قُطب علمِ جغرافیہ کی اصطلاح میں محور کے سروں کو کہتے
ہیں۔ اگر ہم ایک شخص کو قُطب شمالی کے اُوپر فضا میں معلق تصور کریں تو اس
سے زمین بائیں سے دائیں گردش کرتی نظر آئے گی، جبکہ قُطب جنوبی پرزمین کی
گردش کی سمت دائیں سے بائیں دکھائی دے گی۔ لہذا سائنسدان زمین کے محور کو
ایک عظیم مقناطیس خیال کرتے ہیں جس کے دونوں سِرے قطبین ہیں۔
"مادی دُنیا سے ڈیجیٹل دُنیا کی طرف سفر" میں اس جغرافیائی حقیقت کی اہمیت
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف مہم جُو نے اپنی جانیں جھکوں میں ڈال کر مختلف
مہمات کے تحت اِن سِروں تک پہنچ کر دُنیا عالم کیلئے مزید معلومات فراہم کی
ہیں جنکو اگر ایک" سچی کہانی" کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو
کسی دِلچسپی سے کم نہ ہو گا۔کیونکہ کئی تو راستے میں ہی کھو گئے۔
قُطب جنوبی کی دریافت:
قطب جنوبی کی دریافت کیلئے سب سے پہلے برطانیہ کے جیمز کک نے 1772-73 ء میں
بحری سفر کیا اور اس دُشوار گزار حلقے کو عبور کیا۔1819ء میں برطانیہ کے ہی
ولیم سمتھ نے چند ایک جزائر کا پتا لگایا اور انکا نام جنوبی شیٹ لینڈ رکھا
۔انہی سالوں میں ایک روسی جہاز راں گوٹلیب وون بلنگشوسن بھی قطب جنوبی کی
طرف معلومات حاصل کرنے کیلئے روانہ ہوا۔ اس نے سینڈوچ وغیرو جزیروں کا کھوج
لگایا۔ان کے نام اُس نے پیٹر اول اور اسکندر اول رکھے۔1823-24ء میں برطانیہ
کا جیمز ویڈل 74درج بلد تک چلا گیا اور ویڈل سمند ر بھی دریافت کر ڈالا۔
1830-32ء میں جان بسکو کو گر ہم لینڈ کا انکشاف ہوا اور چند اہم جزائر بھی
دریافت کیئے۔ 1840ء میں کپیٹن جیمز سی راس اور کیپٹن ہوکر نے ایک جزیرے کا
انکشاف کیا۔جس کا نام وکٹوریا لینڈ رکھا گیا۔ اس جزیرے میں سب سے پہلے
بلجئیم کے جہاز راں ایڈرین ڈی گرلاکا نے سردیوں کے دن گزارے جو 1898ء کے
موسمِ سرما میں وہاں پر رہا۔
1901ء میں ڈسکوری نامی جہاز کے ذریعے آر ۔ایف اسکاٹ نے ایک جزیرہ ایڈورڈ
ہفتم لینڈ دریافت کیا۔انہی دِنوں ایک جرمن جہاز راں نے بحر ویڈل کی مہم
شروع کی اور بحر ویڈل کے جنوب مشرقی کناروں کی طرف ایک برفانی دیوار کا
انکشاف کیا۔جہاں پر شیکلٹن 1908-9ء میں برف کے دُشوار گزار راستوں سے ہو تا
ہوا پہنچا۔وہاں سے قطب جنوبی صرف ایک سو گیارہ میل دُور رہ جا تا ہے۔
14ِ دسمبر1911ء کو ناروے کا رولڈ امنڈسن پہلا مہم جُو تھا جو قطب جنوبی تک
پہنچنے میں کامیاب ہو گیااور17ِ جنوری1912ء میں برطانیہ کا آر ۔ایف سکاٹ
بھی اپنے 4چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں تک پہنچ گیا۔اُس نے امنڈسن کے خیمے کو
وہاں دیکھا جو 34دِن پہلے پہنچ کر تاریخ میں اپنا نام لکھا چکا تھا۔
آر ۔ایف سکاٹ نے وہاں جیواشم(فوسلز)بھی دریافت کیئے لیکن واپسی پر برفانی
تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کر سکااور اپنے ساتھیوں سمیت راہی ملکِ عدم
ہوا۔شیکلٹن قطب جنوبی کے دوسرے سفر پر نکلا اور راستے میں دِل کا دورہ پڑنے
سے انتقال کر گیا۔ویلکنس نے ہوائی جہاز کے ذریعے قطب جنوبی کا سفر کیا اور
یہ انکشاف کیا کہ گراہم لینڈ جزیرہ نما نہیں بلکہ چند جزائر کا مجموعہ ہے۔
امریکہ کے ایڈمرل رچرڈ ایولن برڈنے 28ِ نومبر1929ء کو طیارے کے ذریعے
19گھنٹوں میں قطب جنوبی کے گرد چکر لگایا ۔1930ء میں ناروے کے ا یچ آر
لارنس نے کوئین موڈ لینڈ کا انکشاف کیا اور قطب جنوبی کے ممالک کا مکمل چکر
لگا یا۔ نومبر 1935 ء میں امریکن قطبی مہم جُو لنکن السورتھ نے را س سمندر
کا دورہ کیا اور اسکی مکمل پیمائش کی۔اسکا طیارہ راستے میں ہی ٹوٹ کر تباہ
ہو گیا مگر ایک انگریزی رائل ریسرچ شپ ڈسکوری دوم نے 16ِجنوری1936کو اسکی
جان بچالی۔
اسطرح قطب جنوبی کی مکمل دریافت ہو ئی۔جسکو انٹارٹیکا کہتے ہیں اور
