مسئلہ حاضر و ناظر قران و سنت کی روشنی میں

تحریر: محدث الشیخ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اہل سنت و الجماعت قرآن و سنت کے موافق اتفاقی عقیدے کو ترک کرتے ہوئے بعض لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ہم اختصار کے ساتھ اس باطل اور مبالغہ آمیز عقیدے کے خلاف قرآنی و حدیثی دلائل ذکر کر رہے ہیں۔ قارئین کرام تعصب سے دور رہ کر مطالعہ فرمائیں :

قرآنی دلائل

دلیل نمبر 1 :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ﴾ [3-آل عمران:44]

’’اور (اے نبی !) آپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے جب وہ (یہ جاننے کے لیے بطور قرعہ اندازی) قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا؟ نہ ہی آپ اس وقت ان کے پاس تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔“

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مشہور سنی مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (701۔ 774 ھ) فرماتے ہیں :
اي : ما كنت عندهم يا محمد فتخبرهم عنهم معاينه عما جرى، بل اطلعك الله على ذلك كانك كنت حاضرا وشاهدا لما كان من امرهم، حين اقترعوا في شان مريم ايهم يكفلها .

’’یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ ان کے پاس نہیں تھے کہ ان کے بارے میں اس واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بارے میں یوں اطلاع دی کہ گویا آپ مریم علیہا السلام کے معاملے میں ان کی قرعہ اندازی میں حاضر اور چشم دید گواہ تھے۔“ [تفسير ابن كثير : 42/2]


دلیل نمبر 2 :
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ﴾ [28-القصص:44]

’’اور (اے نبی !) طور کے مغرب کی جانب جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم احکام کی وحی پہنچائی تھی، نہ تو آپ موجود تھے اور نہ آپ دیکھ رہے تھے۔“

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اي: ما كنت حاضرا لذلك، ولكن الله او حاه اليك .
’’یعنی (اے نبی !) آپ اس واقعے کے پاس حاضر نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اس کی اطلاع دی ہے۔“ [تفسير ابن كثير : 240/6]

دلیل نمبر 3 :
اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے :
﴿وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَـكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ﴾ [28-القصص:46]

’’اور نہ آپ طور کی طرف تھے جب کہ ہم نے آواز دی، بلکہ (یہ خبر)، آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک رحمت ہے، اس لئے کہ آپ ان لوگوں کو ہوشیار کر دیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کر لیں۔“

دلیل نمبر 4 :

فرمانِ الہٰی ہے :
﴿وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَـكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ﴾ [28-القصص:45]

’’اور (اے نبی !) نہ آپ مدین کے رہنے والوں میں سے تھے کہ ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتے بلکہ ہم ہی رسولوں کے بھیجنے والے ہیں۔“

دلیل نمبر 5 :

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ ٭ إِنْ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ [38-ص:69، 70]

’’ (اے نبی ! کہہ دیجیے کہ) مجھے ان بلند قدر فرشتوں (کی بات چیت کا) کوئی علم ہی نہیں جبکہ وہ تکرار کر رہے تھے۔“

دلیل نمبر 6 :

فرمانِ ربّ العالمین ہے :
﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ﴾ [12-يوسف:102]

’’یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جس کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے جب کہ انہوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے۔“

سنی امام و مفسر ابن جریر طبری رحمہ اللہ (224۔ 310 ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول : وما كنت حاضرا عند اخوة يوسف، اذا اجمعوا، واتفقت آراؤهم، وصحت عزائمه علي ان يلقوا يوسف في غيابة الجب

’’اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ (اے نبی !) آپ اس وقت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے پاس حاضر نہیں تھے جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو گہرے کنویں میں پھینکنے کا پورا ارادہ کر لیا تھا اور اس بارے میں ان کی آراء متفق ہو گئی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہو گئے تھے۔“ [تفسير الطبري : 98/13]

حدیثی دلائل

دلیل نمبر 1 :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
انه لقيه النبي صلى الله عليه وسلم في طريق من طرق المدينة، ‏‏‏‏‏‏وهو جنب، ‏‏‏‏‏‏فانسل، ‏‏‏‏‏‏فذهب فاغتسل، ‏‏‏‏‏‏فتفقده النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فلما جاءه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اين كنت يا ابا هريرة؟ [صحيح مسلم : 824]

