اسلام میں مساجد کی اہمیت و فضیلت

مذہب اسلام ایک آفاقی و ہمہ گیر مذہب ہے جسکی تعلیمات ہم انسانو ں کے لئے مشعل راہ اور رشد و ہدایت کا منبع و سر چشمہ ہیں ۔ انسانو ں کی تخلیق اس دارفانی میں اسی لئے کی گئی ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت اور قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کر کے اپنے اخروی زندگی کو کامیاب و کامراں بناسکیں ، اور اس دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد حقیقی کو حاصل کر لیں ، اسی مقصد عظیم کے تحت اللہ رب العالمین نے ہمارے مابین اپنے معز ز و مکرم انبیا ء کر ام کو مبعو ث فرمایا اور ساتھ ہی اپنی مقدس و آسمانی کتابو ں کو بھی نا زل کیا ۔ جن میں ہمیں توحید پر قائم رہنے اور شرک کی غلاظتوں سے دور رہنے کی تاکید کی ، اور اپنی عبادت و ریا ضیت اور بندگی کے خاطر مساجد کو قائم و دائم اور آباد کر نے کا تاکیدی حکم صادر فرمایا ، جو دنیا والو ں کے لئے خیر و برکت کا منبع وسر چشمہ اور امن و امان کی جگہیں ہیں ، اسی لئے اللہ رب العالمین نے ان میں صر ف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو ئے ارشاد فر مایا کہ ’’ ان المساجد للہ فلاتدعوا مع اللہ احدا‘‘ ( سو رُۃ الجن : ۱۸) ترجمہ : بلاشبہ مساجد صر ف اللہ تعالی (کی عبا دت ) کے لئے ہیں لہذا ان میں اللہ کے ساتھ کسی دو سرے کو نہ پکارو ۔

دنیا کی ان مساجد کو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے’’ بیت اللہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے، اور ان کی دیکھ ریکھ ، تعمیر و ترقی اور آباد کر نے والو ں کو مو منین کے خطاب و سرٹیفکٹ سے سرفراز فرمایا ہے ، جیساکہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کے اند ر ارشاد فرماتاہے کہ ’’ انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الاخر و اقام الصلاۃ واتی الزکوۃ ولم یخش الااللہ فعسی اولئک ان یکو نوا من المھتدین ‘‘ ( التو بہ : ۱۸) ترجمہ : اللہ کی مسجدوں کو و ہی لو گ آباد کر تے ہیں جو اللہ اور یو م آخرت پر ایما ن لاتے ہیں نماز قائم کر تے ہیں اور زکاۃ اداکر تے ہیں اور اللہ کے سواکسی اور سے نہیں ڈرتے ہیں تو قع ہے کہ یہی لو گ یقینا ہدایت یافتہ اور راہ راست پر گامزن ہیں ۔ اس کے علاوہ جو لوگ نماز ،رو زہ ، حج و زکوۃ اور دیگر دینی امو ر میں کوتا ہی کر تے ہیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں خسارہ اوور نقصان ہے ، اور خاص طور جو لو گ مساجد کوبے آباد و بر باد کر نے و الے اورمساجد میں آنے والوں کو رو کتے اور ان کے لئے رو کاٹیں اور پریشانیاں کھڑی کر تے ہیں ، ایسے لو گ ظالم و جابر ہیں اور ان کے لئے دنیا میں ذلت ور سوائی اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ و من اظلم ممن منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ و سعیٰ فی خرابھا ، او لئک ما کا ن لھم ان ید خلوھا الا خائفین لھم فی الدنیا خزی و لھم فی الاخر ۃعذاب عظیم ‘‘ ( بقر ۃ : ۱۱۴) ترجمہ : اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالی ٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو رو کے اور ان کی بر بادی کی کو شش کر ے ، ایسے لو گو ں کو خو ف کھاتے ہو ئے ہی اس میں جاناچاہئے ایسے ظالمو ں کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑے بڑے عذاب ہیں ۔
حافظ صلاح الدین یو سف حفظہ اللہ ’’ و سعیٰ فی خرابھا ‘‘(اور ان کی بر باد ی کی کو شش کر ے)کی تفسیر میں رقمطرازہیں کہ ’’ تخریب اور بر بادی یہی نہیں ہے کہ اسے ڈھادیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے ، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا،اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو بر باد کر نا ہے ۔ ( تفسیر احسن البیا ن ۔ سورۃ بقرۃ : ۱۱۴۔ ص:۹۵)۔

