حضرت سیدنا علی بن ابی طالب کرّم الله وجھہ خلافت میں
چھارم ہیں لیکن تمام صحابۂ کرام پر مناقب میں متقدم ہیں، ابن عن الرسول (ص)
ہیں،پوری امت اور الله ورسول کے محبوب ہیں، سیدۂ کائنات حضرت فاطمة الزھراء
کے سر کے تاج ہیں،حضراتِ حسنین کریمین کے والدِ ماجد ہیں،آلِ بیت کے سر خیل
ہیں ،
آپ کی پیدائش پر آپ کی والده نے "حیدر" نام رکھا جس کے معنی شیر کے آتے ہیں،
آپ نے اپنے اس نام "حیدر" کا ذکر غزوہ خیبر میں خاص طور پر اس وقت فرمایا
جب خیبر کا یہودی سردار "مرحب" بڑی شان و شوکت سے ہاتھ میں تلوار لہراتے
مقابلہ کی دعوت دیتے اور یہ رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے نکلا تھا:
قد علمت خَيْبَر أني مرحب - شاكى السلاح بطل مجرب.
خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، اسلحہ پہنے ہوئے تجربہ کار بہادر ہوں۔
سیدنا علی رض نے اس کے جواب میں یہ رجزیہ شعر پڑھا تھا:
أنا الذي سمتني أمي حيدرة - كليث غابات كريه المنظرة
میں وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر رکھا ہے، میں کچھار کے شیر کی
مانند ہیبت ناک ہوں۔
اور اس کے بعد حیدری ہاتھ نے مرحب کے سر پر ایسا وار کیا کہ تلوار خود کو
کاٹتی ہوئ اس کے جبڑوں تک پہنچ گئ اور مرحب کا وجود ختم کرڈالا۔
مرحب کا کیا جس نے کام تمام
ان حیدری ہاتھوں پہ لاکھوں سلام
علیؓ خلیفہ راشد۔۔۔۔۔علیؓ خلیفہ چہارم۔۔۔۔۔۔علیؓ شیر خدا۔۔۔۔۔علیؓ فاتح
خیبر۔۔۔۔۔علیؓ بت شکن۔۔۔۔۔۔علیؓ ہمزلف ذی النورین۔۔۔۔۔۔۔علیؓ شجاع و برتر۔۔۔۔۔۔علیؓ
باب علم و فضل۔۔۔۔۔۔علیؓ منصف اول۔۔۔۔۔۔علی مینارہ نور۔۔۔۔۔۔علیؓ غیظ بر
کفروکفار۔۔۔۔۔۔۔علیؓ شمشیر بےنیام۔۔۔۔۔۔علیؓ زوج فاطمہؓ۔۔۔۔۔علیؓ پدر حسنؓ
و حسینؓ۔۔۔۔علیؓ حامل سیف ذوالفقار۔۔۔علیؓ عالم باعمل۔۔۔۔علی فقیہ معتبر۔۔۔۔۔۔علیؓ
بزرگ و برتر۔۔۔۔۔۔۔علیؓ استعارہ تقویٰ و عدل۔۔۔۔۔۔۔علیؓ معین و مددگارِ
رسولﷺ انور ۔۔۔۔۔۔۔علیؓ نشان حق و صداقت۔۔۔۔۔علیؓ اساس سلاسل اولیاء۔۔۔۔۔۔۔علیؓ
قاھرناصب و خوارج۔۔۔۔۔۔۔۔
علیؓ مرشد ما۔۔۔۔علیؓ رہبر ما۔۔۔۔علیؓ مولائے ما۔۔۔۔علیؓ مقتدائے ما۔۔۔۔۔علیؓ
باعث تسکین قلوبِ ما۔۔۔۔علیؓ اٰباء و اجداد سادات ۔۔۔۔ علیؓ فیصل نفاق و
ایمان ۔۔۔علیؓ امام صحابہ ؓ۔۔۔
علیؓ داماد رسولﷺ ۔۔۔ علیؓ مشیر بوبکرؓ و عمر و عثمانؓ۔۔۔
الغرض میرا ایمان و اتقان ہے مولا علیؓ
مومن کے دل کا چین و سرور ہے مولا علیؓ
علی بن ابی طالب (599ء –661ء) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ
میں پیداہوئے،( 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل) ۔ آپ کے والد کا نام
ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔علی، بچپن میں پیغمبر کے گھر
آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔ حضرت
علی پہلے بچے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریباً دس یا
گیارہ سال تھی۔
جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار
نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول اکرم کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا،
خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی
آپ تھے- ہجرت کے موقع پر آپ کی جگہ پے سوئے،مکہ والوں کی امانتیں آپ کے پاس
رہیں،اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ
سارا یمن مسلمان ہو گیا۔
جب سورۂ براءت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے لیے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے
اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورۂ براءت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ رسالت
مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا
کہ رسول أکرم کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں ۔جسےعلی بن ابی طالب اپنے
لیے باعثِ فخر و سعادت سمجھتے تھے۔
علی بن ابی طالب کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت
عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔
جتنے مناقب علی بن ابی طالب کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی
اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے یہ الفاظ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں«۔کبھی یہ کہا کہ »میں
علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین
فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا»علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو
موسیٰ سے تھی۔ کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے
یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔
کبھی یہ کہ» وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں،, یہاں تک کہ مباہلہ
کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ِ فاطمہ وحسنین کریمین کو
اپنی چادر میں لپیٹ کر فرمایا : یہ میرے اہل بیت ہیں۔عملی اعزاز یہ تھا کہ
جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو
پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم
کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند
کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی
بھی مولا ہیں۔
حضرتِ علی کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کفر ونفاق ہے،کوئی مسلمان اس
کا سوچ بھی نہیں سکتا،میں ان دنوں مدینے میں معتکف ہوں،مجھے پتہ چلا کہ
ہمارے ایک کالم(قرآنِ کریم کے تدریجی نزول کی حکمتیں)میں کچھ ایسی روایت
بھی نادانستہ شامل ہوگئی تھی جو محققین کےمطابق ضعیف ہے،ہمارے علم میں یہ
بات پہلی مرتبہ آئی کہ اس روایت کے حوالے سے اہل تشیع کی معقول تحقیق ہے،ہم
بھی اسی کو صحیح سمجھتے ہیں، اس سے جن حضرات کی دل آزاری ہوئی ہے اُن سے
تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں،حضرت علی کرم الله کے دربار میں نمناک آنکھوں کے
ساتھ معافی کے خواست گار ہیں۔ابھی اس وقت بھی صفہ کے سامنے بیتِ علی رض کی
چوکھٹ پر سر رکھ کر معافی چاہتے ہیں ،وأستغفر الله وأتوب إلیه۔
علامہ اقبال مرحوم کے اشعار گنگنا کر:
آدمی کام کا نہیں رہتا
عشق میں یہ بڑی خرابی ہے
لن ترانی میں طور سوزی میں
پردے پردے میں بے حجابی ہے
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہگار بوترابی ہے
بہر کیف ہم مشترَکات ومتّفَقات پر گفتگو کرتے ہیں،دیدہ دلیری کے ساتھ
اختلافی مسائل میں پڑنے کے قائل نہیں ہیں،نہ ہی کالم کی یہ دنیا اس طرح کے
مباحث کی ہے۔ادارے کو بھی جو مشکل سے دو چار ہونا پڑا،اُس پر بھی ہمیں دلی
دکھ اور افسوس ہے۔
ہمیں محبتوں اور اُلفتوں کی ترجمانی کرنی ہے،بغض ،نفاق اور کدورتوں سے ہٹ
کر اُمت کی وحدت اور انسانیت کی خدمت میں اپنی توانیاں صرف کرنی چاہیئے۔
اسی مناسبت سے علامہ اقبال کے کچھ اشعار اُن کی کتاب اسرارِ خودی سے:
مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی
از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام
از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت
ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت
قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب
ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست
سرّ اسمائے علی داند کہ چیست
شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد
ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد
مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است
بوتراب از فتح اقلیمِ تن است
زیرِ پاش اینجا شکوہِ خیبر است
دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است
ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم
زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
اگر بخشے زہے قسمت ، نہ بخشے توشکایت کیا__
سرِ تسلیمِ خم ہیں ، جو مزاج ِیارمیں آئے__
|