اسلام میں غیبت کی اجازت کہاں تک ہے ؟

ایک بہن کا دکھ بھرا سوال ہے کہ اسلام میں غیبت کی اجازت کہاں تک ہے؟ وہ یہ بات گھریلو پریشانی اور سسرالی کلفت کے تناظر میں کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات انسان انتہائی مجبور ہوجاتا ہے وہ اپنے حالات سے تنگ ہوکرکسی کو اپنے حالات سے آگاہ کرنا چاہتا ہے ۔ایسے حالات کبھی اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے پریشان کن ہوتے ہیں تو کبھی ایک عورت کو اپنے سسرال والوں کی طرف سے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خواتین اپنے سسرال کی شکوہ بھری باتیں اپنی کسی سہیلی سےکیا کرتی ہیں اب مسلہ یہ ہے کہ یہ ہے تو غیبت مگر پھر انسان اسطرح تو گھٹ گھٹ کر جئےگا پھر ایسی صورت میں سسرال میں تکلیف وپریشانی جھیل رہی خواتین یا اپنے گھروالوں کے ظلم وجورسہنے والوں کو کیا کرنا چاہیے؟

سماج میں غیبت عام ہے ، چھوٹی سی چھوٹی تکلیف پر ہم ایک انسان کی گھنٹوں برائی کرتے ہیں اور جابجا مختلف لوگوں سے اس کی غیبت کرکے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ یہ تو تکلیف کا معاملہ ہے ، بغیر تکلیف کے بھی غیبت کرنا ہمارا شیوہ بناہواہے ۔ کچھ لوگوں کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کی غیبت کرنا ہے۔ اس معاملہ میں عورتیں مردوں سے کہیں آگے ہیں ۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ غیبت کا انجام بہت ہی برا اور بھیانک ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ دن بھر غیبت کرتے ہیں اور غیبت کیا ہے اس کا انجام کیا ہے جانتے ہی نہیں ۔
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: أتدرون ما الغيبة؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: ذكرك أخاك بما يكره. قيل أفرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال: إن كان فيه ما تقول، فقد اغتبته، وإن لم يكن فيه فقد بهته(صحیح مسلم: 2589)
ترجمہ: حضرت أبو ہریرہ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا تذکرہ کرنا ایسی بات سے جو اسے ناپسند ہے، ایک صحابی نے عرض کیا: اگر میرے بھائی میں وہ بات ہو جو میں کہوں تب بھی یہ غیبت ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر اس میں وہ بات ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یقینا تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو تو یقینا تم نے اس پر بہتان لگایا۔

اس حدیث کی روشنی میں کسی آدمی کا اس کی پیٹھ پیچھے ناپسندیدہ تذکرہ کرنا ،وہ تذکرہ خواہ اس کی برائی ، مال ودولت ، خاندان ، اوصاف ، غربت وناداری ، تمسخر یا دین ودنیا سے متعلق کسی سبب سے ہو ساری باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں ۔

غیبت کے اسباب میں ایک سبب بدظنی ہے ، آدمی دوسروں کے بارے میں براگمان کرکے اس کی غیبت شروع کردیتا ہے جبکہ اللہ تعالی ہمیں کسی کے متعلق براگمان کرنے سے منع کرتاہے ۔ اکثر غیبت کے پیچھے بغض وحسد کام کرتا ہے ، دوسروں کی نعمت اور اس کی دنیاوی یا دینی شان وشوکت سے جل بھن کر لوگوں کے سامنے ان کی غیبت کیاکرتا ہے ۔ اسلام نے ہمیں حسد کرنے اور کسی سے بغض رکھنے سے منع کیا ہے ۔ اسی طرح دوسروں کا خواہ مخواہ مذاق اڑانا اورکسی دوسرے کو غیروں کے سامنے بے وجہ ذلیل ورسواکرنا بھی غیبت کا سبب ہے اور یہ سبب بڑے گناہ کا باعث ہے ۔ اسلام ہمیں اپنی زبان اور ہاتھ کے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔ کبھی انسان اپنا عیب چھپانے کے لئے دوسرے کو معطون کرنا شروع کردیتا ہے جبکہ اسلام نے ہمیں دوسروں کا عیب چھپانے کا حکم دیا ہے ، اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں اور الزام لگائیں تو یہ انسانیت سے گری ہوئی بات ہے اور اللہ کے نزدیک شدید عتاب کا باعث ہے ۔ کبھی کبھی غصہ بھی غیبت کا سبب بن جاتا ہے ، ہمیں اپنے غصے کو قابو میں رکھنا چاہئے اور انسان مالی یا جسمانی اعتبار سے کمزور ہویا طاقتوراس کا احترام کرنا چاہئے ، اسلام نے ہمیں دوسروں کےخون، مال اور اس کی عزت وآبرو کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ کچھ لوگ دوسروں کو غیبت کرتا دیکھ کر وہ بھی غیبت شروع کردیتا ہے ، ایسے میں ہمیں غیبت والے ماحول سے دور رہنا چاہئے اور مقدوربھرچغلخوروں کی اصلاح بھی کرنی چاہئے ۔

