کراچی ویسے تو متعدد مسائل کی آجامگاہ بنا ہوا ہے ۔
70فیصد ریونیو دینے والے شہر نا پرساں کا حال انتہائی بدترین بے حسی کی
مثال بنا ہوا ہے۔ ویسے تو کراچی میں ٹرانسپورٹ ، تعلیم، انفرااسٹرکچر ،
اسٹریٹ کرائم سمیت لاتعداد مسائل ہیں ، جو حل طلب ہیں ، لیکن صحت کے معاملے
میں کراچی کی ہزاروں کی تعداد پر مشتمل آبادیاں"چکن گنیا" کے وبائی مرض کا
شکار ہو چکی ہے ۔ انڈرس اسپتال کے شعبہ انفکیشن ڈیزیر کے سربراہ پروفیسر
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق"چکن گنیا" کا عام انسان پر اتنا خوف ہے کہ
بخار میں مبتلا ہونے والے افراد عام مریض بھی یہی سمجھتے ہیں کہ انھیں"چکن
گنیا" ہوگیا ۔"چکن گنیا" کی علامات میں بخار ، جوڑوں میں درد ، جوڑوں میں
سوزش ، جلد پر لال دبے ، پٹھوں میں درد ، الٹی آنا و دیگر شامل ہیں۔"چکن
گنیا" ایک وائرل مرض ہے۔"چکن گنیا" کی سنگین صورتحال اس وقت سامنے آئی تھی
جب کراچی کے علاقے ملیر کھوکھراپار کی مکمل آبادی جو تقریباََ 25000افراد
پر مشتمل تھی "چکن گنیا" کے ہولناک مرض میں مبتلا ہوگئی تھی۔ بتایا یہی
جاتا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر بھارت کی جانب سے قربانی کے جانوروں کی
ملیر مویشی منڈی سے یہ بیماری پھیلی۔"چکن گنیا" ملیریا او ڈینگی کی طرز کا
مرض ہے ، لیکن اس کا دورانیہ پانچ سے چھ دن رہتا ہے ۔ بخار اتر جاتا ہے
لیکن جوڑوں اور پٹھوں میں درد مسلسل رہتا ہے ، جو کئی ہفتوں اور کئی مہینوں
تک بھی رہ سکتا ہے۔ پہلے یہ بتایا گیا کہ مچھر سے پیدا ہونے والی یہ بیماری
صاف پانی اور کھلے پانی میں مچھر کی افزائش سے پیدا ہوتی ہے۔ مچھر اگر کسی
انسان کو کاٹ لیتا ہے اور وہ "چکن گنیا" میں مبتلا ہوجاتا ہے تو دوسرا مچھر
اس مریض کو کاٹتا ہے تو وہ زہر اس مچھر سے منتقل ہوجاتا ہے ۔ جس سے یہ تیزی
کے ساتھ بیماری پھیلتی ہے۔"چکن گنیا" کی سنگین صورتحال کے سبب عالمی ادارہ
صحت کی ٹیم نے کراچی کے متاثرہ علاقوں و اسپتالوں کا دورہ کیا اور کراچی کو
کچرے میں اٹا ہوا دیکھ کر حواس باختہ ہوگئیں ۔
حکومت کی جانب سے"چکن گنیا" کی جانب اس وقت توجہ لی گئی جب متعدد آبادیوں
کے ہزاروں افراد اس مرض میں مبتلا ہوگئے ۔ جس کے بعدصوبائی وزیر صحت ڈاکٹر
سکندر میندھرو نے کہا ہے کہ "چکن گنیا" ایک وائرل بیماری ہے اور وائرل
بیماری سے بچنے کے لیے ویکسین کی جاتی ہے، مگر"چکن گنیا" کے حوالے سے اب تک
دنیا میں کوئی بھی ویکیسن دریافت نہیں ہوئی ہے۔اس کے علاج کیلئے کوئی خاص
اینٹی وائرل ڈرگ اورویکسین موجود نہیں ہے۔ اس سے متاثرہ مریض پانی کا زیادہ
استعمال کریں، آرام کریں، صرف بخار دور کرنے کی دوا استعمال کریں، درد کی
دوائیں نہ استعمال کریں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔"چکن گنیا" کے تشخص کیلئے
کراچی میں کوئی لیبارٹری نہیں ہے ۔ مریض جب اسپتال جاتے ہیں تو انھیں بتایا
جاتا ہے کہ سرکاری طور پر اس کی کوئی فیس نہیں ہے۔ نمونے تو لئے جاتے ہیں
لیکن تشخیص رپورٹ15دن بعد اسلام آباد سے آئی گی ۔ کچھ نجی اسپتالوں میں "چکن
گنیا" کی تشخیص کیلئے ٹیسٹ لئے جاتے ہیں ، جس کی فیس 7500 روپے سے لیکر
15000روپے ہے ۔ لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ ٹیسٹ کرانے والوں کو یہی مشورہ
دیا جاتا ہے کہ رپورٹ تو دس سے پندرہ دن بعد آئے گی ، جبکہ مرض کا دورانیہ
ایک ہفتے ہے ۔ لہذا ٹیسٹ کرا وکر پیسے کیوں ضائع کرتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ پہلے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے چکن گونیا کی کسی پراسرار
