یہ امر طے ہے کہ جمہوریت ہی بہترین طرزِ حکومت ہے۔اس کے
ثمرات بہت جلد عوام تک پہنچتے ہیں۔دورِ جدید میں جن ملکوں میں جمہوریت
پروان چڑھی ان ملکوں نے ترقی کی انتہاؤں کو چھُوا۔ امن اور خوشحالی نے وہاں
اپنا مسکن بنایا۔جمہوریت میں احتساب کا بہترین نظام موجود ہوتا ہے اور تیز
ترین انصاف اس کا حسن ہوتا ہے۔احتساب اور انصاف کی موجودگی میں ہی جمہوریت
عوام اور ریاست کے لیے مفید ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی اب جمہوریت قائم ہے
مگر اس کے ثمرات اور فوائد سے عوام محروم ہیں۔یہاں کے عوام اب بھی کسی
سیاسی ہلچل کے نتیجے میں جمہوری نظام کی بجائے کسی اور طرزِ حکومت کو خوش
آمدید کہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں
جمہوریت احتساب اور انصاف کے بغیر ہی موجود رہی ہے۔جس جمہوری نظام میں
احتساب اور انصاف نہ ہو وہ نظام آمریت سے بھی بد تر ہوتا ہے اور کبھی بھی
عوام میں مقبول نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان میں اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں ۔پاکستان میں جمہوریت تو موجود ہے
مگر اب اس میں احتساب اور انصاف کا نظام بھی مضبوط ہو رہا ہے اور ا س کے
ثمرات عوام تک اب پہنچنا شروع ہو رہے ہیں۔ملک میں جب سے پانامہ پیپرز کا
شور بلند ہوا ہے اس وقت سے ہی حکمران خاندان چیخ رہا ہے۔سپریم کورٹ نے
پانامہ پیپرز پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کی سماعت شروع کی ۔جون جوں
وقت گزرتا گیا حکمران خاندان کے تیوربھی بدلتے گئے۔اپنے پہلے فیصلے میں
عدالت نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا جس پر حکمران خاندان نے
خوشیاں منائیں ۔ان کے ذہین میں 90کی دہائی ولا پاکستان تھا جہاں وہ اپنی
مرضی کی تحقیقات اور فیصلے کروا سکتے تھے۔مگر اب ایسا نہ ہوا ۔جے آئی ٹی نے
اپنا کام دیانت داری سے کیا اور اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ۔اس
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شریف خاندان کے اثاثے ان کی آمدن کے مطابق نہیں
ہیں۔بیرونِ ملک جائیدادوں کا وہ حساب نہیں دے سکے۔جس منی ٹریل کا وہ ذکر
کرتے تھے وہ ثابت نہیں کرسکے۔اس خاندان نے جعلی کاغذات عدالت میں جمع کرواے
اور ان کاغذات کی دوسرے ممالک نے تصدیق بھی نہیں کی۔حکومت کے ماتحت کچھ
اداروں نے بھی سستی کا مظاہرہ کیا اور ریکارڈ میں بھی ردوبدل کیا ۔عدالت نے
اس پر بھی سخت ایکشن لیتے ہوئے ایس ای سی پی کے سربراہ کے خلاف مقدمہ قائم
کرنے کا حکم دیا اور اسی شام وہ مقدمہ قائم بھی کر دیا گیا۔حکومت کے وفادار
جو عدالت اور جے آئی ٹی پر چلاتے رہے اب وہ مقدمات کا سامنا کر رہے
ہیں۔میڈیا کا وہ سیکشن جو حکمرانوں کی زبان بولتا رہا اب اسے توہینِ عدالت
کا نوٹس مل چکا ہے۔پاکستانی معاشرے میں عدلیہ اب آزاد اور پر وقار نظر آنے
لگی ہے۔اس کے اقدامات نے پاکستانی عوام کے اعتماد کومضبوط کیا ہے ۔
شریف خاندان لگ بھگ 35برسوں سے پاکستانی سیاست میں موجود ہے ۔اس خاندان پر
کرپشن اور بدعنوانی کے کئی مرتبہ الزامات لگے ہیں۔اس خاندان کے اثاثے ان کی
آمدن کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔قرض اتارو ملک سنوارو کی سکیم بھی انہوں
نے متعارف کروائی۔اس سکیم سے حاصل ہونے والی رقم کہاں خرچ ہوئی کسی کو
معلوم نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسی رقم نے اس خاندان کی امارت میں اضافہ کیا
ہے۔ماضی میں اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات سے یہ ہمیشہ بچ جانے میں کامیاب
ہوتے رہے مگر اب آزاد عدلیہ کی موجودگی میں ان کے لیے فرار ممکن نہیں ہے۔ان
کے مالیاتی غبن پر عدالت جو بھی فیصلہ دے مگر عوام یہ جان چکی ہے کہ نواز
شریف اب کسی طور بھی صادق اور امین نہیں رہے۔اس جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یو
اے ای کی منسٹری آف جسٹس کا ایک خط بھی موجود ہے جس میں اس بات کی تصدیق کی
گئی ہے کہ نواز شریف ایک آف شور کمپنی کے نہ صرف مالک ہیں بلکہ بطورِ
سربراہ وہ اس کمپنی سے دس ہزار درہم تنخواہ بھی لیتے رہے ہیں اور ان کے پاس
دبئی کا شہری ویزہ بھی تھا۔وزیر اعظم نے یہ بات الیکشن کمیشن کو جمع کروائے
گئے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔کیا نواز شریف آرٹیکل 62/63پر پورا اترتے
ہیں؟سپریم کورٹ میں شیخ رشید کی پٹیشن پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔مریم
نواز نے بھی عدالت میں جو دستاویزات جمع کروائیں برطانوی حکومت نے ان کی
تصدیق نہیں کی۔مریم نواز کو عدالت کو غلط معلومات دینے کے مقدمے کا بھی
سامنا کرنا ہوگا اور یہ مقدمہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی مدعیت میں ہی درج ہو
سکتا ہے۔
اصل احتساب طاقتور کا ہی ہوتا ہے۔جب کوئی طاقتور احتساب کی چکی میں پستا ہے
تو باقی لوگ جرم اور غبن کرنے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں۔نواز شریف خاندان سے
زیادہ طاقتور اس ملک میں اور کوئی نہیں۔یہ توابتدا ہے اس کے بعد باقی
لُٹیروں کا بھی حتساب ہوگا۔جب پاکستانی معاشرے میں احتساب کا مربوط اور
شفاف نظام قائم ہو گا تو جمہوریت کے ثمرات بھی نچلی سطح تک پہنچنے شروع ہو
جائیں گے۔اب کوئی بھی شخص لوٹ مار کرنے سے پہلے کئی بار ضرور سوچے گا۔وہ
لوگ جو یہ کہتے تھے کہ ا س ملک میں بدعنوانوں کا کچھ نہیں ہو سکتا وہ اب
سکتے میں ہیں۔جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ یہاں کرپٹ اور جھوٹوں کی کوئی جگہ
نہیں ہوتی۔عدالیہ اپنا کام کر رہی ہے پاکستانی عوام کو بھی اب اپنا کردار
ادا کرنا ہو گا اور بدعنوان اور جھوٹوں سے نفرت کرنا ہو گی۔ |