امن کا دیا

امن کی صندوقچی

تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے۔ میں کچھ دنوں سے سوچ رہا تھا کہ وقت بہت تیزی سے اپنا سفر کرتا جارہا ہے اور اس کی چلنے کی رفتار کچھ زیادہ تیز ہوگئی ہے۔ اکیلے میں جب کبھی بھی میں اپنے ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو بہت ساری باتیں، بہت سارے واقعات ایسے ہیں کہ جن کو یاد کرتے ہوئے میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ ابھی کل ہی کی تو بات تھی لیکن پھر وقت کی ٹن ٹن میرے دماغ پر ٹھوکر مارتے ہوئے بتاتی ہے کہ اس کو تو اتنے سال گزر گئے۔ آپ کبھی اپنی اپنی زندگی کے اندر ایک ٹاسک ضرور بنایا کریں کہ جس پر آپ کو کچھ ورک﴿Work﴾کرنا پڑے آپ کو ریسرچ﴿Research﴾کرنا پڑے اس کام کے لیے آپ لوگوں سے ملیں ان کی رائے لیں تب آپ محسوس کریں گے کہ ان لوگوں نے جو زندگی گزاری ہے وہ آپ کے اس موضوع پر جو آپ نے چنا پر کیا کہتے ہیں۔ آپ کو ہر شخص کے اندر سے بہت کچھ ملے گا حتیٰ کہ آپ جب اپنے موضوع پر کسی اَن پڑھ سے بھی بات کریں گے تو وہ بھی آپ کو ایسی رائے دے گا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوگا کہ بلاشبہ علم کسی یونیورسٹی یا کالج کا محتاج نہیں۔ مجھے ان سب باتوں کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے اپنی زندگی کے اندر ایک ٹاسک بنائی کہ میں نے ایک موضوع بنایا کہ میں ان لوگوں سے ملنے کی کوشش کروں گا کہ جن لوگوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہو۔ اس کام کے لیے میں نے ان بابوں کا انتخاب کیا جو آج کسی درخت کے نیچے، یا کسی چھوٹی سی دکان کے باہر بیٹھے اپنی زندگی کے تجربے کو بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ جب میں ان سے ملا تو میرے اندر جو سب سے بڑھ کر چیز پیدا ہوئی وہ تھی وطن سے محبت۔ ان لوگوں کی زندگی کی سچی داستانیں سن کر مجھے ایک بڑی عجیب سوچ ملی آپ یقین کریں آج بھی جب میرا گزر کسی خالی میدان سے ہوتا ہے تو نہ جانے کیوں مٹی کو دیکھ کر میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور میں اس مٹی کو دیکھ کر اس منظر کو سامنے لاتا ہوں کہ جب ایک بوڑھا شخص جس کے ساتھ اس کا سارا خاندان ہے اور وہ اپنے خاندان سمیت اس مٹی کو چومنے کے لیے اور ایک نظر دیکھنے کے لیے بے سروساماں نکلا ہے اور اسی خواہش میں خاندان سمیت نہ جانے کتنی تکلیفیں برداشت کرتا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جواں بیٹے کو مرتے دیکھتا ہے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ننھے ننھے پوتے پوتیوں کے جسم کو خون آلودہ دیکھتا ہے تو میرے دل سے مجھے یہ آواز محسوس ہوتی ہے کہ کچھ تو اس مٹی میں ہے آخر اس مٹی نے اتنی قربانیاں کیوں لیں؟تبھی اس ملک کی محبت مجھے اس بات کو جواب دیتی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نظریات کو اپنے تصوارت کو مقصد کو روپ دیتی ہے تو اس مقصد کی تکمیل میں معجزے رونما ہوتے ہیں اور جب معجزے رونما ہوتے ہیں تو ان کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ جب ۷۵۸۱ئ کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں نے انگریزوں سے آزادی کی مہم شروع کی تو اس مہم کو انہوں نے اپنا مقصد بنایا اگر وہ مقصد نہ بناتے اور ان کے سامنے صرف یہی بات ہوتی کہ انہوں نے صرف ایک ملک لینا ہے تو شاید وہ کبھی یہ ملک نہ بناسکتے۔ انہوں نے اس کے پیچھے ایک عظیم مقصد بنایا اور جب مقصد کی تکمیل نے ان سے خراج مانگا تو انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور ان میں بیشتر تو وہ تھے جو اس پاک مٹی کو ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکے۔