چنانچہ انہی مساجد کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جگہ جگہ ، قریہ قریہ اور بستی بستی بذات خود مسجد وں کے تعمیر کرنے اور دو سروں کو بھی تعمیر کرنے و کروانے اور صاف ستھر ا ء رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت ’’ امر رسول اللہ ﷺببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب ‘‘ ( صحیح ابوداؤدللالبانی : ۴۳۶)

ترجمہ :۔ حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے محلو ں میں مساجد بنانے انہیں پاک صاف اور خو شبو دار رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اور اللہ رب العالمین کی رضا و خشنو دی کے خاطر مسجد تعمیر کر نے والے کے اجر و ثواب کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے ارشادفر ماتا ہے کہ ’’من بنی مسجد ا یبتغی بہ وجہ اللہ بنی اللہ لہ مثلہ فی الجنۃ ‘‘( بخاری : ۴۵۰)یعنی جس نے اللہ کی رضاکے لئے مسجد تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ اسکے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا ۔ اور دوسر ی روایت میں ہے کہ اس سے بڑا گھر بنائیں گے ( احمد:۴۵۔ ۲۷۶۱۲)او رحضر ت عمر بن خطاب ؓ روایت کر تے ہیں کہ ’’ قال سمعت رسو ل اللہ یقو ل :من بنی مسجدایذکر فیہ اسم اللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ‘‘( صحیح ابن ماجہ : ۶۰۱)ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سناہے کہ ’’ جس نے مسجد بنائی جس میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی ٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ چنانچہ اسی اجر و ثواب کے حصو ل کے لئے رسول اکر م ﷺ نے صحابہ کر ام رضو ان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ مسجد نبو ی کی تعمیر میں بذات خو د ایک مزدور ( نو کر ) کی طر ح کا م کیا ۔ وہ حضر ت عائشہ ؓکی لمبی روایت ہے جس میں ذکر ہے کہ قبا ء سے رخصت ہو تے و قت مدینہ الرسو ل میں جہاں آپ ﷺ کی او نٹنی بیٹھی تھی وہاں آپ نے ایک مسجد بنائی ، اسی روایت میں آگے ہے کہ ’’ ۔۔۔۔۔ثم بناہ مسجداوطفق رسول اللہ ﷺینقل معھم اللبن فی بنیانہ و یقول ،وھو ینقل اللبن : ( ھذاالاحمال لا حمال خیبر ، ھذا ابر ربنا و اطھر۔۔۔۔۔‘‘ ( بخاری : ۳۹۵۶)یعنی : وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں رسول اکرم ﷺ سب لو گوں کے ساتھ انٹیں اٹھاتے اور ساتھ ساتھ یہ فرماتے ’’ یہ بو جھ اٹھانا کوئی خیبر کا بو جھ اٹھا نا نہیں ہے ،بلکہ یہ تو باعث اجر و ثواب اور پاکیز ہ کا م ہے ۔ اور اسی مسجد( نبو ی،قباء) کی فضیلت کے بارے میں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ ’’ لمسجد اسس علی التقویٰ من اول یو م احق ان تقوم فیہ فیہ رجال یحبو ن ان یتطھر وا واللہ یحب المطھرین ‘‘ ( التو بہ :۱۰۸)ترجمہ :۔ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقو ی پر رکھی گئی ہے وہ اس لاائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہو ں ، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہو نے کو پسند کر تے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ خو ب پاک ہو نے والو ں کو پسند کرتاہے ۔

