آزادی کی جہدِ مسلسل ،مجاہداول

تحریر: ہارون آزاد
آزاد کشمیر کے سابق صدر وزیر اعظم سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی اور مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان نے اکیانوے برس پر محیط بھرپور زندگی گزاری 10 جولائی 2015 ؁ء 23 رمضان المبارک آج ہی کے دن دار فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ و اناالیہ راجعون، ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اپنی سرشت میں ایک خدا دوست، عبادت گزار، درویش منش بہادر شخصیت تھے۔ جو وقت اور حالات کے دھاروں کے اُلٹے رُخ بہنے کا حوصلہ رکھتے تھے جنہوں نے بلند کرداری، حق گوئی اور اصولوں پر ڈٹ جانے کی خوبی کے باعث صرف آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان کی سیاست میں اپنا ایک نمایاں مقام پیدا کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کشمیریوں کی بین الاقوامی پہچان بن گئے۔ بھارت کے پرائیویٹ چینل ذی ٹی وی کو ان کا انٹرویو مدتوں یاد رکھا جائے گا اس انٹرویو میں انہوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا مقدمہ جرات کے ساتھ لڑا تھا۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان 4 اپریل 1924 ؁ء کو غازی آباد میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے برٹش انڈین آرمی میں ملازمت اختیار کی۔ اس دوران انہوں نے صحرائے عرب اور خلیج کے مختلف علاقوں میں اپنی خدمات انجام دیں۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان واپس آئے تو خطے میں قیام پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی۔ اس تحریک کے اثرات کشمیر کی شاہی ریاست پر بھی سیاسی طور پر مرتب ہو رہے تھے جو خود سردار عبدالقیوم خان کا وطن بھی تھا۔ کشمیریوں کی اجتماعی رائے یہ تھی کہ ڈوگرہ حکمرانوں کو مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی مشترکات کی بنیاد پر ریاست کا پاکستان سے الحاق کرنا چاہیے۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اس مطالبے کو ماننے میں تذبذب کا شکار تھے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا مگر ڈوگرہ کا تذبذب بڑھتا جا رہا تھا۔ اس دوران ڈوگرہ حکمرانوں پر پاکستان سے الحاق کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر نیلا بٹ کی چوٹی پر ایک جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے میں ایک بائیس سالہ مسلح نوجوان بہت فعال تھا، پر جوش نوجوان نہ صرف امن و امان کا ذمہ دار تھا بلکہ جلسے میں نعروں اور تقریر سے بجلی سی بھر دینے کے فن میں بھی طاق تھا۔ جلسے کے بعد جلوس کی شکل میں یہ کاررواں باغ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ راہ میں اہل کاروں کا تصادم ڈوگرہ پولیس سے ہوتا گیا۔ ڈوگرہ پولیس پسپا ہوتی چلی گئی اور دوبارہ ان علاقوں میں قدم نہ جما سکی۔ اس پوری تحریک میں سرگرم بائیس سالہ مسلح نوجوان کا نام محمد عبدالقیوم خان تھا جو بعدازاں مجاہد اول کہلائے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف اس جدوجہد سے نوجوان کا کردار شروع ہو کر پھیلتا ہی چلا گیا۔ سردار عبدالقیوم خان نے اپنا عسکری تجربہ اور مہارت جنگ آزادی کے لیے وقف کی اور معروف مغربی مصنف جوزف کاربل کے مطابق سردار عبدالقیوم خان نے پہلی آزاد کشمیر بٹالین کی کمانڈ سنبھالی۔ جو ان دنوں 19AK بٹالین کہلاتی ہے۔ اس بٹالین نے جسے جوزف کاربل نے ’’قیوم بٹالین‘‘ کہا ہے اوڑی اور پونچھ کے درمیان اہم علاقے میں اپنی خدمات انجام دیں۔ بعد میں جب اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بند ہوئی اور مجاہد اول نے سیاست کا رخ کیا وہ عسکری محاذ کی طرح یہاں بھی ایک بہادر جرنیل کی طرح چھائے رہے۔ مجاہد اول نے عملی سیاست کا آغاز آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کیا اور تادم آخر اسی جماعت کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ ہر مشکل گھڑی میں قائد کشمیر رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم کے ساتھ کھڑے رہے 1952ء میں وہ آزاد کشمیر حکومت میں وزیر کے منصب پر فائز رہے۔ کشمیر لبریشن موومنٹ کے دوران تنظیم رابطہ عالم اسلامی کے رکن منتخب ہوئے جس سے ان کا حلقہ اثر اور احباب عالم عرب تک وسیع ہو گیا۔ سردار عبدالقیوم خان نے 1977ء کے بحران میں پاکستان قوم اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان سیاسی مفاہمت کی بھرپور کوشش کی مگر وہ ہونی کو نہ روک سکے اور ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ مارشل لاء دور میں مجاہد اول ایک بار پھر قید کر دیئے گئے مگر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار ہو گئے اور جنرل ضیاء الحق نے آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر بھرے جلسوں میں انہیں اپنا سیاسی مرشد قرار دیا۔ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اردو،انگریزی ، عربی اور فارسی سمیت کئی زبانوں پر گہرا عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے درجنوں کتاب تحریر کیں جن میں کئی جلدوں پر مشتمل کتاب فتنہ افکار ست، کشمیر بنے گا پاکستان، مذاکرات سے مارشل لاء تک اور مقدمہ کشمیر وغیرہ اہم ہیں۔ سردار عبدالقیوم خان ایک قادر الکلام شخص تھے اور مخاطب کو اپنی بات کا قائل کرنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ غیر ملکی سفارت کار ان کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے انہوں نے آزاد کشمیر کے طول و عرض میں تعلیمی اداروں کے جال پھیلائے۔ سردار عبدالقیوم خان تصوف سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے اپنے حلقہ اثر میں انہیں ایک روحانی پیشوا کی بنا رہا جہاں ہمہ وقت لوگوں کی آمدورفت لگی رہتی۔ داد دینا چاہیے کہ علالت کے درمیان مجاہد اول کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان نے کسی ملاقاتی کو نہیں ملنے اور دیدار کرنے سے محروم نہ رکھا۔ روزانہ دور دراز سے آئے ہوئے سینکڑوں لوگ انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ جناح ہسپتال میں ان کا دیدار کرتے رہے۔ مجاہد اول کے انتقال سے آزاد کشمیر کی سیاست، تصوف، عسکریت، فہم و فراست کا ایک باب ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت کی ہوائیں نصیب فرمائے۔ ایسی ہی شخصیات کے بارے میں شاعر نے کہا کہ:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خان کے پردے سے انسان اُبھرتے ہیں
 

Rana Ghulam Hussain
About the Author: Rana Ghulam Hussain Read More Articles by Rana Ghulam Hussain: 8 Articles with 11641 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.