پاکستانی میڈیا بتائے کیا اسکا سچ بھی جھوٹ ہے؟

میرا بھی یہی خیال ہے کہ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس اپنے کیس کے حوالے سے پاکستانی اداروں کے کردار بارے اگر سارا جھوٹ نہیں تو مبالغہ آرائی ضرور کر رہا ہو گا لیکن میں پاکستانی میڈیا کے سچ بارے بات کرنے سے قبل دو سوال کرنا چاہتا ہوں: اول عدالت کو علم ہو گا کہ کیا آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل پاشا دوران سماعت عدالت میں موجود تھے؟ اگر تھے تووہ وہاں کیا کر رہے تھے؟ ریمنڈ ڈیوس نے لکھا کہ جنرل پاشا کو اسکی حکومت نے دھمکی دی تھی کہ اگرڈدیوس کو سزا ہوئی تو پاشا اس کے ذاتی طور پر ذمہ دار ہونگے جسکی وجہ سے پاشا خائف ہو کر لمحہ بہ لمحہ میسنجر پر امریکی حکومت کو سماعت کی کاروائی سے باخبر رکھ رہے تھے۔ یورپ اور امریکہ کی عدالتیں کسی جنرل کو کیا پولیس کو بھی عدالتی کاروائی سننے سے روک سکتی ہیں۔ بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں جب ریاض ملک اور راقم پر برطانیہ کی کراؤن کورٹ میں مقدمہ چلا تو برطانیہ کا پولیس چیف میرے سامنے آ کربیٹھ گیا۔ وہ مجھے خائف کرنے کے لیے گھور گھور کا میری طرف دیکھنے لگا جب اسکی ٹکٹکی کا مجھ پر کوئی نفسیاتی اثر نہ پڑا اور میں نے پولیس کی زیادتی کے خلاف اپنا بیان جاری رکھا تو اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے اپنی ٹھوڑی کے نیچے سے مجھے مکہ دکھایا۔ میں نے جج سے مخاطب ہو کر کہا کہ جناب کی عدالت میں ایک غنڈہ تشریف فرما ہے۔ جج سر پیٹر برسٹو فوری طور پر آگے جھکے اور کہا کیا مطلب؟ میں نے کہا پولیس چیف مجھے مکہ دکھا رہا ہے۔ جج نے کہا مسٹر سپیک گیٹ آؤٹ۔ اب سوال ہے کہ کیا پاکستانی عدالت کے اندر جج یا موجود دوسرے ذمہ داران کو جنرل پاشا کی فون پر حرکتیں نظر نہیں آئیں یا کیا جس طرح پاشا امریکہ سے خائف تھے اس طرح پاکستانی عدالت اپنے جنرل سے خائف تھی؟ دوسرا سوال ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی اگر پاکستان کے سارے اعلی ذمہ داران نے مدد کی ہے تو وہ احسان فراموشی کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟ اس نے جو کتاب لکھی ہے اس میں لازمی امریکی حکومت کی رائے اور آشیر باد شامل ہے۔ لہذا ڈیوس اگر جھوٹ بو ل رہا ہے تو پاکستان جرات کر کے امریکی حکومتی سے ڈیوس کے جھوٹ بارے سوال کیوں نہیں کرتا؟