’’وہ مدینہ منورہ کے ایک راستے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اس وقت وہ جنابت کی حالت میں تھے، لہٰذا چپکے سے کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کیا۔ جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوہریرہ ! تم کہاں تھے ؟“

دلیل نمبر 2 :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
ابطات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ‏‏‏‏‏‏ثم جئت، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ ”اين كنت؟“، ‏‏‏‏‏‏قلت:‏‏‏‏ كنت استمع قراءة رجل من اصحابك، ‏‏‏‏‏‏لم اسمع مثل قراءته وصوته من احد، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ فقام، ‏‏‏‏‏‏وقمت معه حتى استمع له، ‏‏‏‏‏‏ثم التفت إلي، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ هذا سالم مولى ابي حذيفة، ‏‏‏‏‏‏الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا .

’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی ؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قرأت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قرأت کی طرح کوئی قرأت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قرأت سنی، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔“ [سنن ابن ماجه : 1338، مسند الإمام أحمد : 165/6، مسند البرّار: 2694، المستدرك على الصحيحين للحاكم :226,225/3، و سندهٔ صحيح]

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی شرط پر ‏‏‏‏ ”صحیح“ ‏‏‏‏ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
ورجاله رجال الصحيح
”اس کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔“ [مجمع الزوائد للهيثمي : 300/9]

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”جید“ کہا ہے۔ [مقدمه تفسير ابن كثير : 63/1، بتحقيق عبدالرزاق المهدي]

بوصیری کہتے ہیں :
هذا إسناد صحيح، رجاله ثقات
”یہ سند صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“ [مصباح الزجاجه : 534/1]

دلیل نمبر 3 :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فاتاني ابوبكر رضي الله عنه فقال يا رسول الله اين كنت الليلة فقد التمستك فى مكانك ؟، فقال : اعلمت اني اتيت بيت المقدس الليلة ؟

’’ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! آپ کہاں تھے ؟ میں نے آپ کو آپ کے گھر میں تلاش کیا تھا۔ میں نے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں آج رات بیت المقدس گیا تھا؟“ [المعجم الكبير للطبراني : 283/7، اح : 7142، تهذيب الآثار للطبري : 2775، مسند البزار: 3484، دلائل النبوة للبيهقي : 107/2-109، وسنده حسن]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح“ کہا ہے۔

دلیل نمبر 4 :

غزوۂ احد کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
أين كنت اليوم يا سعد! ’’سعد ! آج تم کہاں تھے ؟“ [المستدرك على الصحيحين للحاكم :26/3، ح: 4314، و سندهٔ حسن]

قارئین کرام ! آپ ان قرآنی آیات مبارکہ اور صحیح احادیث نبویہ پر غور کریں اور خود فیصلہ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ قرآن و سنت کے موافق ہے یا مخالف ؟ اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف مقامات پر ہونے کی نفی کی ہے، اسی طرح خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے استفسار فرماتے تھے کہ أين كنت ”آپ کہاں تھے ؟“، نیز صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تھے کہ أين كنت ”آپ کہاں تھے ؟“۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہوتے تو آپ کو اور صحابہ کرام کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟

پھر حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنے والے یہی حضرات علم غیب کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں۔ بھلا جو کسی جگہ موجود ہو، وہاں کی بات اس کے لیے غیب کیسے ہوئی ؟

علم و عقل کا کیا تقاضا ہے ؟ قرآن و حدیث کس طرف رہنمائی کرتے ہیں ؟ اور حق و انصاف کی پکار کیا ہے ؟ فیصلہ آپ پر ہے ! ! ! ہماری اپیل ہے کہ آپ قرآن و سنت کے خلاف اور انسانی عقل سے ماوراء عقیدۂ حاضر و ناظر کو ترک کر کے صحیح اسلامی اور سلفی عقیدے کو اختیار کر لیں تاکہ ائمہ اہل سنت کی مخالفت لازم نہ آئے۔
 

manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.