مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کی حیات و خدمات

بانی تحریک آزادی کشمیر ، آزاد کشمیر کے سابق صدر و وزیر اعظم مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کے بارے میں حقائق پر مبنی دلچسپ تحریر

مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان

تحقیق: کشمیر پالیسی انسٹیٹیوٹ

خاندانی پس منظر:
مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خانؒ کی خاندانی نسبت حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتی ہے اور اسی نسبت کے باعث یہ عباسی کہلاتے ہیں۔ ان کے آبا نے عرب کے کس مقام سے ہجرت کی اس بارے میں وثوق سے کُچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ حقیقت ہے کہ قریشیوں ، اعوانوں اور سیدوں ک طرح یہ لوگ بھی ہاشمی ہیں اور عرب سے ہجرت کر کے برصغیر میں آئے ہیں۔ اس ضمن میں مجاہد اول سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ان کا خاندان عرب سے ہجرت کے بعد کچھ عرصہ سندھ میں ٹھٹھہ یا دوسرے کسی مقام پر قیام کے بعد ادھر کو نکلا اور اب چار نسلوں سے دھیر کوٹ میں آباد ہے۔
مجاہد اول کے دادا سردار قمر علی خان ایک دیندار اور اپنے علاقہ میں ایک باوقار اور صاحب الرائے سماجی شخصیت تھے۔ والد گرامی سردار محمد عبداللہ خان انگریز کی فوج میں صوبیدار تھے۔ فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر اُنھیں دوبارہ بلا لیا گیا ۔ اس دوران وہ برما میں ایک حادثے کا شکار ہو گئے ۔ ان کا جسدِ خاکی وہیں سپرد خاک کیا گیا۔
مقام پیدائش:
مجاہد اول کی جائے پیدائش غازی آباد ہے اور دستیاب تحریری حوالے کے مطابق وہ ۴اپریل ۱۹۲۴ ؁ء کو پیدا ہوئے لیکن مجاہد اول کے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ ’’میرے خاندان کے لوگوں پھوپھیوں ، چچوں اور دیگر رشتہ داروں کے مطابق میری پیدائش کا مہینہ اپریل نہ تھا بلکہ ستمبر تھا اور جمعرات اور جمعہ کی رات تھی۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ یہ ستمبر کے کس ہفتے کی رات تھی۔
تعلیم:
والد گرامی سردار محمد عبداللہ خان کی فوج میں ملازمت کے دوران مختلف مقامات پر تعیناتی کے باعث مجاہد اول کی تعلیم موبائل سسٹم میں ہوئی تھی۔ مجاہد اول ؒ نے والد گرامی کی پشاور میں پوسٹنگ کے دوران ایک پٹھان مولوی صاحب سے قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم حاصل کی۔ مجاہد اول ؒ اس ضمن میں فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب موصوف والد گرامی اور دوسرے لوگوں کے مطابق اُنھوں نے چار برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیا تھا ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ کے لیے اپنے گاؤں کے سکول میں داخل رہے اور پھر سکندر آباد اور پونا دکن میں مختلف سکولوں میں ایک ایک دو دو جماعتیں پڑھیں اور آخر پر سکندر آباد کے ایک سکول میں ساتویں کا امتحان دے کر واپس آگئے اور ہائی سکول پونچھ میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لینے گئے جہاں نویں جماعت کے بچوں کا سالانہ امتحان ہو رہا تھا ان کو بھی اُس امتحان میں بیٹھا دیا گیا جس میں یہ نمایاں حیثیت سے کامیاب ہو کر آٹھویں ، نویں پڑے بغیر دسویں جماعت میں داخل ہو گئے اور دسویں کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد والد گرامی کی خواہش پر فوج میں بھرتی ہو گئے ۔ عمر تین برس کم ہونے کے باعث بری فوج میں کمیشن نہ مل سکا لیکن انجینئر نگ گروپ میں حوالدار بھرتی ہو گئے جب کہ ائیر فورس میں کمیشن مل رہا تھا لیکن والدہ ماجدہ کے منع کرنے پر ایئر فورس میں نہ گئے۔
