نہال ہاشمی کے بعد خواجہ سعد رفیق کی حالیہ متنازع تقریر
سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ پی ایم ایل این کو یہ اندازہ ہوچکاہے کہ جے آئی ٹی
کی رپورٹ ان کے حق میں نہیں ہوگی۔جس کی بنا پر اس بار وزیراعظم کی کمپارٹ
آنے کا کوئی امکان نہیں اور یہ کہ سپریم کورٹ کا مکمل ججمنٹ حکومت کے خلاف
آسکتاہے،یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت کے کچھ وزرااور عہدیداران اس عدالتی عمل میں
شامل تمام اداروں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور کبھی کبھار اشاروں
کنایوں سے فوج پر بھی تنبیہ کردی جاتی ہے ،اور عمران خان کو بتایا جارہاہے
کہ نواز لیگ ڈسکوالیفائی ہوئی تواس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ انہیں اقتدار
مل جائے گا؟۔انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیاہے کہ اگر ہم گرے تو آپ بھی
نہیں آئینگے؟۔ بنیادی طورپر خواجہ سعد رفیق یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری حکومت
کو کچھ نہ کہا جائے اور اگر حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو جمہوریت
خطرے میں پڑجائے گی یعنی بقول خواجہ سعد رفیق کہ جمہوریت کی بقاء کے لیے
وزیراعظم نوازشریف کا اقتدار میں رہنا بہت ضروری ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ
حکومت اپنی مشکلات کو کم کرنے کے لیے عوامی فلاح کے منصوبوں پر کوئی توجہ
نہیں دینا چاہتی بلکہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کو پروپیگنڈہ قرار دیتی ہے
۔ایک بات تو واضح نظر آتی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا ججمنٹ نواز شریف اور ان
کے خاندان کے خلاف آیا تو وہ اس فیصلے سے انکار تو نہیں کرینگے مگراس پر
عملدرآمد کو آہستہ کردیا جائیگایا پھر ٹالنے کی کوشش پر کام ہوگا اور یہ
کوشش کی جائیگی کہ پنجاب خصوصاً لاہور میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا
جائے ۔دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے
کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مکمل سپورٹ کرتے ہوئے حکومت کی مشکلات میں
اضافہ کرینگی، یعنی یوں کہا جائے کہ آئندہ چند روز تک ملک میں ایک غیر
یقینی حالات کا دور شروع ہونے والاہے خواجہ سعد رفیق جس معاملے کو آگ کا
کھیل قرار دے رہے ہیں جو ملکی حالات کو تصادم کی جانب لیکر جاتاہے یقیناً
خواجہ سعد رفیق نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اوراس دور حکومت میں
یہ ان وزراء میں سے ہیں جو اپنی خراب ترین کارکردگی کے باوجود وزیراعظم سے
داد وصول کرتے رہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب بھرمیں نوازشریف کے چاہنے
والے موجود ہیں اس طرح اقتدار کو خطرے کی صورت میں حکومت کی جانب سے کوئی
بھی طریقہ کار استعمال کیا جاسکتاہے ۔ قائرین کرام یہ تو حالات تھے اس ملک
کے مگر ان ساری باتوں میں کہیں بھی عوام کی فلاح وبہبود کا تزکرہ نہیں ہے
صرف اور صرف اقتدار کے حصول کی جنگ ہی دکھائی دے رہی ہے ،ایک شخص دوسرے شخص
کو اقتدار سے اتار کر خود اس کی کرسی پر بیٹھنا چاہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ
میں اس سے زیادہ اچھا حکمران ثابت ہونگامیں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کی ستر
سالہ تاریخ میں جو حالات اب ہیں ایسے حالات اس ملک میں پہلے بھی آئیں ہیں
