اس وسیع و عریض سرزمین پر حضرت انسان و جنات کی تخلیق صرف
اس لیے ہوئی ہے کہ وہ اپنے پروردگار عالم کی عبادت کریں اور اسکے بتائے
ہوئے احکامات کی پیروی کریں ۔ نیز اللہ کے حبیب دو جہاں کے سردار جناب محمد
ﷺنے جس کے کرنے کا حکم دیا ہے اسے خوشی خوشی انجام دیں ۔ اور جن منہیات و
منکرات سے روکا ہے اس سے رک جایئں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد
فرمایاکہ’’ ومااتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ انتہوا واتقوااللہ ان اللہ
شدید العقاب ‘‘۔ [الحشر۔ ۷] ترجمہ ۔ اور تمہیں رسول جو کچہ دیں اسے لے لو
۔اور جس سے روکیں اس سے رک جاواور اللہ تعالی سے ڈرتیریا کرو یقینا اللہ
تعالی سخت عذاب والاہے ۔
اس آیت کے ذریعہ حضرت انسان کو یہ تعلیمس دی گئی کہ اللہ اوراس رسول کے
بتائے ہوئے احکامات کی پیروی ہی میں نجات اور بھلائی ہے ۔ لیکن اگر ہم نے
ان احکامات کو بالائے طاق رکہکر اپنے خود ساختہ قوانین وبدعات پر عملل پیرا
ہوئے اور اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو اپنا کارساز بنایا تو یقینا ہماری
نیا اور آخرت دونوں خراب وبرباد ہو جائے گی ۔
اللہ تعالی نے ہماری بھلائی ، رشدو ہدائت ، کامیابی و کامرانی اور آپسی
الفت و محبت کے ساتہ رہنے اور جنگ و جدال ، لٹرائی جہگٹرا اور قتل و
خونریزی اسے اجتناب کرنے کے کئے بارہ مہینوں کا نزول کیا ہے ، جسکا ذکر
قرآن میں بھی موجود ہے ’’ ان عدۃالشھور عند اللہ اثناعشر شہرا فی کتاب
اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ‘‘ [التوبۃ ۔ ۳۶ ] ترجمہ۔
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے ، اسی دن سے جب سے
آسمان و زمین کو اس نے پیداکیا ، ان میں چار مہینے حرمت و ادب کے ہیں ۔
مذکورہ آیت کی تشریح اور حرمت کے ان چار مہینوں کی توضیح آپ نے اس طرح کی
ہے کہ ’’۔۔۔۔۔ سالل بارہ مہینوں کا ہے ، جن میں چار حرمت والے ہیں ، تین پے
در پے ، ذو القعدہ ، ذوالحجہ ، محرم اور چوتہا رجب مضر ہے جو جمادی الا خر
اور شعبان کے درمیان ہے۔ [ تفسیر احسن البیان اردو ، توبۃ ۳۶، بحوالہ صحیح
بخاری کتاب التفسیر سورۃ اتوبۃ ، و صحیح مسلم کتاب القسامۃ ۔] اس طرح اللہ
اوراس کے رسول نے حرمت و ادب کے مہینہوں کا ذکر تو کیا مگر یہ نہیں کہا کہ
فلاں فلاں مہینہ نحوست و بدشگونی کا ہے ۔ اور ان میں کوئی کام کرنا گناہ ،
ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن جاہل اور گنوار قسم کے لوگوں نے ان مہینوں [ صفر
اور شوال وغیرہ ] مین ایسے ایسے بدعات و خرافات ایجاد کر لئے ہیں جن کا
اسلام سے کوئی واسطہ بھی نہیں ، حالانکہ یہی تملام بدعات و خرافات زمانئہ
جاہلیت میں بھی پائے جاتے تھے ، لیکن اسلام کی آمد نے اپنے متبعین کو تمام
جاہلی کاموں سے روک دیا، او ران کے خود ساختہ عقائد اور جملہ اوھام و
خرافات کو باطل قرار دیا، ماہ صفر سے متعلق جتنی بھی چیزیں ان کے درمیان
رائج تھیں سب کی پر زور تدید کی ، اور صفر کی حقیتت و اہمیت کو واضح کرتے