مذکورہ آیت کے ’’لمسجد اسس ‘‘کے بارے میں گرچہ اختلاف ہے کہ آیا اس سے مراد مسجد نبوی ہے یا مسجد قباء ۔لیکن بہر حال اس سے مسجد کی تعمیر و ترقی کی فضیلت واضح اور ثابت ہے ۔ یقینا یہ مساجد جنت کے باغو ں میں سے ایک باغ اور اللہ کے گھروںمیں سے ایک گھر ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ’’اذامررتم بریاض الجنۃفارتعوا، یعنی جب تمہارا گذرجنت کے باغوں میں سے ہو تو اس کے میوہ کھایا کرو ، تو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے عر ض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ’’وما ریا ض الجنۃ ‘‘جنت کے باغ کو ن سے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مساجدہیں ۔( ترغیب و ترھیب :۲۳۲۳)یعنی یہ مساجد جن ہم پانچو قتہ نمازیں اداکرتے ہیں اور دن میں پانچ مرتبہ اللہ رب العالمین کی کبریائی و بڑائی او ربزرگی کا ببانگ دہل اعلان کر تے اور نبی محترمﷺ کے سچے نبی ہو نے کی شہادت و گواہی دیتے ہیں اور راہ راست سے بھٹکے اور خواب غفلت میں بد مست لو گوں کو ایک اللہ کی وحدانیت اور عبادت و بندگی کی پرخلو ص دعوت دیتے ہیں ، چنانچہ انہی مساجد کو اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ رب العالمین کے نزدیک دنیا کی سب سے بہترین و متبرک اور مقدس و پاکباز اور پسندیدہ و امن و امان کی جگہیں قراردیا ہے اوربازاروں و چو راہو ں کو سب سے نا پسندیدہ جگہ قرار دیا ہے۔ عن ابی ھریرۃ ؓان رسول اللہ ﷺ قال :احب البلاد الی اللہ عزوجل مساجدھا و ابغض البلاد الی اللہ اسواقھا ‘‘(مسلم :۱۵۲۸) ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کو شہروں میں سے سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں اور شہروں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔

مذکو رہ تمام دلائل و براہین سے مساجد کی اہمیت وفضیلت واضح ہے ،کہ ان مساجد کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا اور انہیں آباد کر نا کتنا بڑا اجر و ثواب کاکام اور صدقہ جاریہ ہے جسکا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ان مما یلحق المو من من عملہ و حسانتہ بعد مو تہ علماعلمہ و نشرہ وولداصالحاترکہ ومصحفاورثہ اومسجدابناہ او بیتالابن السبیل بناہ او نھرااجراہ او صدقۃ اخرجھامن مالہ فی صحتہ و حیاتہ یلحقہ من بعد موتہ ‘‘(ابن ماجہ :۱۹۸)ترجمہ :جیساکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ روائت کر تے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ :مومن کی مو ت کے بعد اس کے عمل اور نیک کامو ں میں سے جسکا ثواب اسے پہنچتاہے وہ سات ہیں ۔ (۱)علم جو اس نے دوسروں کو سکھایا اور پھیلایا (۲)نیک لڑکا جو پیچھے چھو ڑا (۳)قرآن مجید جسکا کسی کو (علمی ) وارث بنایا (۴)مسجد جس نے تعمیر کی (۵)گھر جو مسافروں کے لئے بنایا (۶)نہر جو اس نے جاری کی (۷)وہ صدقہ جو اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں دیا ۔ان سات چیزوں کا ثواب انسان کو اسکی موت کے بعد بھی ملتارہتاہے ۔

مذکو رہ حدیث میں محل استشہاد’’اومسجدابناہ‘‘ہے جسکامطلب یہ ہے کہ جس نے مسجدکی تعمیر کی یا اسکی تعمیر وترقی میں حصہ لیاتواسکو مرنے کے بعدبھی اسکا اجروثواب ملتا رہے گا۔

ان تمام قرآنی آیت واحادیث نبویہ کے ذریعہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مساجد کی تعمیر وترقی میں حصہ لینا ،اسکو آباد کرنا ، اسکی صفائی وستھرائی کا خیال رکھناباعث اجروثواب اور صدقہ جاریہ ہے ،اور انہیں بے آبادومنہدم کرنا یا مصلیان کو اذیت وتکا لیف پہنچانایاانہیں مسجدوں میں ایک اللہ واحد کی عبادت و بندگی کرنے سے روکنا اور منع کرنا بہت بڑاگناہ اور عذاب عظیم ہے ۔

اس لئے ہم مسلمانوں کو خلوص وللہیت کے ساتھ اللہ کے گھروں (مساجد )کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور اپنے حلال کمائی سے ان کی تعمیرمیںدل کھول کر خرچ کرناچاہیے ۔ تاکہ قیامت کے دن ہمیں اسکا اجروثواب ملے۔

رب العالمین سے دعاہیکہ مولائے کریم ہمیں مساجد کی دیکھ ریکھ ،انکی صفائی وستھرائی کا خیال رکھنے اوران کی تعمیروترقی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Abdul Bari Shafique Salafi
About the Author: Abdul Bari Shafique Salafi Read More Articles by Abdul Bari Shafique Salafi: 114 Articles with 133463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.