وبا موجود ہے، یہان تک کہ عالمی ادارہ صحت کے پاکستانی نمائندے بھی چکن
گونیا کی موجودگی سے انکاری تھے،لیکن جب سیکرٹری صحت نے مریضوں کے خون کے
ٹیسٹ میں چکن گونیا کی تصدیق ہوگئی تو علاج کے حوالے سے حکومتی موقف سامنے
آیا ۔ حشریات کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ چکن گنیا
شدید بخار اور جوڑوں میں درد ضرور پیدا کرتا ہے۔ لیکن، عام طور پر ہلاکت کا
باعث نہیں بنتا اور تقریباً ایک ہفتے میں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہو جاتا
ہے۔
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ، سعودآباد گورنمنٹ اسپتال ڈاکٹر ریحانہ باجوہ نے وی او اے
کو بتایا کہ مریضوں کی رہنمائی کے لئے خصوصی ڈیسک قائم کردی گئی ہے، جہاں
مریضوں کو مکمل معلومات کے ساتھ ساتھ تیز بخار اور جوڑوں میں درد میں مبتلا
مریضوں کو ادویات کی فراہمی بھی جاری ہے۔سندھ گورنمنٹ قطر جنرل اسپتال کے
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا ہے کہ"چکن گنیا" کا وائرس ایک
خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے جو بخار اور
جوڑوں میں شدید درد کا باعث بنتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ"چکن گنیا"
وائرس کی دیگر علامات میں تھکاوٹ، پٹھوں اور سرمیں درد شامل ہیں۔ مرض کی
علامات مچھر کے کاٹنے کے دو سے سات روز بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ مرض جان لیوا
نہیں۔ یہ کچھ دنوں تک رہنے کے بعد خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹرز بخار اور
درد دور کرنے کی ادویات ہی اس مرض میں تجویز کرتے ہیں کیوں کہ اس کا کوئی
مخصوص علاج اور ویکسین نہیں۔
یہاں تک تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ کیونکہ کوئی ویکسین نہیں ہے اس لئے اس کا
علاج " اﷲ تعالی"پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے اسباب کو دور کرنے کی
کوشش نہیں کی جاتی ۔ سندھ حکومت بتاتی ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کو پچاس کروڑ روپے
ماہانہ گرانٹ دیتی ہے ۔ لیکن وہ کہاں خرچ ہوتی ہے ، سندھ اسپیکر کے ریمارکس
تھے کہ اس گرانٹ کا آڈٹ کرانا چاہیے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں معتدی بیماریوں
کی اصل وجہ غلاظت ، سیوریج کا نظام اور کچرا ٹھکانے پر نہ پہنچانا ہے۔ اس
بات کا اظہار اس وقت بھی کیا گیا کہ جب شہر قائد کے علاقے ابراہیم حیدری
جہاں"چکن گنیا" بے قابو ہو گیا، روازنہ درجنوں افراد "چکن گنیا" کا شکا ہو
کر اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں لیکن اسپتال میں کٹس ہی نہیں تھی جس سے چکن
گنیا کا ٹیسٹ ممکن ہو سکے۔جگہ جگہ گندگی اورغلاظت کراچی کے علاقے ابراہیم
حیدری میں"چکن گنیا" بے قابو ہوگیا، کیا بچے کیا بڑے اکثریت کو
تیزبخاراورجوڑوں میں درد کی شکایت ہونے لگی۔ایم ایس سندھ گورنمنٹ اسپتال
ابراہیم حیدری ڈاکٹرنجمہ انصاری کہتی ہیں کہ ستاون میں سے انتالیس کیسوں کی
تصدیق ہوگئی۔علاقہ مکین صفائی کی ابتر حالت سے پریشان ہیں ابراہیم حیدری
اسپتال"چکن گنیا" ے لڑنے میں تو مصروف مگر عملے کے پاس بلڈ ٹیسٹ کی کٹس تک
موجود نہیں ہیں۔
دراصل کراچی میں اس وقت اقتدار کی جنگ رواں ہے اورصوبائی اور بلدیاتی
اداروں کے درمیان تصادم کی فضا پائی جاتی ہے ۔ جس کے سبب عوامی مسائل حل