ہوئے اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کہ ’’ لا عدوی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا
صفر ‘‘ [ بخاری مع الفتح ج۔۱۰۔ح۵۷۵۷] ۔ترجمہ۔ حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ
بیان فرماے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ چھوت چھات کی بیماری ، بد
شگونی،الو کی نحوست اور صفر کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اسی طرح حضرت جابر سے
مروی ے کہ ’’سمعت النبی ﷺ یقول :لا عدوی ولا صفر لا غول ‘‘ [ مسلم مع شرح
النوی ج۱۴۔ح۵۸۵۷] یعنی چھوت چھات کی بیماری ، صفر اور بھوت پریت کی کوئی
حقیقت نہیں ، اور دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایا کی ’’ چھات کی بیماری اور صفر
کی کوئی حقیقت نہیں ،اللہ تعالی نے ہر نفس کو پیدا کرنے کے بعد اسکی زندگی
اسکی روزی ، او [ ترمذی ، کتاب القدر ۔ح ۲۱۴۳، علامہ البانی نے اسکو صحیح
کہا ہے ، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۔ ۱۱۵۲] اسطرح معلوم ہوا کہ ر اسکی مصیبت
لکھ دی ہے ۔ اس طرح معلوم ہوا کہ صفر سے متعق اہل جاہلیت کے ذہن و دماغ میں
جو باطل خیالات و تصورات پیدا ہوئے تھے ، ان تمام خرافات کی اسلام نء باطل
اور لغو قرار دیا ، اور بتایا کہ صفر کی کو ئی حقیقر نہیں ، اور اس میں
کوئی نحست نہیں ۔ لیکن نہائت افسوس کے کہنا اور لکھنا پٹر تا ہے کہ آج کے
بعض نام نہاد مسلمانوں نے پھر اسی دور جاہلیت کہ ڈگر پر چلنا شروع کر دیا
ہے ، اور صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنے لگے ہیں ،اس لئے بعض لوگ اس مہینے
میں سفر اور شادی بیاہ کرنے وغیرہ سے بھی اجتناب کرتے ہیں ۔ اور نہ جانے
کیا کیا بدعات و خرافات انجام دیتے ہیں ۔ جب اللہ، کے رسو ل کی واضح حدیث
ہے کہ ’’ لاعدوی ولا طیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر ‘‘ [ بخاری ۵۷۱۷، مسلم ۲۲۲۰]
یعنی کوئی بیماری خود بخود متعدی نہیں ہوتی ، نہ بدشگونی لینا درست ہے اور
نہ کسی پرندے [ الو وغیرہ ] کو منحوس سمجھا درست ہے ، اور نہ صفر سے بد
شگونی لینا درست ہے ۔ اس لئے ہم مسلمانوں کو یہ جاہلانہ عقیدہ نہیں رکھنا
چاہیے کہ زمان ، مکان ، انسان، جانور ،اور پرندے وغیرہ میں نحوست ہے ۔ اس
کے بر عکس ہمیں صرف اللہ تعالی پر ہی کاعتماد کامل اوت توکل رکھنا چاہئے ،
کہ ہر قسم کا نفع و نقصان کا مالک وہی اکیلاہے اور سب کچھ اسی کے ہاتھ مینن
ہے وہ جسکو جس طرح چاہے آزمائے ، جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے
۔ اور نفع و نقصان عزت و ذلت کا کسی مہینہ سے کوئی واسطہ نہیں ۔ اس لئے ہم
مسلمانوں کو صرف قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے احکامات پر ہی عمل کرنا چاہئے
، اور سماج میں پھیلے ہوئے بدعات و خرافات سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مو لائے کریم ہم تمام مسلمانوں کو معاشرے میں
پھیلے ہوئے بدعات و خرافات سے دور رہنے اور آخری دم تک صراط مستقیم پر
چلنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔ [ آمین ] ۔ |