اس سے بھی بری صورتحال کا سامنا رہاہے اور ان جھگڑوں کی چپلقش کے بعد جو
بھی حکومت آئی ہے انہوں نے عوام سے کیئے گئے تمام وعدوں کاخون ہی کیا
ہے۔موجودہ حکومت نے بھی اس قوم سے اسی قسم کے وعدے کیے تھے اور یہ عوام دو
بار آزمائی ہوئی پارٹی کو پھر سے اقتدار میں لے آئی اور اس طرح عوامی مسائل
کو ایک بارپھر سے منہ کی کھانا پڑی ۔ موجود وقت میں حکومتی عہدیداروں کو اس
وقت اپنی اپنی وفاداریوں کو نبھانے اور کچھ کردکھانے کا جو جنون سوار ہے
اسے ہم آئے روز ٹی وی چینلوں پر دیکھتے ہیں جس انداز میں نہال ہاشمی نے
اپنی تقریر میں شعلے اگلے ہیں وہ کوئی فلبدی نہیں تھے بلکہ اس کا اسکرپٹ
باقاعدہ تیار کیا گیاہے اور یقینا عابد شیر علی سمیت جتنے بھی لوگ جے آئی
ٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے سب کو اجازت نامہ حاصل ہے اور خواجہ سعد
رفیق بھی اپنی تقریر کا اسکرپٹ خوب رٹ کر آئے تھے ان معاملات کا مقصد ملک
میں ہلچل مچانا ہوتا ہے کہ سارا دن نیوزچینلوں کی سرخیوں اور پروگراموں میں
عوام کا وقت برباد کیا جائے اور کسی طرح سے اپنی دھمکیوں سے اپنے اہداف بھی
پورے کرلیئے جائیں ،یہ حکومتوں کی منشا رہی ہے کہ اقتدار کی ڈوریوں میں چند
ایک ایسی گانٹھے بھی اپنے ساتھ ملالی جاتی ہیں جنھیں ضرورت پڑنے پر کھولا
جاتاہے یعنی قربانی کے بکرے جنھیں اندھیرے میں تیر چلانے کے لیے استعمال
کیا جاتاہے جو تیر سہی بیٹھ گیا تو کیا ہی بات ہے اور جو تیر خطا ہوا اس کو
شوکاز نوٹس جاری کرنے اور حکومت سے لاتعلقی کے لیے استعمال کیا جاتاہے ان
چمچوں کی عزت ونفس کی کیٹاگریاں بھی بنائی گئی ہیں یقیناً نہال ہاشمی سی
کیٹا گری اور طلال چودھری جیسے لوگ بی کیٹاگری اور سعد رفیق جیسے لوگ اے
کیٹا گری کی قربانیاں ہیں جنھیں ان ہی مشکل دنوں کے لیے استعمال کیا جاتاہے
جب حکومت کو ان سے کام لینا ہوتا ہے اس کا حتمی فیصلہ بھی بھی وہ ہی کرتاہے
جس نے ان لوگوں کو مناسب انداز میں سر پر چڑھایا ہوتاہے قائرین کرام حکومت
یہ بھول جاتی ہے کہ حکومت بچانے کے لیے جو حربے وہ آزماتی ہے وہ ساری
انرجیاں اگرملک بنانے اور سنوارنے پر لگادی جائیں تو ان کو عوام کے سامنے
اس قدر زلیل نہ ہونا پڑتا۔جے آئی ٹی جو بھی رپورٹ پیش کرے اور جو بھی فیصلہ
سپریم کورٹ کرے وہ ایک الگ معاملہ ہے مگر اس ملک کی عزت اور اس کی عوام کی
حفاظت کسی بھی حکمران کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور جو اس ملک کی عوام اور
اس کے بچوں کا نہیں سوچے گا اس کا اختتام یہ ہی ہے کہ وہ خود اور ان کے بچے
پیشیاں بھگتتے پھریں ان حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ کیے ہیں
اس کی فہرست صرف پانامہ لیکس تک محدود رکھنا اس ملک کی 20کروڑ عوام کے ساتھ
یادتی ہوگی ۔گزشتہ روز ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے حوالے کچھ باتیں نیوز چینلوں
پر دکھائی جارہی تھی اور یہ بتایاجارہا تھاکہ کس کس نے مل کر پاکستانی
شہریوں کے قاتل ایک جاسوس کو اس ملک سے فرار کرایاتھا جبکہ میں یہ کہنا
چاہتاہوں کہ اس میں حیران ہونے والی کیا باتیں ہیں اس میں تو کوئی شک ہی
نہیں ہونا چاہیے کہ اس ملک کے اندر کیا کیا کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں جن کے
رازوں سے اگر پردہ اٹھ جائے تو اس ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ختم شد |