انگریزی فوج میں تعیناتی کے دوران زیادہ عرصہ مڈل ایسٹ میں رہے جہاں کئی پیغمبروں کی قبریں ہیں۔ اس دوران مجاہد اول نے مختلف مقدس مقامات کی زیارت کی اور حضرت موسی اور حضرت عزیر علیہ السلام کی قبروں پر حاضری دی اور مسجد اقصیٰ میں کئی دفعہ جانا نصیب ہوا۔ حضرت موسی ؑ کے زمانے کے اُس گڈریئے کی قبر پر بھی حاضری دی جس کا ذکر حضرت مولانا رومؒ نے کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اُنھیں جس کنویں میں ڈالا تھا وہ بھی دیکھا او ر وہ مقام بھی جہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم غرق ہوئی تھی۔ مجاہد اول ایک آزاد منش شخصیت تھے فوج میں نوکری کے دوران انھوں نے اپنی ذہنی و فکری آزادی پر حرف نہیں آنے دیا۔ ایک انٹرویو میں اُنھوں نے فرمایا:
’’میں فوج میں اپنی مرضی پر رہا۔ مُجھے لگتا تھا کہ میں Independent ہوں۔ اس کی کیا وجہ تھی مجھے علم نہیں۔ میرے افسران مجھ سے جان چھڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ اسے باہر ہی رہنے دو۔ مجھے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا‘‘۔
فوج سے استعفیٰ اور جہاد کا آغاز :
مڈل ایسٹ میں اپنی فوجی ملازمت کا طویل دورانیہ ختم کرنے کے بعد جب واپس جالندھر تبدیل ہوئے تو فوجی افسران کے نہ چاہنے کے باوجود استعفیٰ دے کر واپس آگئے اور یہاں آزادی کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ 23 اگست 1947 ء کو نیلہ بٹ کے مقام سے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگ کی شخصی اور ظالم حکومت کے خلاف عملی جہاد شروع کر دیا جس کی روئیداد سے کتب و رسائل بھرے پڑے ہیں اور یہ تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ کا ایک تابندہ و سنہری باب ہے۔ سال 1948 ء اور 1949 ء کی درمیانی رات کے بارہ بجے جب اقوام متحدہ کی اس یقین دہانی پر کہ کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے گا مجاہد اول کی زیر کمان اس جہاد کی برکت سے ساڑھے چار ہزار مربع میل کا علاقہ ڈوگرہ حکومت سے آزاد ہو گیا تھا جو اس وقت ’’آزادکشمیر‘‘ کہلاتا ہے۔ مجاہد اول نے باغ بریگیڈ کی بنیاد رکھی اور جنگ بندی کے نفاذ تک اس بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے ا س کی کمان کرتے رہے۔ جی ۔ایچ ۔ کیو کے ریکارڈ میں اس وقت بھی یہ بریگیڈ ’’قیوم بریگیڈ ‘‘ کے نام سے مندرج ہے۔
سیاست میں شمولیت:
جنگ بندی کے نفاذ پر دلبرداشتہ ہو کر مجاہد اول ؒ نے سیاست Join کر لیا۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ:
’’میں نے فوجی کمان چھوڑ کر سیاست Joinکر لیا ۔ ان دنوں چوہدری غلام عباس مقبوضہ کشمیر سے رہا ہو کر آگئے تھے میں ان کے پاس چلا گیا‘‘۔
اپنے بلند پایہ کردار اور سیاسی بالیدگی کے باعث مجاہد اول نے تھوڑے ہی عرصہ میں مسلم کانفرنس میں اپنا بلند و منفرد مقام حاصل کر لیا اور قائد ملت چوہدری غلام عباس کے معتمد ترین ساتھی کہلانے لگے۔ سال 1952 ء میں کرنل شیر احمد کی کابینہ میں جیل خانہ جات اور جنگلات کے وزیر بن گئے۔ جیل خانہ جات میں مجاہد اول نے اُس وقت جو اصلاحات کیں وہ کئی برس بعد ہری پور اور دوسرے جیل خانہ جات میں کی گئیں۔ بعض حاسدین اور وزارت امور کشمیر کو مجاہد اول کی اس برق رفتار کامیابی اور اصلاحات ایک آنکھ نہ بھائیں اور اُنھوں نے مجاہد اول کو وزارت سے ہٹانے کے لئے صدر آزادکشمیر سے درخواست کی تو صدر نے انکا ر کر دیا بالآخر اُنھوں نے چوہدری غلام عباس سے درخواست کر کے مجاہد اول کو وزارت سے علیحدہ کر دیا جس کا قائد ملت کو زندگی بھر افسوس رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل اکبر خان کے خلاف سازش کا کیس بنایا گیا جس میں مجاہد اول کو بھی شامل کر کے ان کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا گیا اور انھیں گرفتار کر کے پندرہ ماہ جیل میں رکھا گیا اور بال�آخر باعزت رہا کر دیئے گئے۔
