واہ رے قدرت ،تیرا قانونِ مکافاتِ عمل۔۔۔
دختر پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو کو کلب ڈانسر ،مغربی ایجنٹ اور کرپشن کی
شہزادی کہنے والوں کی اپنی بیٹی کوآج اِسی مملکت خُداداد کے سوشل میڈیا پر"
مس پانامہ" اور " ڈاکو رانی" کے خطابات سے نوازا جا رہا ہے۔
بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں ذرا30 سال پیچھے جانا پڑے گا۔1987 میں محترمہ
بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی وزیراعظم بننے جارہی تھیں۔نواز شریف جو اُس
وقت کی سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ اورآلہ ء کار بنے ہوئے تھے
اور ایک آمر کی گود میں آمریت کے فیڈر سے بھرپور'' فیڈنگ" لے رہے
تھے۔محترمہ کی وفاق میں لوہلی لنگڑی حکومت بنی تو دوسری جانب پنجاب میں
نواز شریف وزارتِ اعلی کی کرسی پر اسٹیبلشمنٹ کامکرہ ایجنڈہ پورا کرنے کے
لئے براجمان ہو گئے۔وفاق اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے درمیان نفرت کا
بیج بونے کا خوفناک کھیل کھیلنے کے لئے منہ زور اور اتھرے مگر اَناڑی گھوڑے
پر اُس وقت کی اسٹبلشمنٹ کامیابی سے " کاٹھی'' ڈال چُکی تھی مگر بدمست
گھوڑا اسٹبلشمنٹ کے مذموم ارادوں سے بالکل بے خبر تھا۔یہ منہ زور گھوڑا
وفاق کے ساتھ شانہ بشانہ مل کر جمہوریت کا تانگہ تو کھینچ نہ سکا مگر
اسٹبلشمنٹ کے خوبرو " دولہے"کی لَش پَش سجی ہوئی بگھی کو زوق شوق سے کھنچنے
لگا۔ اُس وقت شریف برادران محترمہ کو ٹف ٹائم دینے کے ایجنڈے پردن رات عمل
فرما رہے تھے۔پنجاب میں نہ توکوئی ترقیاتی کام کرنے دیا گیا اور نہ ہی کوئی
ترقیاتی اسکیمیں پایا تکمیل تک پہنچنے دی گئیں۔اگر محترمہ دن میں کسی اسکول
یا اسپتال کا سنگِ بنیاد رکھتیں تو رات کو " نامعلوم" لیگی نہ تو کوئی سنگ
رہنے دیتے اور نہ ہی کوئی بنیاد۔اور بالاخر صرف18 ماہ کی قلیل مدت پوری
کرنے کے بعد صدر اسحاق خان نے 158B2 کے تحت محترمہ کی حکومت کی بساط لپیٹ
دی۔
1990 کے الیکشن ہوئے،نواز شریف اُس وقت کی اسٹبلشمنٹ کے لئے ہارٹ فیورٹ بن
چُکے تھے۔پیپلزپاٹی کو ہر حال میں ہرانے اور نوازشریف کو جتوانے کے لئے
گرینڈ اتحاد آئی جے آئی کو بنایا گیا۔اصل مقصد محترمہ بینظیر بھٹو کو وزیر
اعظم بننے سے روکنا تھا تاکہ عورت کو " سلوٹ" نہ کرنا پڑے کیونکہ اُس وقت
مشہورِ زمانہ پراپیگنڈا یہ گیا جا رہا تھا کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں
حرام ہے اور ملک پر بھاری ثابت ہوگی۔یعنی اگر عورت کی حکمرانی حرام ہے یو
پھر عورت) وزیراعظم( سلوٹ بھی خلافِ اسلام ہوا۔سیاستدانوں کو لاکھوں بلکہ
کروڑوں روپے بریف کیسوں میں بھر بھر کے دیئے گئے۔وفاداریوں کی خریدو فروخت
کا بازار گرم تھا۔مفادپرست بہتی گنگا میں مفت میں ہاتھ صاف کر رہے تھے اور
بالاخر 1990 کے الیکشن میں بریف کیسوں کی چھتر چھایا پیپلزپارٹی کو شکست دے
دی گئی جبکہ نواز شریف کو خُفیہ ہاتھ '' ہیوی مینڈیٹ''دلانے میں کامیاب ہو
ہی گیا۔
میاں نواز شریف پہلی بار وزاتِ اعظمی کے منصب پرفائز ہوئے،ابھی پَر نکالنے
ہی لگے تھے کہ اسٹبلشمنٹ نے جلد ہی " بلڈی سولین" کے مصداق اوقات یاد
کرادی۔آرمی چیف سے جھگڑا ہواتو اسٹبلشمنٹ کے کارِ خاص صدر اسحاق خان نے
نواز شریف کی ہیوی مینڈیٹ گورنمنٹ کا بھنگ پوسڑا لپیٹ دیا۔اس بار نواز شریف
عدالت گئے،بحال بھی ہوئے مگر دیر ہو چکی تھی،پر کاٹ دیے گئے تھے۔1993 میں
بی بی دوسری بار وزیراعظم بنیں تو نواز شریف اپنی سیاسی پرورش اور تربیت نہ
ہونے کی بنا پر دوبارہ اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بن بیٹھے اور محترمہ کی حکومت
گرا کے ہی چین سے بیٹھے۔1997 میں نوازشریف دوسری بار پھر " ہیوی مینڈیٹ"
وزیراعظم بنے۔وہی پرانی روش وہی سیاسی نا پختگی اورہی انقامی سیاسی جارحانہ
اندازِ حکمرانی۔شریف برادران انتقامی سیاست کے بانی تصور کئے جاتے ہیں اور
پیپلزپارٹی کے سیاسی ورکرز،مرکزی رہنما،آصف ذرداری اور محترمہ بینظیر بھٹو