نہیں ہو پا رہے ۔ بلدیاتی نمائندے ، اختیارات اور فنڈ نہ ہونے کا رونا روتے
ہیں تو صوبائی حکومت بتاتی ہے کہ وہ کراچی میں کئی عشروں سے پیدا شدہ خراب
صورتحال کو درست کرنے میں اربوں روپوں کا فنڈز خرچ کررہی ہے۔ انفرا اسٹرکچر
سیوریج کا خراب نظام اور ناقص منصوبہ بندی کے سبب کراچی میں 30 برسوں سے
حکومت کرنے والوں نے کراچی کے مسائل حل نہیں کئے ۔ پرویز مشروف دور میں
سابق میئر مصطفی کمال کو سابق صدر پرویز مشرف نے300ارب روپے کا کراچی کی
ترقی کے لئے پیکچ دیا تھا ، لیکن چند برسوں میں ہی کراچی کی حالت دوبارہ
قابل ترس ہوگئی۔ موجودہ میئر کراچی وسیم اختر صوبائی حکومت سے فنڈز اور
اختیارات دینے کا مسلسل مطالبہ کئے جا رہی ہے۔ لیکن عوام کو یہ سمجھ نہیں
آرہا کہ کراچی میں بارہ ہزار ٹن کچرا ویسٹ سالٹ پوائنٹ پر کیوں نہیں
پہنچایا جارہا ۔
دراصل کراچی کا کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں کچروں کے پہاڑ و غلاظت موجود
نہ ہو ۔ اس کے ساتھ ہی سیوریج کے ناقص نظام کے سبب نکاسی آب ان کچروں کا
حصہ بن جاتا ہے جس سے اربوں کی تعداد میں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔یہ مچھر
ناقص صفائی و عدم توجہ کے سبب موذی امراض ، ملیریا ، ڈینگی ، اور چکن گونیا
کا سبب بنتے ہیں۔ جب تک اصل سبب کو دور نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس وبا
کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ "چکن گنیا" کی وجہ سے ایک صحت مند شخص اپنے روز مرہ
کے کاموں سے محروم ہوجاتا ہے ۔ بظاہر اس کا بخار ختم ہوجاتا ہے لیکن جوڑوں
اور پٹھوں کے اذیت ناک درد کی وجہ سے مریض کا جسم مفلوج سا ہوجاتا ہے اور
اپنے روز مرہ کے امور سر انجام دینے چلنے پھرنے اور عام صحت مند انسان کی
زندگی دوسروں کی مدد کی محتاج ہوجاتی ہے ۔ یہا ں المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے
گھر کے افراد بھی اس وبا کا شکار ہوجاتے ہیں اور تہمادار بھی اس کی عیادت
کے لئے اس کے ساتھ تعاون نہیں کرسکتے ۔ ان تمام صورتحال میں" عطائی
ڈاکٹروں" کے لئے یہ ایک تاریخی سیزن ہے ۔ اینٹی بائیو بٹیک ادویات ،پیلی
نیلی ڈرپس اور مہنگی دوائیں اور بھاری فیسز وصول کرکے مریضوں کی مجبوریوں
سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ صوبائی اور شہری حکومتوں کے لئے سب سے پہلے
کرنیکام یہ ہے کہ عوام کو ان عطائی ڈاکٹروں سے نجات دلائی جائے ۔ عطائی
ڈاکٹروں کی وجہ سے مریض اپنی موت کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ کیونکہ متوسط اور
غریب آبادیوں میں ایم بی بی ایس ڈاکٹرز پریکٹس نہیں کرتے ، بلکہ سرکاری
اسپتالوں میں کام کرنے والے ٹیکنشنوں، نرس اسٹاف کو ڈاکٹر بنا کر بڑی بڑی
ڈسپنسریاں ، اسپتال کے نام سے بنا لیتے ہیں جہاں گائنی بھی کیجاتی ہے ۔ اور
انسانی جانوں سے کھیلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو وزیر صحت کو عطائی
ڈاکٹر جیسے ملوک الموت کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل ترتیب دیکر
آپریشن کریں ، کیونکہ ان عطائی ڈاکٹرز کے ہاتھوں لاتعداد ایسے مریض جاں بحق
ہوچکے ہیں ، جو اگر مستند ڈاکٹرز سے علاج کراتے تو یقینی طور پر اکثریت کی
زندگیاں بچ سکتی تھیں ۔ عطائی ڈاکٹرز ایسے اﷲ کی رضا قرار دیکر خود کو بری
الزما قرار دے دیتا ہے ۔ یہاں ایک اور قابل افسوس صورتحال یہ ہے کہ کمیشن
کے چکر میں وہ ایسی کمپنیوں کی ادویات کو اپنے کلینک میں قائم اسٹورز سے