آزادکشمیر کی صدارت:
سال 1956 ء میں مجاہد اول کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا صدر منتخب کیا گیا لیکن چوہدری محمد علی کے بعد جب سہروردی صاحب آئے تو اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم پاکستان کو کشمیر کے لئے داؤ پر نہیں لگا سکتے‘‘۔ اس پر مجاہد اول اور اُن کے درمیان تلخی ہوگئی۔ آزادکشمیر میں اُن کی سیاسی جماعت ’’عوامی پارٹی‘‘ پر مجاہد اول نے پابندی عائد کر دی۔
کشمیر لبریشن مومنٹ:
مقبوضہ کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ کی صرف چار ماہ بعد ۲۹۔۳۰ اپریل کی درمیانی رات دوبارہ گرفتاری پر قائد ملت چوہدری غلام عباس نے جب جون 1958 ء میں جنگ بند لائن توڑنے کا اعلان کیا تو مجاہد اول کو مجوزہ تاریخ پر جنگ بندی کی طرف رواں کاروان کی قیادت پر دوسرے کئی سرکردہ ساتھیوں سمیت ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔
حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات:
حکومت پاکستان کی محکمانہ پالیسی کے باعث مجاہد اول کے ان کے ساتھ تعلقات اکثر کشیدہ رہے۔ بالخصوص ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے ساتھ ابتدائی دور میں انتہائی کشیدگی رہی۔ اُنھوں نے اپنی F.S.F یعنی فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعہ مجاہد اول کو قتل کروانے کی سازش کی ۔فائرنگ کروائی اور ان کی گاڑی سے گاڑی ٹکرا کر انھیں گزند پہنچانے کی کوشش کی کہ یہ شخص راستے سے ہٹ جائے تو ہم تنازعہ کشمیر کو یکسو کر لیں یعنی اسے پاکستان کا صوبہ بنا لیں اور بات ختم ہو جائے لیکن مجاہد اول اس سازش کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے رہے۔ صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کو بھی اُن کے اس ارادے کے ردِ عمل میں مجاہد اول کھرا کھرا جواب دے چکے تھے۔ سال 1971 ء میں آزادکشمیر میں پہلی مرتبہ عوام کو ووٹ کا حق ملا تو مجاہد اول بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے اور اپنی ساڑھے چار سالہ حکومت کے دوران وہ کار ہائے نمایاں انجام دیئے کہ مخالفین انگشت بد انداں ہو کر رہ گئے بلکہ مجاہد اول کی تقلید کر کے اپنی گو مگو اور تذبذب کی صورت حال پر قابو پایا۔
شملہ معاہدہ:
بھٹوصاحب جب ایک شکست خوردہ ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ روانہ ہونے لگے تو اُنھوں نے مجاہد اول کو فون کر کے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ شملہ چلیں اُدھر سے بھی چند کشمیری لیڈر آ رہے ہیں وہاں مسئلہ کشمیر پر بھی بات ہوگی تو مجاہد اول نے س پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بھٹو صاحب کی تجویز مسترد کر دی اور کہا کہ آپ بھول کر بھی ایسی غلطی نہ کریں کشمیریوں کو اس ملاقات میں پارٹی نہ بنائیں ا س سے بھارت کو فائدہ ہو گا۔ کیوں کہ آپ کمزور پوزیشن میں ہیں۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا کہ بھٹو صاحب جنگ بند لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر کے مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت کو بین الملکی حیثیت دے کر واپس آئے۔ مجاہد اول نے جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ اُنہیں کے وژن کا نتیجہ ہے کہ ہم کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک عظیم ملی نقصان تھا جس پر نہ صرف پاکستانی عوام ، اصحاب فکر و دانش بھی مایوسی و تذبذب کا شکار تھے بلکہ سب پر ایک وحشت سی طاری تھی جس کے ازالہ کے لیے مجاہد اول نے ’’ تحریک ستحکام پاکستان‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلاکر کراچی سے خیبر تک کئی عوامی جلسے کیے جن کے باعث عوام میں حوصلہ پیدا ہوا ، مایوسی اور بے اطمینانی کی فضا ختم ہوئی۔ مجاہد اول اپنے آخری ایام میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ’’ تحریک استحکام پاکستان‘‘ کو دوبارہ زندہ کرنے اور رواں رکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بچے کھچے پاکستان کو بیرونی سازشوں اور خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
قادیانیت کے فتنے کا ازالہ:
مجاہد اول نے 1971 ء میں سارھے چار برس آزادکشمیر کے منتخب صدر کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کو فتنہ قادیانیت کی آلودگی اور اختلاط سے بچا کر وہ کارنامہ انجام دیا جو اللہ رب العزت کے فضل سے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ مجاہد اول کو تقلید میں بعد میں مرکزی حکومت کو بھی بادلِ نا خواستہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا پڑا۔
آزادکشمیر میں مروجہ قوانین کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کا نفاذ مجاہد اول کا دوسرا بڑا ملی کارنامہ ہے۔ اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام اور عدالتوں میں ججز کے ساتھ مفتیوں کی تعیناتی اور دارالافتاح کے قیام جیسے اقدامات سے جنگ بندی لائن کے دونوں طرف اور پاکستان و بیرون ممالک مقیم کشمیریوں کے سر فخر سے بلند ہوتے ہیں۔
مجاہد اول نے 1971 ء کی اپنی انتخابی مہم کے دوران’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ کا نعرہ وضع فرما کر اور اس کی حقیقت پر مبنی تعبیر و تشریح سے عوام میں اس قدر مقبول بنایا کہ یہ جنگ بندی لائن کے دونوں طرف ہر مرد و زن اور بوڑھے بچے کی رگ و پے میں خون کی طرف سرائیت کر گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالوں کے عملی مظاہرے سے اس نعرے کی عظمت اور حکمت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
نظریہ الحاق پاکستان جو مسلم کانفرنس کی نظریاتی اساس ہے کو قائم رکھنے کے لیے مجاہد اول کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ملی نظریے کی اہمیت اور ناگزیریت کے پیش نظر اُنھوں نے اسے آئین میں ایک ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا اور تمام ملازمین کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ’’ نظریہ الحاق پاکستان‘‘ پر حلف اٹھائیں۔
صدر جنرل ضیاء الحق سے تعلقات:
صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جب آزادکشمیرمیں میجر جنرل حیات خان کو چیف ایگزیکٹیو آزاد کشمیر تعینات کیا گیا تھا تو مجاہد اول کو چھ ماہ تک قید کاٹنا پڑی لیکن رہا ئی کے بعد ایک دن وہ بھی آیا کہ جنرل ضیاء الحق نے مجاہد اول کو اپنا مرشد قرار دیا اور کہا کہ اگر میں نے کبھی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو مسلم کانفرنس میں شامل ہوں گا۔