تک کو انتقامی کلچر کی بد ترین مثال بناتے رہے۔مگر کسے معلوم تھا کہ نواز
حکومت کے لئے 12 اکتوبر 1997 کا دن بھی طلوع ہونا تھا۔اپنے ہاتھوں سے بنائے
ہوئے آرمی چیف نے میاں صاحب کی" ہیوی مینڈیٹ" حکومت کوایک آرمی ٹرک میں ڈال
دیا۔سعودی مداخلت پر غداری کے مقدمہ میں نواز شریف تختہ دار پر چڑھتے چڑھتے
بچا لئے گئے اور جنرل مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کے زریعے 10 سال تک ملک چھوڑ
کر جلاوطن ہوگئے۔وقت نے انگڑائی لی،سابق وزیراعظم زوالفقار علی بھٹوکی بیوی
نے بھٹو کے لئے تحریک چلائی تو سرراہ لاٹھیاں برسائی گئیں بلکہ لعن طعن بھی
کی گئی،مگر اب کی بار اپنی بیوی تھی جو شوہرکی رہائی چاہتی تھی،پنجابی
ضربالمثل " مٹھا مٹھا ہپ ہپ ،کوڑاکوڑا تُھو" کے مصداق اب کی بار عورت کی
تحریک بھی درست اورسڑکوں پر آنا بھی جائز ٹھہرا۔سلسلہ رُکا نہیں،سیاست کا
کاروان چلتا رہا۔2002 اور2008 کے الیکشن ہوئے۔ 2013 کے الیکشن میں نواز
شریف پر قسمت کی دیوی اور اسٹبلشمنٹ پھر سے مہربان ہوئی، تیسری بارپھر ہیوی
مینڈیٹ وزیراعظم بھی بن گئے۔
مردِ مومن دوئم ،عزت مآب نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے اور آتے ہی اپنی
کابینہ کے ساتھ مل کر اسٹبلشمنٹ کو آڑھے ہاتھوں لیا۔خواجہ آصف نے پارلیمنٹ
کے اجلاس میں سابق جرنیلوں،فوج اور اسٹبلشمنٹ کی خوب کلاس لی۔نواز شریف کی
حکومت کے اس بار بدلتے ہوئے تیور اسٹبلشمنٹ کے لئے نئےہی نہیں بلکہ تکلیف
دہ بھی تھے مگر وہ موقع کی تلاش میں مکمل خاموش رہی۔اسٹبلشمنٹ کو موقع ملنے
میں دیر تک انتظار نہ کرنا پڑا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہو گزرا اور ایسے
ہی کسی ایک واقع کی ہی تو تلاش تھی۔پاکستانی اسٹبلشمنٹ کسی بھی معاملے میں
عجلت سے کام نہی لیتی،شکار کو گڑھے میں خود نہیں گراتی بلکہ اُسکے خود بخود
کرنے کا پورا انتظار کیا جاتا ہے۔اور جب وہ گڑے میں گر جائے تو جلدی سے
اوپر دھکن رکھ دیا جاتا ہے اور پھر تب تک ڈھکن نہیں کھولا جاتا جب تک ناک
سے لکیریں نہ نکلوا لیں۔
اب کی بار تو ڈھکن بھی دو دو تھے۔عمران خان پہلے ہی 14 اکست کو الیکشن میں
دھاندلی کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے کی کال دے چُکے تھے جبکہ علامہ
طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلہ میں اسلام مارچ کا اعلان کرچکے
تھے۔126 دن نواز حکومت انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار رہی۔آخرکار معافی
تلافی ہوئی،عہدو پیماء ہوئے اور پرانی تنخواہ پر ہی ڈبل کام کرنے پر ہی
راضی نامہ کرنے میں عافیت سمجھی میاں صاحب نے۔ابھی خُدا خُدا کر کے کچھ
عرصہ کہ گزرا تھا کہ پانامہ لیکس اور ڈان لیکس کٹے کھل گئے۔ڈان لیکس کا
الزام مبینہ طور پر دختراول مریم نواز کے سر لگا جبکہ پانامہ لیکس میں بھی
ناجائز اساسوں میں موصوفہ کا نام آ نکلا۔
جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی واپس وہیں پر اسکا اَنت بھی ہونے جا رہا
ہے۔نواز شریف اور انکے حواری محترمہ کے پہلے اور دوسرے دورِ حکومت میں نجی
محافل میں کلب ڈانسر،مغربی ایجنٹ اور کرپشن کی شہزادی کہا کرتے تھے۔آج نواز
شریف صاحب کو کوئی بتلائے ذرا کہ سابق وزیراعظم کی بیٹی کو جن گندے الفاظ
سے وہ یاد کیا کرتے تھے آج آپ وزیرِاعظم ہیں اور آپکی بیٹی مریم نواز دختر
اول بھی ہے ۔آج آپکی بیٹی کو پورا ملک " ڈاکو رانی" اور " مس پانامہ" کے
القابات سے نواز رہے ہیں۔ میں کل بھی لیگی کارکنان کے محترمہ کو بُرے الفاظ
سے جوڑنے کو بھی غلط کہتا تھا اور آج منتخب وزیراعظم کو " ڈاکو رانی " جیسے
القابات سے نوازنے کی بھی مذمت کرتا ہوں۔ہاں مگر ایک بات کا میں بھی قائل
ہوں کہ اگر آپ اپنی بہنوں بیٹیوں کی عزت چاہتے ہیں تو دوسروں کی بھی بہنوں
بیٹیوں کی عزت کی جائے،ورنہ دخترانِ مشرق اور دخترانِ اول کو گھر بیٹھے
گالیاں پڑھتی ہی رہیں گی۔ |