فروخت کرتے ہیں ، جو صورتحال کو مزید خراب کرتی ہیں ۔ باقی رہی سہی کسر
جعلی ادوایات پوری کردیتی ہے ۔چکن گونیا کراچی کے ایک علاقے سے دورسے علاقے
میں اسی لئے تیزی سے پھیل رہا ہے کیونکہ علاقوں میں پڑے کچرے کے انبار اور
سیوریج کا ناقص نظام اور مچھر کش ادویات کا اسپرے نہ ہونا اس کی بنیادی
وجوہات میں شامل ہے ۔ اگر ادارے اپنا کام مکمل ذمے داری سے کریں تو اس
وبائی مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے کراچی کی
عوام کی جانوں و تکالیف کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے۔ کراچی ی عوام جس قدر
اذیت و تکلیف میں زندگی گذار رہے ہیں ، پاکستان کے دوسرے شہروں و علاقوں کے
عوام اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ پانی کی غیر منصفانہ فراہمی ، غیر قانونی
ہائی درینٹ ،سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے میں کوتاہی ، لوڈ شیڈنگ کا
عذاب ، اسٹریٹ کرائم ، معمولی بیماری کیلئے بھی ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے
ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تو شہر کراچی امن کی جانب چل
پڑا ہے ، لیکن کراچی کے دیگر مسائل کا حل تو حکومت کے پاس ہے لیکن اس پر
عمل در آمد کرانے کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ شہر میں ایک ایسی لیبارٹری کی
ضرورت ہے جو فوری طور تشخیص کرسکے ، اسلام ااباد نمونت بھیجے جانے اور واپس
آنے تک مریض کے حالات انتہائی خراب ہوجاتے ہیں۔ کھربوں روپوں کے بجٹ میں
صوبائی محکمہ صحت کراچی میں ایسی لیبارٹری قائم کرنے میں کامیاب کیوں نہیں
ہوسکی جس میں وائرل انفیکشن کی بیماریوں کی تصدیق ہوسکے؟ ۔ ایک بڑا سوالیہ
نشان ہے کہ اداروں کو اپنی ذمے داریوں سے کتنی دل چسپی ہے۔ جو علاقے متاثر
ہوئے ہیں ان میں اورنگی،بلدیہ ٹاؤن، شیر شاہ،کیماڑی، مچھر
کالونی،لیاری،رنچھوڑ لائن،کھارادر،میٹھا در،نارتھ ناظم آباد،شادمان
ٹاؤن،نارتھ کراچی،نیو کراچی،گلبرگ،فیڈرل کیپٹل ایریا،فیڈرل بی ایریا،جمشید
ٹاؤن،جہانگیرآباد،کورنگی،ملیر،شاہ فیصل کالونی،لانڈھی،گذاپ ٹاؤن،منگھو
پیر،پی آئی بی کالونی اور دیگرشامل ہیں ۔ وفاقی ، صوبائی اور شہری حکومتو ں
کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس سے قبل کہ یہی بیماری مزید کسی نئی مہلک
وبا کا سبب بن جائے۔لیبارٹریوں کی کیمابی کی وجہ سے مریض کی موت بھی واقع
ہوسکتی ہے ، جیسے تقدیرکا لکھا کہہ کر اپنی جان چھڑا لی جاتی ہے۔مچھروں کی
افزائش کے مقامات جیسے گندے پانی کے جوہڑ، تالاب، آبی ذخائر وغیرہ "چکن
گنیا" کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ چکن گنیا سے بچاؤ کے لیے ان تمام
جگہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ جس کے لیے مچھر مار اسپرے کیا جائے۔طبی ماہرین کا
کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر ایسا لباس زیب تن کریں جس سے کم سے کم
اعضا کھلے ہوں، چہرے اور ہاتھوں پر مچھر کو دفع کرنے والے لوشن وغیرہ بھی
استعمال کیے جاسکتے ہیں۔دن کے اوقات میں سونے والے افراد خاص طور پر چھوٹے
بچے اوربزرگ مچھر دانی کا استعمال کریں۔ علاوہ ازیں کمروں میں مچھر بھگانے
والی کوائل اوراسی نوع کی دوسری اشیاء کا استعمال بھی ضروری ہے۔گزشتہ کئی
مہینوں سے چکن گنیا کے پھیلا ؤ میں تیزی آگئی ہے جس کی روک تھام کیلئے
محکمہ صحت سندھ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ |