کرائے کے حکمران

کچھ دِنوں سے ریمنڈ ڈیوس کا نام دوبارہ سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ جی ہاں، وہی ریمنڈ ڈیوس جس نے 27 جنوری 2011ء کو دن دیہاڑے سڑک پر دو پاکستانیوں کو اپنی گن سے ہلاک کر ڈالا۔ اور اس کی مدد کو آئے امریکی سفارت خانے کے عملے نے موٹر سائیکل سوار حافظ عباد الرحمن کو امریکی نخوت کے نشے میں سرشار گاڑی کے بے رحم ٹائروں تھلے روند ڈالا۔ یہ غریب آدمی پرفیوم اور عطریات کے چھوٹے سے کاروبار سے وابستہ تھا اور بدقسمتی سے موٹر سائیکل پر سوار کہیں جا رہا تھا جب اُس کے ساتھ یہ انہونی بیت گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اُس سب سے عوام میڈیا اور اخبارات کی بدولت اچھی طرح واقف ہیں۔ اس ڈرامے کا اختتام حسبِ توقع پاکستانی قانون و سالمیت اور عوام کی امریکا بہادر کے ہاتھوں حد درجہ رُسوائی اور ذِلت پر منتج ہوا۔ امریکا بہادر بڑی شان کے ساتھ اپنے ایجنٹ کو واپس لے گیا۔ بیچارے عوام مُنہ تکتے رہ گئے۔

خیر یہ تو کہانی کے معلوم پہلو ہیں۔ آج کچھ نامعلوم اور چُشم کُشا پہلوؤں کو اُجاگر کیا جائے گا۔ غیظ و غضب میں ڈوبے عوام بے چارے اس بات پر چُپ کر گئے تھے کہ شاید مقتولین فہیم اشرف اور فیضان حیدر کے ورثاء نے کروڑوں روپے بطور دیت لے کر راضی نامہ کر لیا ہے، اس لیے اب احتجاج کا جواز نہیں رہتا۔ حقیقت میں سرے سے کوئی دیت کا معاملہ طے ہی نہیں پایا۔ امریکا کبھی اتنا کمزور نہیں تھا کہ اُسے اپنے ایجنٹ کو آزاد کروانے کے لیے دیت کا سہارا لینا پڑتا۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ ریمنڈ ڈیوس جو کہ بدنامِ زمانہ امریکی جاسوسی ادارے بلیک واٹر کا ایجنٹ تھا، اور اُسے سی آئی اے کی اشیر واد حاصل تھی۔ پاکستان میں کئی سالوں سے مقیم تھا اُس کے ذمے لشکر طیبہ اور دیگر کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کا سراغ لگانا تھا اور پاکستانی اعلیٰ ادارے آئی ایس آئی کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطوں اور معاونت کا پتا چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لازمی طور پر گوری چمڑی ہونے کے ناتے وہ صاف پہچانا جاتا تھا اور وہ بذاتِ خود کھُل کھُلا کر کالعدم تنظیموں کے زیر اہتمام مدارس اور دیگر مقامات پر نہیں جا سکتا تھا۔ سو اس کام کے لیے اُسے پاکستانی لوگوں سے ہی کام لینا تھا۔ اس مقصد کے لیے اُس نے فیضان اور فہیم کی خدمات حاصل کیں۔ یہ دونوں افراد غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ فیضان حیدر بے روزگار تھا جبکہ فہیم اشرف سبزی منڈی میں پلّے دار کے طور پر معمولی رقم کماتا تھا۔ اسی باعث جب انہیں ریمنڈ ڈیوس نے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے معقول پیسے دیئے تو انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ شاہدرہ کے علاقے برکت ٹاؤن میں پانچ ہزار روپے ماہانہ پر مکان حاصل کیا گیا۔ فیضان نے اس راز میں اپنے بڑے بھائی عمران حیدر کو بھی شامل کر لیا اور عمران حیدر نے ہی اپنے سُسرالی رشتہ دار حسن کو کالعدم تنظیموں کے دفاتر اور مدارس میں جا کر معلومات اکٹھی کرنے کا ٹاسک دیا۔ حسن کے باریش ہونے کے باعث ان لوگوں کا کام آسان ہو گیا۔ یہ لوگ ریمنڈ ڈیوس کو معلومات دیتے جن میں اہم معلومات کو فلٹر کر کے وہ اہم امریکی عہدے داروں تک پہنچاتاتھا۔ کچھ عرصے بعد فہیم اور فیضان کو احساس ہوا کہ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم بہت خطرناک ہیں، سو انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پنجاب حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کو ریمنڈ ڈیوس کی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دینے کی ٹھان لی۔ یہ بات ابھی تک صیغہ راز میں ہے کہ انہوں نے کس اعلیٰ عہدے دار کو ریمنڈ ڈیوس کی مُلک دُشمن کارروائیوں سے آگاہ کیا اور اس نے کس اعلیٰ شخصیت تک یہ بات پہنچائی۔ مگر یہ بات طے ہے کہ فہیم اور فیضان نے جس کے آگے بھی راز اُگلا، وہ اور اس کا آقا پرلے درجے کے وطن فروش تھے جنہوں نے اپنے امریکی آقاؤں کے حقِ نمک خوری کو دھیان میں رکھتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس گروپ کو اس کی اطلاع کر دی۔ سو وقوعے والے دِن فہیم اور فیضان کو ریمنڈ ڈیوس نے ملاقات کے بہانے بُلایا اور پھر گولیاں مار کر ساری کارروائی کو ڈکیتی کی ناکام کوشش کا رنگ دے دیا۔ اُدھر جب فیضان کے بھائی عمران حیدر اور فہیم اشرف کے گھر والوں کو اس ساری کارروائی کی اطلاع مِلی تو وہ اپنے گھروں کو تالے لگا کر غائب ہو گئے۔ بلکہ عمران حیدر تو وہ کمپیوٹر اور کاغذات بھی اُٹھا کر فیملی سمیت گھر سے فرار ہو گیا جس میں اہم معلومات موجود تھی۔ یقینا قارئین بھی حیران ہوں گے کہ بجائے اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھانے کے لواحقین گھروں کو تالے لگا کر کیوں مفرور ہو گئے۔ سو یہی وہ نکتہ تھا جسے منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ عمران حیدر کو علم تھا کہ اُس کے پاس اہم معلومات ہیں سو اُسے بھی مار دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ اہم راز اور معلومات میڈیا کے ہاتھ لگ جاتے تو امریکا کا گھناؤنا کردار کھُل کر سامنے آ جاتا اور پاکستان میں امریکا مخالف جذبات میں اضافہ ہو جاتا۔

دوسری جانب دن دیہاڑے امریکی غنڈے کے ہاتھوں دو پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت پر پُورا مُلک سراپا احتجاج بن گیا۔ اُدھر امریکا کی جانب سے پاکستان کی وفاقی حکومت پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے بھرپور دباؤ ڈالا جا رہا تھا مگر پھر امریکیوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کام پیپلز پارٹی کے بس کا نہیں، کیونکہ پنجاب میں شریف برادران کی حکومت ہے۔ پنجاب پولیس پر زرداری ٹولے کا کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ اُدھر نواز شریف بھی اگلے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہا تھا، اور یہ خواب امریکنوں کی تائید اور حمایت کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ سو اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر شریفوں نے آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔

ریمنڈ ڈیوس کو جیل میں ہر ممکنہ سہولیات مہیا کی گئیں۔ اُدھر مقتولین کے گھروں سے بھاگے ورثاء کو تلاش کرنے کا عمل تیز کیا گیا۔ بالآخر پولیس کو کامیابی مِل گئی۔عمران حیدر کا پتا لگ گیا مگر اُس نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے حساس دستاویزات اور کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا پولیس کے حوالے نہ کیا۔سو پنجاب کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اُس کی منتوں ترلوں پر اُتر آئی۔ اب پُورے کا پُورا معاملہ امریکی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کے مابین طے پا رہا تھا۔ ہائی پروفائل کیس ہونے کے باعث پنجاب حکومت اپنی تمام تر خواہش کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو آزاد کرنے سے قاصر تھی۔ معاملہ عدالت میں چل رہا تھا۔پنجاب حکومت کو (Face Saving) بھی کرنا تھی اور آقاؤں کے حکم کی تعمیل بھی بجا لانی تھی۔ سو اس موقعے پر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے شریف برادران نے دیت کا ڈراما رچایا۔ حقیقت میں دیت کا کوئی معاملہ سرے سے طے ہی نہیں ہویا۔ مقتولین کے ورثاء کو دی جانے والی کروڑوں روپے کی رقم خون بہا کا عوضانہ نہیں تھا بلکہ عمران حیدر سے اہم دستاویزات حاصل کرنے کی قیمت تھی۔ اگر دیت کا معاملہ طے ہوا ہوتا تو سڑک پر بے گناہ مارے جانے والے حافظ عباد الرحمن کے ورثاء کو کیونکر خونِ ناحق کے بدلے میں بھاری رقم سے نہ نوازا گیا؟ اس بیچارے کے ورثاء کو دیت کے نام پر ایک پائی بھی نہ مِل سکی۔ سو یہ ہے ’دیت‘ کے نام پر طے پایا جانے والا شرمناک معاملہ۔ قارئین کی یہ خوش فہمی بھی دُور کر دی جائے کہ دیت کے نام پر دیا جانے والا کروڑوں روپیہ امریکیوں نے اپنے قومی خزانے سے ادا کیا۔ قطعاً نہیں، یہ خطیر رقم پنجاب کے حکمرانوں نے پنجاب کے غریب عوام سے وصولے گئے ٹیکسز میں سے نکال کر اپنے امریکی آقاؤں کی جوتیوں کے صدقے مقتولین کے ورثاء کو دے دی۔ اس قوم کی اس سے بڑی تذلیل اور رُسوائی اور کیا ہو سکتی ہے کہ قوم کے دو نوجوانوں کے غیر ملکی قاتل کو بچانے کے لیے حکمران اُسی قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہا دیں۔ شریف برادران آقاؤں کی عزت و حُرمت کو بچا کر اُن کی نظروں میں سُرخرو ٹھہرے اور اگلی حکومت بنانے کا لائسنس بھی مل گیا۔اس ڈرامے کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ تمام تر لعن طعن اور رُسوائی ناجائز طور پر اُس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے حصّے میں آئی، جن کا کردار اس سارے ڈرامے میں صرف تماشائی کا تھا۔ آج شریف برادران اور ان کے بھونپو للکاریں مارتے پھر رہے ہیں کہ جی پتا لگائیں کہ پیسے کس اکاؤنٹ سے ٹرانسفر ہوئے۔ کس نے کیے اور اس کہانی کے پس پردہ مقامی کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔ وزیر قانون کہتا ہے کہ جی ریمنڈ ڈیوس کے خلاف قتل کی ایف آئی آر ہم نے کٹوائی۔ ہمارے پنجاب میں ایک رویہ بہت عام ہے۔ وہ یہ ہے کہ بہن کو بھائی غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے۔ یہ سب والدین کی ملی بھُگت سے ہوتا ہے۔ پھروالد ہی بیٹے کے خلاف قتل کیس کا مُدعی بن جاتا ہے۔ مُدعی بننے کے کچھ عرصہ بعد باپ عدالت میں بیان دیتا ہے کہ اُس نے کیس کے مُدعی کی حیثیت میں ملزم کو معاف کر دیا ہے۔ سو کیس ختم ہو جاتا ہے۔اس کی مشہور مثال قندیل بلوچ کا کیس ہے۔ بھائی نے قتل کیا اور باپ نے مُدعی بن کر اُسے بچانے کی کوشش کی۔ سو معاملہ کیا ہے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ یہ شاید پہلا کیس تھا جس میں ریمنڈ ڈیوس کے خلاف حکومتی وکیل یعنی پراسیکیوٹر جنرل سید زاہد حُسین بخاری کو کروڑوں روپے میں فیس ادا کی گئی۔ حالانکہ وہ تو پہلے ہی حکومت کا تنخواہ دار ہوتا ہے۔ یہ بلاجواز فیس کیوں اور کس نے کس مقصد کے لیے ادا کی، اس پر بھی سوال اُٹھتا ہے۔پراسیکیوٹر جنرل پر یہی نوازش نہیں ہوئی، بلکہ اُس کی ہونہار بیٹی جو دُوسری جماعت میں شامل تھی، اُسے نواز لیگ میں شامل کیا گیا جو کہ اس وقت بطور ایم پی اے نواز لیگ کی صفِ اول کی ترجمان بنی بیٹھی ہے۔اور اس کا خاوندشریف برادران کا تاحیات مشیر ہو چُکا ہے۔ یہ ہے امریکا بہادر کے ایجنٹ کی رہائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کرنے والے کا درخشندہ اور خوش آئند مستقبل۔

دُوسری جنگِ عظیم میں انگریز نے پنجاب میں موجود اپنے ٹوڈی جاگیرداروں اور چودھریوں کو کہہ کہلوا کر زبردستی پنجابی نوجوان فوج میں بھرتی کروا کر جنگ کے آتش فشاں میں جھونک دیئے۔ ہزاروں پنجابی نوجوان ان جنگوں میں اپنی جانوں اور قیمتی اعضاء سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی کالے دور کی جبری بھرتی کے باعث آج تک پنجاب مخالفین پنجابیوں کو کرائے کے سپاہی کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ حالانکہ اس سب میں پنجابیوں کی مرضی شامل نہ تھی، مگر یہ کلنک کا ٹیکہ ہمیشہ کے لیے پنجابیوں کا مقدر ٹھہرا۔ یہ تو تھی مجبوری کی غلامی۔ اور ایک غلامی ہے ہمارے موجودہ حکمرانوں کی، جن کے پاس پیسے، طاقت اور دبدبے کی کوئی کمی نہیں تھی، مگر پھر بھی گلے میں گوروں کی غلامی کا طوق ڈالنے سے باز نہ رہ سکے۔یہ باکرداری صرف موجودہ حکمرانوں کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ کہ جب ان کی چوری پکڑی جائے تو ’’الحمد ﷲ‘‘ کہتے ہیں۔ عدالت ان کے خلاف فیصلہ سُنائے تو یہ مٹھائیاں بانٹتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔اب ریمنڈ ڈیوس کی انکشافات پر مبنی کتاب ان حکمرانوں کی وطن فروشی کو آشکار کر بیٹھی ہے تو یہ بجائے شرمسار ہونے کے خوشی سے جھومتے پھر رہے ہیں کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے، ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں۔لگتا ہے کہ پاناما کیس کی بدولت ان کی ذہنی حالت مشکوک ہو گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو اقتدار پر مزید فائز رکھنا مُلک و قوم کی سا لمیت سے بہت بڑا کھلواڑ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ لکھا، وہ سب امریکا، بھارت، افغانستان کے اس پاکستان مخالف ایجنڈے کا حصّہ ہے جس کا مقصد پاکستان کے قومی سلامتی اور دفاع کے اداروں کو بدنام کرکے اُن کا مورال گرانا ہے۔ اور اس منصوبے میں ہمارے موجودہ حکمران بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اس مُلک کو اصل خطرہ امریکا کے ریمنڈ ڈیوس سے نہیں، بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے نام نہاد لیڈروں سے ہے جن کے دیسی چہرے کے پیچھے ایک گھناؤنا ریمنڈ ڈیوس چھُپا بیٹھا ہے۔ جس دِن اس قبیل کے ریمنڈ ڈیوس قانون اور عوام کی گرفت میں آ گئے تو فہیم کی بیوہ شمائلہ کو انصاف اور ریاست کی بے بسی سے مایوس ہو کر خود کُشی نہیں کرنی پڑے گی۔اقبال کیا خوب فرما گئے
جعفر از بنگال، صادق از دکن
ننگِ قوم، ننگِ ملت، ننگِ وطن
٭٭٭٭٭

Naushad Hameed
About the Author: Naushad Hameed Read More Articles by Naushad Hameed: 21 Articles with 14319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.