کشمیر لبریشن سیل:
جنرل ضیاء الحق ہی کے دور حکومت میں مجاہد اول نے جدو جہد آزادی کو تیز تر کرنے کے لیے کشمیر لبریشن سیل قائم کیا جس پر ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے زبردست احتجاج کیا تو ضیاء الحق نے جواباً کہا کہ سردار محمد عبدالقیوم خان ہمارے بزرگ راہنما ہیں میں اُن کے اس منصوبے کو نہیں روک سکتا۔
پاکستانی حکمرانوں نے ہر آڑے وقت پر مجاہد اول سے راہنمائی حاصل کی اور مجاہد اول نے بھی ایک مدبر کی حیثیت سے ہمیشہ کھلے دل سے اپنی مخلصانہ رائے دینے میں کبھی تاخیر نہیں کی۔
9/11 کے موقعہ پر جب صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ کیا کیا جائے تو مجاہد اول نے فرمایا کہ جنرل صاحب آپ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نظرئیے کو اپنائیں چنانچہ اُنھوں نے اسے قومی نعرے کے طور پر عوام میں مقبول کیا جو آنے والی حکومتوں کے لیے بھی ایک راہنماء اصول ثابت ہوا۔
جنرل پرویز مشرف نے ہندوستانی راہنماؤں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دلیری کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر جو مذاکرات کیے اُن کے پیچھے مجاہد اول ہی کی راہنمائی کار فرما تھی جو پرویز مشرف کے دور حکومت میں صدارتی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ آزاد و مقبوضہ کشمیر کے عوام کا اس حقیقت سے آگاہ ہونا اشد ضروری ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی مظفرآباد سرینگر بس سروس اور دوسرے چار مقامات سے راستہ کھولنے اور مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین تجارت کے آغاز جیسی کامیابیوں کے پیچھے مجاہد اول ہی کی راہنمائی کار فرما تھی۔
مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے عسکری و سیاسی جدوجہد ہی مجاہد اول کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس ضمن میں ایک اہم بات عوام تک پہنچانا دیانت کے عین مطابق ہوگا کہ آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم چوہدری مجید مجاہد اول کے فرزند سردار خلیق احمد کی وفات کا سُن کر کشمیر ہاؤس اسلام آباد سے مجاہد منزل پہنچے تو مجاہد اول کے کمرے میں اُن کے پاس بیٹھے اور احتراماً بالکل خاموش رہے۔ مجاہد اول کے چہرہ پر غم اور پریشانی کے ہلکے سے اثرات بھی نہ تھے بلکہ وہ معمول کے مطابق گفتگو فر ما رہے تھے۔ چوہدری مجید کی خاموشی توڑنے کے لیے اُن سے مخاطب ہو کر کہا ۔ چوہدری صاحب آپ کل صدر پاکستان کے ہمراہ چین کے دورے پر جا رہے ہیں وہاں چینی حکام کو کشمیر پر بریفنگ دیتے وقت یہ کہنا کہ وہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد میں اُن کی اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھیں۔ اور بھی کافی باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنے کے مجاہد اول کے اس عملی مظاہرہ کو دیکھ کر بعض افراد پر وجد سا طاری ہو گیا۔ یہ مجاہد اول کا روحانی پہلو تھا جو عوام پر آشکار نہ ہو ا تا ہم اُن کے اہل خانہ اور الطاف کیانی جیسے بعض اصحاب فکر پر ان کا یہ پہلو عیاں تھا۔
تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے مجاہد اول نے کوئی بھی ممکنہ طریقہ استعمال کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ اس ضمن میں جنگ بندی لائن کے دونوں طرف کے کشمیریوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش میں اپنی پیرانہ سالی اور علالت کی پروا کیے بغیر دو مرتبہ دھلی کا دورہ کیا۔ تیسری مرتبہ پھر جانا چاہتے تھے کہ اچانک رات کو تکلیف ہو گئی اور دورہ منسوخ ہو گیا۔