معاشرتی طور پرایک ایسا موڑ بھی آتا ہے جہاں آدمی کو حق بیانی کی ضرورت پڑتی ہےاس وقت غیبت کرنا جائز ہے ۔ جائز غیبت کا تین ہی مقصد ہے ایک تو یہ کہ ظلم سے نجات حاصل کرنا ہو ،دوسرا اصلاح مقصدہو اور تیسرا ضرورت کے تحت ہو۔

ظلم سے نجات کے لئے غیبت اس طرح کی ہوسکتی ہے مثلا کوئی عورت سسرال میں ظلم وستم برداشت کرتی آرہی ہے ، شوہر سے ظلم روکنا مشکل ہے یا ظلم میں شوہر بھی شریک ہے تو اس وقت گھروالوں سے سسرال کی پریشانی ذکر کرنا گناہ کا باعث نہیں ہے بلکہ یہاں مقصد ظلم سے نجات حاصل کرنا ہے مگر یاد رہے کہ عورتیں معمولی معمولی باتوں پہ شوہر کی یا سسرال والوں کی شکوے شکایات کرنا شروع کردیتی ہیں یہ صحیح نہیں ہے۔ عورتوں کو معمولی مشکلات پہ صبر سے کام لینا چاہئے اور اگر ایسی مشکل درپیش ہوجائے جس پہ صبر کرنا محال ہوتو پھر اس کے ازالے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔

اصلاح کے مقصد سے غیبت کی صورت یہ ہوگی کہ کوئی شراب پینے والے ہو، مال میں خیانت کرنے والاہو، ذمہ داری میں کوتاہی برتنے والاہویا جرم وگناہ کا ارتکاب کرنے والا ہوتو اولا ہمیں صاحب معاملہ سے ہی اس کا ذکر کرکے اصلاح کی صورت نکالنی چاہئے ، اگر صاحب معاملہ سے ملنا مشکل نہ ہویا اس کو نصیحت کرکےفائدہ نہ پہنچاہوتو پھر یہ بات ذمہ دار تک پہنچانی چاہئے اور مناسب کاروائی کرنی چاہئے تاکہ اس قسم کےجرائم اور برائیوں کا سدباب ہوسکے ۔

ضرورت کے وقت غیبت کی صورت یہ ہوگی کہ کوئی ہم سے کسی شخص کے اخلاق وکردار سے متعلق پوچھے اور اس شخص کا پوچھنا کسی ضرورت کے تحت ہومثلا نکاح کا معاملہ ہو یا کسی پر الزام تراشی کا معاملہ ہوتو ہمارے لئے اس وقت مطلوبہ آدمی کے اوصاف وعادات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ضرورت کی اور بھی کئی صورت ہوسکتی ہے عدالت میں گواہی یا فتوی کے وقت استفساروغیرہ
اللہ تعالی ہمیں غیبت سے بچائے ۔ آمین

Maqbool Ahmed Salfi
About the Author: Maqbool Ahmed Salfi Read More Articles by Maqbool Ahmed Salfi: 315 Articles with 308752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.