تقریباً54لاکھ مربع میل پر پھیلا ہو اہے۔دُنیا کی 90فیصد برف یہاں موجود
ہے۔
قُطب شمالی(آرکٹک) کی مہم:
کا آغاز 18ویں صدی میں ہوا۔اس سے پیشتر 14 تا 17ویں صدی تک اگر کوشش کی گئی
تو وہ ضمنی تھی۔اس کا مدعا شمالی مشرقی بحری راستہ دریافت کر نا تھا۔
ذنوبی، ڈیوی ،رچرڈچانسلر ،بفن ، مارٹن فر وبشر اور ہڈسن نے ان آزمائشی
مہمات میں قسمت آزمائی کی۔
19ویں صدی کے دوران خاص قُطبی علاقہ سر کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔1818ء میں
جارج سوم شاہ انگلستان نے 20ہزار روپے کا انعام اُس شخص کیلئے رکھا جو
قُطبی راستہ دریافت کرے گا۔چنانچہ برطانیہ کے جان راس ، ولیم ای پیری اور
جان فرینکلین نے یکے بعد دیگرے قُطب شمالی کی مہم سر کرنے کی کوشش کی۔راس
اور پیر ی1818-19ء میں روانہ ہوئے ۔جان فرینکلین کی ناکام مہم 1845ء کو
روانہ ہو ئی لیکن وہ بمعہ129ساتھیوں کے لاپتا ہو گیا۔جب فرینکلین واپس نہ
لوٹا تو اس کا کھوج لگانے کیلئے یورپ اور امریکہ سے کئی پارٹیاں روانہ
ہوئیں۔کینیڈی ،میک لیور ،رائی ، بلچارے یک بعد دیگرے تگ و دو کرتے رہے اور
فرینکلین اور اسکے ساتھیوں کے بارے میں اہم واقفیت بہم پہنچائی۔بلکہ اُن
علاقوں کا سروے کر کے نقشہ بھی بنایا۔1882-84ء میں گریڈلے نے ایک بہت بڑی
مہم کی راہنمائی کی اور جارج نریس اور البرٹ مارکھم نے بھی ہماری معلومات
میں اضافہ کیا۔
1900ء میں امریکن کپتان پیری قُطب شمالی کے قریب پہنچ گیا ۔21ِ اپریل 1908ء
میں دنیا نے یہ دلچسپ خبر سُنی کے امریکی کپتان فریڈرک کک بھی قُطب شمالی
پر پہنچ گیا ۔لیکن اس خبر کی تصدیق نہ ہو سکی ۔اسکے سال بعد امریکن کپتان
رابرٹ پیری نے قُطب شمالی پر جھنڈا گاڑ دیا۔ اور اس مہم کے تفصیلی حالات
اور فوٹو بھی شائع ہو گئی۔
ہوائی آمدورفت شروع ہو نے کے بعد کئی مہمات ہوائی راستے سے بھی سر انجام
ہوئیں۔ 1926ء میں امریکن ایڈمرل رچرڈ بیرڈ ہوائی جہاز کے ذریعے قُطبِ شمالی
پر پہنچا۔اس دوران ہی ناروے کا رولڈ امنڈسن جو قطب جنوبی تک پہنچنے والا
پہلا کامیاب مہم جُو تھا ہوائی جہاز کے ذریعے وہاں پہنچا۔ جون 1928ء میں
کپتان امنڈیسن ایک سی پلین کے ذریعے اطالوی جہاز اٹالا کی تلاش میں روانہ
ہوا۔ جو کچھ عرصہ پیشتر لا پتا ہو گیا تھا۔اٹالا کے کئی ایک ملاح تو مل گئے
لیکن خود امنڈیسن کا کوئی پتا نہ ملا۔
سب سے آخری مہم روس کے اوٹو وائی شمٹ کی تھی۔ جو 1937ء میں بذریعہ جہاز چار
ساتھیوں کی معیت میں قُطب شمالی کے ملحقہ برف کے درمیان میں پہنچاتا کہ وہ
موسمی حالات اور مقناطیسی اثرات کا مطالعہ کر سکیں۔
1937ء اور 1938ء میں برطانیہ ، روس ، کینیڈا، امریکہ اور دوسرے ممالک کی
مہمیں گئیں۔ روسی گروہ نے سردیاں بسر کر کے وہاں کے موسم کا معائنہ
کیا۔دوسری جنگِ عظیم سے پہلے روس نے قُطب شمالی میں کئی ریڈیو اسٹیشن اور
موسمی حالات کے دریافت کے مرکز قائم کر دیئے۔دوسری جنگِ عظیم میں اس راستے
کو ہوائی جہازوں کے ذریعے عبور کرنے کی کوشش کی گئی۔1952ء میں 8000مربع میل
کا ایک جزیرہ دریافت ہوا ۔جو جزیرہ وکٹوریہ کے شمال مشرق میں قُطب شمالی سے
ایک ہزار میل دُور ہے اور اسکا نام سٹیفنسن ہے۔1954ء میں امریکہ اور روس کے
تعاون سے کئی رصد گاہیں بنائی گئیں۔
8واں برِاعظم " زیلینڈ":
آج 21ویں صدی کے آغاز تک بھی جدید سہولیات کے تحت اِن قطبین پر سفری و
تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے ۔کیونکہ اس نسبت سے 17ِفروری2017ء کو خبر آئی
ہے کہ سائنسدانوں نے نیوزی لینڈ اور نیو کیلی ڈونیاجیسے چھوٹے جزائر ملا کر
دُنیا کا آٹھوں برِاعظم " زیلینڈ" دریافت کر لیا ہے۔ لہذا مستقبل میں دُنیا
کو قطبین سے مزید کیا یقینی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں سائنسدانوں کیلئے اہم
پہلو ہے۔
|