اب آئیے ایک ایسے سچ کی طرف جسے پاکستان کا کوئی ادارہ اور میڈیا رد نہیں کر سکتا۔ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کئی سال قبل پاکستان سے امریکی ایجنٹ اغوا کر کے امریکہ لے گے۔ وہ کس جیل میں بند ہے اور کس حال ہے میں ہے کسی کو خبر نہیں۔ پاکستان آج تک اس تک رسائی حاصل کر سکا نہ آزادی و جمہوریت کا دعویدار امریکہ کسی اوپن عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جرم بتا سکا۔ ریمنڈ ڈیوس کے بدلے پاکستان عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر سکتا تھا مگر ہمت نہ کر سکا۔ کیا کلبوشن کیس کے بعد بھی پاکستانی حکومت اور اداروں کوبھارتی حکومت کی طرح اپنی شہری عافیہ صدیقی تک رسائی کا مسلہ عالمی عدالت میں لے جانے کا خیال نہیں آیا؟ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا ریمنڈ ڈیوس کیس کی لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے واقف رہا مگر عافیہ صدیقی تک رسائی کا سوال اس نے امریکی حکومت کے ساتھ کیوں نہ اٹھایا؟ سن چوراسی میں ریاض ملک اور میں بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں برطانیہ میں گرفتار ہوئے۔ مہاترے کو مقبول بٹ کی رہائی کے لیے پکڑا گیا تھا۔ اسے گولی مارنے والا فرار ہو گیا تھا۔ بھارت کے خفیہ اداروں نے برطانیہ کے خفیہ اداروں کو بتایا کہ مہاترے کو پاکستان کی آئی ایس آئی نے قتل کروایا لہذا ہم پر آئی ایس آئی کے خلاف بیان دے کر خود کو بچانے کی ترغیب دی گئی لیکن ہم نے واضع طور پر سٹینڈ لیا کہ مہاترے قتل میں پاکستان ملوث نہیں۔ غلط تھا یا صحیح یہ کشمیری نوجوانوں کا بھارتی ظلم کے خلاف ایک رد عمل تھا۔ ہماری دس سال کی طویل قانونی جنگ کے نتیجے میں لنڈن ہائی کورٹ نے اپنی حکومت کو حکم دیا کہ ہماری خفیہ سزا منظر عام پر لائی جائے جس سے پتہ چلا کہ بھارتی ایما پر برطانیہ نے ہمیں تاحیات جیل میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی خفیہ فیصلے کی وجہ سے لنڈن ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ یہ کیس اتنا متنازعہ بن گیا کہ برطانوی عدلیہ کے سربراہ لارڈ چیف جسٹس نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ دو کشمیری طالب علم عدلیہ کے نہیں بلکہ برٹش وزیر داخلہ کے ذاتی قیدی ہیں لیکن افسوس کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کو پھر بھی ہم تک رسائی کی کوشش تو درکنار برطانیہ کے لارڈ چیف جسٹس کے ہمارے حق میں بیان کو ہائی لائٹ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ ۲۲ سال بعد یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت نے جب مجھے مہاترے کیس کے آخری قیدی کے طور پر بری کرنے کا حکم جاری کیا تو لنڈن میں قائم پاکستانی سفارت خانے نے میرے پاسپورٹ کی تجدید میں ٹال مٹول شروع کر دی جسکی وجہ سے مجھے مزید تین ماہ جیل میں رہنا پڑا۔ پاکستان واپس آنا میری اپنی خوائش تھی لیکن برطانوی حکومت نے چار سیکورٹی افسران میرے ساتھ بھیج دئیے جب میں اسلام آباد پہنچا تو ایک کرنل کی معیت میں آئی ایس آئی۔ آئی بی اور ایم آئی کے افسران نے میرا خیر مقدم کیا۔ ہزاروں حامی اور متعدد میڈیا اراکین کی ٹیمیں اسلام آباد میرا انتظار کر رئے تھے لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں نے مجھے چھپا دیا کیونکہ برطانوی حکومت نے پاکستانی ڈکٹیٹر اور امریکی پھٹو پرویز مشرف کو حکم جاری کیا ہوا تھا کہ قیوم راجہ کو میڈیا سے خطاب کا موقع نہ دیا جائے کیونکہ برطانیہ کو خطرہ تھا کہ میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا زکر کرونگا۔ مان لیتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان کے خلاف جھوٹ بول رہا ہے لیکن کیا میں بھی جھوٹ بول رہا ہوں؟ مجھے وطن واپس آئے بارہ سال ہونے کو ہیں لیکن پاکستان کے کسی ٹی وی چینل نے آج تک مجھ سے میرے ساتھ ہونے والی برطانوی حکومت کی زیادتی بارے سوال کی جرات نہیں ہوئی۔ کیا یہ بھی پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہے؟ برطانیہ میں میری ماوارائے عدالت سزا۔ بھارت میں سردار راؤف کشمیری۔ سہیل کٹاریہ اور متعدد دیگر ساتھیوں کو پاکستان میں اجاگر کرنے سے پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کو روکنا کس کے مفاد میں ہے؟ کیا پاکستانی حکومت کی طرح پاکستانی میڈیا بھی انگریزوں کی خوشنودی کا خواستگار ہے؟ بزدلی کا شکار ہے یا ہم کشمیریوں کے ساتھ تعصب برت رہا ہے یا وہ ہمیں انگریزوں اور امریکی آقاؤں کی طرح انسان نہیں سمجھتا؟ کوئی ایک وجہ تو ہو گی۔ اسکا فیصلہ پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا خود کر لے۔ وہ ہمارے اس جائز سوال کا جواب دے کہ وہ کس کے خوف سے ہماری کہانی سننے سے گریز کرتا ہے؟

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.