ملک کے موجودہ حالات سب کے سامنے
ہیں، کوئی بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، کم علم ترین انسان بھی موجودہ
زرائع ابلاغ کے سبب ہر بدلتے لمحے سے باخبر ہے، اہل سیاست کی شاطرانہ چالوں
سے واقف ہو گیا ہے حالانکہ آج بھی ایک بڑی تعداد میں خوش گمان موجود ہیں
مگر عمومی طور پر اب تبدیلی آرہی ہے، لوگوں کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور اِس
لیے ہی تو ہم روز اہل سیاست کی نت نئی شعبدے بازیاں دیکھ رہے ہیں، روز ہی
اُکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے، نئی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، سب کے ہوش اُڑے ہوئے
ہیں، دوڑیں لگی ہوئی ہیں، کبھی کچھ دن سکون ہوتا ہے تو سب اپنی اپنی اکھڑی
سانسیں بحال کرلیتے ہیں، مگر کوئی بھی اصل مرض کا علاج نہیں کر رہا، کوئی
بھی اِس عوامی بے سکونی کا سبب جاننے کی کوشش نہیں کررہا، جب کبھی بے چینی
زیادہ بڑھتی ہے تو ’’ فرمائشی انقلاب ‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام کو ’’ ڈرایا‘‘
جاتا ہے یا کبھی عوامی توجہ ’’ ٹارگٹ کلنگ ‘‘ اور ’’ کمر توڑ مہنگائی ‘‘
میں مزید اضافہ کر کے بانٹنے کی کوشش کی جاتی ہے ، عوام ’’ بجلی ‘‘ کی بات
کرتی ہے تو اور زیادہ ’’ لوڈ شیڈنگ ‘‘ کر کے شب و روز مزید تاریک کئے جاتے
ہیں، اور جب ’’ روٹی کپڑا اور مکان ‘‘ کا پوچھتے ہیں تو اشیائے خورد نوش
مزید مہنگی کر کے ’’ جواب ‘‘ دیا جاتا ہے، ’’ غیر قانونیت اور کرپشن ‘‘ کا
ذکر آئے تو، پیٹرول ، تیل اور بجلی کے نرخ بڑھا کر عوامی توجہ اُس طرف
مبذول کروا دی جاتی ہے، یعنی کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے ( وقت
گزاری کے لیے )مزید مسائل اور بحران پیدا کئے جاتے ہیں، ایسے حالات میں
عوام تبدیلی کا سوچنے میں حق بجانب ہے، اور ایسا ہو بھی رہا ہے، عوامی سوچ
تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، اور لوگ اِس بار ’’ کپتان ‘‘ کی طرف دیکھ رہے ہیں،
’’ کپتان ‘‘ کہ جو پوری دُنیا میں پاکستان کی پہچان بنا، جس نے دُنیا بھر
کے کرکٹ کے میدانوں میں سبز ہلالی پرچم کو لہرایا، جو کبھی بکا نہیں کبھی
جھکا نہیں اور ہمیشہ سے شاندار کارکردگی کا حامل رہا، جس کے دامن پہ کوئی
داغ نہیں، جس نے اِس ملک کو بہت کچھ دیا، مگر لیا صرف تو صرف پہچان،
پاکستانی ہونا اور پھر اُس پر فخر کرنا اُس کی اور اُس کے اباء کی شان رہا،
پندرہ سال پہلے کرکٹ کے میدان سے سیاست کے میدان میں آنکلا، زرد سیاست کے
میدان میں، چند ابتدائی غلطیوں کے بعد ( جنہیں وہ سر عام تسلیم کر چکا ہے
اور اُن سے رجوع بھی کر چکا ہے ) یہاں بھی وہ ہمیشہ اپنی الگ ہی شناخت قائم
رکھے رہا، سب سے الگ تھلک، حالانکہ بہت سالوں تک سیاسی میدان میں عوامی
پزیرائی نہ حاصل کر سکا، مگر اب تبدیلی کی ہوا چلی ہے، آج کپتان اور اُس کی
جماعت بہت تیزی سے عوام کے دلوں میں اُتر رہی ہے، حیرت انگیز طور پر پچھلے
کچھ عرصے سے قبائلی علاقوں، خیبر پختون خواہ اور جنوبی پنجاب میں ’’ کپتان
‘‘ کو غیر معمولی پزیرائی ملی ہے، اور اِس کا ثبوت مختلف فورمز پر ہونے
والے سروے ہیں، خیبر پختون خواہ اور جنوبی پنجاب خصوصاً ’’ بہاولنگر، ملتان،
وہاڑی، اور جام پور ‘‘ میں ’’ تحریک انصاف ‘‘ کے تحت ہونے والے جلسوں سے
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جلسوں میں عوام کی حیرت انگیز تعداد اور
خصوصاً خواتین جن میں ایک بڑی تعداد با پردہ اور برقعہ پوش خواتین کی بھی
تھی نظر آئی، حالانکہ جنوبی پنجاب کا ماحول ایسا ہرگز نہیں ہے، یہاں کے لوگ
حد سے زیادہ روایات پسند ہیں، مگر ’’ کپتان ‘‘ اُنہیں بھی گھروں سے نکلنے
پر آمادہ کر چکا ہے، حکمرانوں اور اہل سیاست کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے،
یہی نہیں بلکہ شمالی پنجاب کے شہری علاقوں میں بھی بہت حد تک ’’ کپتان ‘‘
کے حمایت بڑھتی جا رہی ہے، اور شاید یہی سبب ہے کہ ’’ مسلم لیگ (نون ) ‘‘
نے اپنے سب سے جوشیلے وزیر قانون کو ’’ کپتان ‘‘ کے خلاف ہر طرح کا محاذ
کھولنے کی پوری اجازت دے دی ہے، خیر سے ’’ کپتان ‘‘ بھی بغیر کسی لگی لپٹی
کے وہ بھی بھرپور جواب دے رہا ہے۔
رہی بات خیبر پختون خواہ کی تو وہاں کی عوام موجودہ حکمرانوں سے سخت نالاں
ہیں، موجودہ سیلاب میں بھی جہاں صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کہیں بھی نظر
نہیں آرہی تھی ’’ کپتان ‘‘ نے سخت اور انتھک خدمت کر کے لوگوں کے دل جیت
لیے ہیں، میرا تعلق چونکہ ’’ ہزارہ ‘‘ سے ہے ، خیبر پختون خواہ میں ہزارہ
ہمیشہ سے ہی مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک رہا ہے مگر اِس بار وہاں کی عوام بھی
نواز شریف سے ناراض ہیں ’’ کپتان ‘‘ یہاں بھی بازی لے گیا اور تحریک انصاف
پاکستان تیزی سے ہزارہ کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے ’’ کپتان ‘‘ تیزی
سے دلوں میں اُتر رہا ہے اور اِس کی جو وجہ میری سمجھ میں آرہی ہے وہ اُس
کی ’’ عوامیت ‘‘ ہے، ’’ کپتان ‘‘ عام عوام میں اُنہیں جیسا گھل مل جاتا ہے،
لوگ خود میں اور اُس میں فرق نہیں کر پاتے، کیا پاکستان کے دوسرے اہل سیاست
ایسا کر سکتے ہیں؟
(آصف احمد بھٹی) |