ادبی خدمات :
مجاہد اول اُردو، انگریزی، ترکی، فارسی اور عربی سمیت تیرہ زبانیں جانتے تھے اور عمر کے آخری بارہ برسوں کے دوران اُنھوں نے تحریر و تخلیق کا حیرت انگیز مظاہرہ فرمایا جس کے نتیجے میں 32 برس کی محنت سے تخلیق پانے والی اُن کی شاہکار تصنیف ’’فتنہ انکار سنت‘‘ کے علاوہ مقدمہ کشمیر ، کشمیر بنے گا پاکستان، نظریاتی کشمکش، مذاکرات سے مارشل لا تک ، اچھی حکمرانی اور اللہ تعالی کا فضل جیسی ضیخم تصانیف اور بیسیوں کتب و رسالہ جات کے مسودات آڈیو اور ویڈیو کیسٹس پر ریکارڈ شدہ صورت میں محفوظ ہیں۔
سفر آخرت:
مجاہد اول سفر آخرت سے پہلے تقریباً تین برس بیمار رہے لیکن حد درجہ کمزوری اور علالت کے باوجود عوام سے ملتے رہے ۔ لوگوں کی دلجوئی کرتے رہے لوگوں پر عیاں بھی نہیں ہونے دیا کہ وہ بیمار ہیں۔ آخری چار چھ ماہ کے دوران صاحب فراش ہو کر بھی مکمل طور صاحب فراش نہیں رہے اور معمول کی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔ سردار عتیق صاحب نے مجاہد اول کی بیماری کے آخری ایام میں مہینوں اپنی سیاسی و سماجی سرگرمیاں ملتوی کر دیں اور مجاہد اول کے کمرے کے باہر ایک تربیت یافتہ تیمادار اور چوکیدار کی طرح رات دن پہراہ دیتے رہے اور جب انھیں قائد اعظم انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد میں زیر علاج رکھا گیا تو وہاں بھی سردار عتیق صاحب رات دن مجاہد اول کی خدمت میں ایک چلہ کش کی طرح حاضر رہے۔ بالآخر 10 جولائی 2015 ء صبح سحری کے وقت وہ سورج غروب ہو گیا جو پون صدی تک کشمیر کے سیاسی افق پر فروزاں رہا اور حکمت و دانائی کا ایسا خزانہ چھوڑ گیا جس سے ہر مرد و زن جس قدر استفادہ کر نا چاہئے کر سکتا ہے۔ اللہ رب العزت اُن کے درجات بلندر فرمائے ۔ آمین۔
مجاہد اول کی نماز جنازہ چھ مرتبہ پڑھائی گئی۔ پہلی بار کاکاجی ہاؤس راولپنڈی میں کاکاجی ہاؤس کے امام صاحب نے پڑھائی۔ دوسری مرتبہ پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں پیر علاؤ الدین صدیقی صاحب جب کہ تیسری ، چوتھی ،پانچویں اور چھٹی مرتبہ غازی آباد کی وسیع و عریض جنازہ گاہ میں ایک مرتبہ سردا ر عتیق احمد صاحب نے جب کہ تین مرتبہ دوسرے علماء نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کا سب سے بڑی اجتماع غازی آباد ہوا جہاں فوجی ذرائع کے مطابق ڈیڑھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ مجاہد اول کے جسد خاکی کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر آخری آرام گاہ میں اُتارا گیا اور ان کے جسد خاکی کو پاک فوج کے ایک چاک و چوبند دستے نے سلامی پیش کی ۔ غازی آباد میں مجاہد اول کا مزار ایک وسیع میدان میں ہے اور ان کے مزار پر خوبصورت اور دیدہ زیب چھت ہے جو ان کے جانشین سردار عتیق احمد خان کی ان سے عقیدت اور فرض شناسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اُمید واثق ہے کہ مستقبل قریب میں اُن کا مزار اُن کے شایان شان تعمیر ہوگا۔ اُن کی برسی پر کراچی سے خیبر اور آزاد کشمیر و بیرونی ممالک سے عقیدت مند حاضری دیتے ہیں اور انسانوں کا یہ عظیم اجتماع عشق و محبت اور ادب و احترام کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے۔
 

Rana Ghulam Hussain
About the Author: Rana Ghulam Hussain Read More Articles by Rana Ghulam Hussain: 8 Articles with 11634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.