکومتی
اداروں کو صورت حال سے مطلع کرنے کا مشورہ دیا تو جل کٹے ایک فرد نے تنک کر
کہا ایسی حکومت کا ’’اچار ڈالنا ہے‘‘ اب اگر کوئی سڑک بہہ گئی یا کسی سڑک
کا کچھ حصہ بیٹھ گیا تو اس میں حکومت بے چاری کا کیا قصور ،گورنمنٹ سے
رجسٹرڈ کنٹریکٹر کو پوری شفافیت کے ساتھ ٹھیکہ دیا گیا تھا ۔اور آپ کو یہ
تو اچھی طرح معلوم ہی ہوگا کہ تمام قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر کوئی
ٹھیکیدار گورنمنٹ میں رجسٹرڈ ہو ہی نہیں سکتا ۔ باقی یہ کمیشن ،ومیشن کی
باتیں تو میڈیا کی پھیلائی ہوئی ہیں ۔آج تک کبھی کوئی کمیشن مافیا پکڑی گئی
یا کسی عدالت سے سزا یافتہ ہوئی ہے۔جب تک کسی پر الزام ثابت نہ ہوجائے
قانون تو اسے معصوم ہی سمجھتا ہے ۔پھر میڈیا معصوموں کو کیوں بدنام کررہا
ہے ۔
شاہرہ فیصل کتنی لمبی سڑک ہے ابھی سڑک بننے سے پہلے ڈرگ روڈ سے اسٹیل ملز
کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا تھا جبکہ سڑک کی تعمیر کے بعد یہ سفر چالیس منٹ
کا رہ گیا ۔اب اگر کہیں سے سڑک بیٹھ گئی تو ابھی تازہ تازہ تو اس نے چلنا
شروع کیا تھا تھک گئی ہوگی۔ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے اٹھ جائے گی۔ سب کو
حکومت ہی نظر آتی ہے تنقید کرنے کیلئے ۔بارش کے پانی کا معاملہ تو بلدیات
کا ہے ۔بلدیات تو پیپلز پارٹی کے پاس نہیں ہے تنقید کرنی ہے تو لوکل
گورنمنٹ پر کی جائے ۔یہ تو سندھ حکومت پر ناکردہ کی تنقید ہے اور سراسر
سیاسی مخاصمت کا نتیجہ ہے۔ یونیورسٹی روڈ کا افتتاح بھی اسی ماہ ہوا تھا
لیکن یہ افتتاح عید کی خریداری میں سہولت بہم پہنچانے کیلئے عوام کی خدمت
میں پیش کیا گیا تھا تاکہ لوگوں کو آمدورفت میں پریشانی نہ ہو ورنہ عملاً
ابھی یونیورسٹی روڈ پر کام مکمل نہیں ہوا تھا خاص طور پر درمیاں میں کھجور
کے درخت،سائیڈوں پر فٹ پاتھوں کی تعمیر، اسکے علاوہ سڑک کو پانی کے مضمرات
سے بچانے کیلئے حفاظتی پشتوں کی تعمیر وغیرہ ۔ اب اگر وزیر اعلیٰ نے عوام
کی مشکلات کے پیش نظر یونیورسٹی روڈ کا افتتاح کردیا تو اسکا پتنگڑ بنانے
کی ضرورت کیا ہے۔ ورنہ حکومت تو سرکاری ہے لیکن کے الیکٹرک تو نجی کمپنی ہے
بارش کا پہلا چھینٹا پڑتے ہی سینکٹروں فیڈر ٹرپ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ
معاملہ سرکار یا بنا سرکار کا نہیں ہے بلکہ قسمت کا لکھا ایسا ہی ہے۔
ہم تو سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بارشوں اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ
ہے۔پہلے عوام اتنی ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالتی تھی لیکن اب ہر مشکل کی
ذمہ داری حکوت پر ڈال دی جاتی ہے ۔اب بارش تو من جانب اﷲ ہے ۔اسکی ذمہ داری
بھی حکومت پر ۔یہ تو سراسر نا انصافی ہے۔مون سون کی تیاری کی سالانہ ضرورت
ہمارے خیال میں انگریز بہادر نے نکالی ہوگی اسی لیے آج تک ہر مون سون سے
پہلے تمام ڈپارٹمنٹس میں ایک سرکلر جاری ہوتا ہے جس میں مون سون کی جانب
توجہ مبذول کرواتے ہوئے اسکی مناسب تیاری پر زور دیا جاتا ہے ۔ کسی زمانے
میں سیوریج کے پانی اور برساتی پانی کی گذر گاہیں الگ الگ ہوا کرتی تھیں
لیکن برا ہو بارشوں کا کہ وہ سالانہ ہونے کی بجائے سالوں بعد ہونے لگیں لوگ
برساتی گذر گاہوں کو بھول گئے اور حکومت تو عوام کی نمائندہ ہوتی ہے اس لیے
جب عوام ہی بھول گئی تو اسے کیسے یہ گذر گاہیں یاد رہنی تھیں اب اگر ان
راستوں پر پہلے کچی اور بعد ازاں پکی آبادیاں قائم ہوگئیں تو اس میں کسی کا
کیا قصور ۔اصل قصور تو ان برساتوں کا جنہوں نے سالانہ کا راستہ چھوڑ سالوں
کا فاصلہ اپنا لیا۔
آج تک ہم نے کبھی ایسی کوئی آڈٹ رپورٹ نہیں پڑھی جس میں مون سون کی تیاری
پر خرچ کیے گئے سالانہ بجٹ کا بتایا گیا ہو۔ لیکن اگر کبھی ایسی کوئی رپورٹ
سامنے آگئی تو بھی ایسا کوئی طوفان نہیں آجائے گا رات گئی بات گئی کی طرح
بارش گئی رقم گئی اب کس بات کا حساب ۔ جیسے ہیٹ اسٹروک نے جب کراچی میں
ڈیرا ڈالا اور کئی سو اسکا شکار ہوئے اسکے بعد سے ہر سال تیاری کی جارہی
ہے۔اور یہ سب تیاری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر سال لوگ محفوظ رہتے ہیں لیکن
گرمیاں ختم ہونے کے باوجود کوئی ہیٹ اسٹروک سے لوگوں کو محفوظ بنانے کی
تعریف نہیں کرتا۔ حکومت کے اسطرح کے کئی اچھے کام بھی ہیں لیکن پھر بھی اگر
عوام یہ کہے کہ ’’ حکومت کا کیا اچار ڈالوں‘‘ تو یہ سرا سر قومی سلامتی کہ
عین مطابق ہی ہے؟ |