آج جب ہم اس پاک مٹی، اس پاک سرزمین کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس مٹی پہ ایک بار پھر خون کی بارش ہورہی ہے جیسے ۲۶سال پہلے چلی تھی فرق صرف یہ ہے کہ وہ بارش اس پاک مٹی کو وجود میں لانے اور اس کی آزادی کے لیے تھی اور یہ بارش اس مٹی کی حفاطت کے لیے ہے۔ ہم میں سے ہر ایک آج اس مسئلے سے بہت پریشاں ہے کہ آخر یہ بارش کب تھمے گی ظلم اور خوف کے یہ بادل کب چھٹیں گے کب پیار کا امن کا سورج طلوع ہوگا؟ یا ہوگا بھی سہی کہ نہیں۔ ان تمام تر باتوں سے آج آپ کو ہر ایک شخص پریشاں نظر آئے گا۔ ہر ایک شخص دوسرے کی اسی جواب کی تلاش میں ہوتا ہے کہ آخر اس ملک میں امن کب ہوگا اور وہ وقت کب آئے گا؟میں جب اپنے اس موضوع کی تلاش میں ان بابوں سے ملا جنھوں نے یہ پیارا وطن بنتے دیکھا تھا تو وہ کہتے کہ بیٹا مایوسی کفر ہے جب اللہ میاں کبھی مایوس نہیں ہونے دیتے وہ کہتے ہیں کہ خبردار جو تم مایوس ہوئے تو، تو پھر ہم کون ہوتے ہیں مایوسی دلانے والے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ تبدیلی آتے دیر نہیں لگتی وقت اپنی رفتار سے ایسے چلتا ہے کہ بندے کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ اگر وقت کے ساتھ معاشرے کے اندر تبدیلی نہ لائی جائے اور قوم اپنے آپ کو نہ بدلے تو پھر وقت اس قوم کو زوال کی گہرائیوں میں پھینک دیتا ہے اس لیے کوشش کرو کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اندروہ تبدیلی جو تم لانا چاہتے ہو لے آؤ۔

تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس وقت ہم لوگ جو اتنے پریشان ہیں معاشرے کے اندر امن لانے کے لیے، سکون لانے کے لیے تو وہ کیسے ممکن ہے؟تو ملک کے اندر امن اور سکون تبھی قائم ہوتا ہے جب اس ملک کے لوگ اس ملک کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ حب الوطنی سے سرشار ہو کر وہ اپنا ہر مقصد ہر کام وطن کی محبت سے لبریز ہو کر کرتے ہیں۔ آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم محبت تو کرتے ہیں لیکن وطن کے معاملے میں ہم تھوڑی کنجوسی کرتے ہیں ہم لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وطن تو کھپے ہم لوگ بچ جائیں یہاں سے نکل کر کہیں اور چلے جائیں جب ہم اپنے ماضی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمارا پچھلا وقت ہمیں دکھاتا ہے کہ جو قوم ملکی محبت سے الگ ہوکر سوچتی ہے تو وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے ملک نہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ مغلیہ دور کی سلطنت کی ہر عمارت آپ کو آج بھی نظر آجائے گی لیکن اس دور کا کوئی ایک بندہ بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ تو آج سے اگر ہم اس بات کا تہیہ کرلیں کہ ہم اپنی محبت میں سے کچھ حصہ اس ملک کے لیے رکھیں گے تو انشا اللہ آپ دیکھیے گا کہ تبدیلی کیسے آتی ہے وہ امن کیسے قائم ہوتا ہے۔

محبت کا یہ دیپ جلانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم سب مل کر ایک ایسی صندوقچی بنالیں کہ جیسے ہمارے مسجدوں والے اور مکتب مدرسوں والے چندہ مانگنے والے بناتے ہیں اور اس صندوقچی کو آپ نام دے دیں کہ امن کی صندوقچی یا محبت کی صندوقچی پھر جیسے وہ لوگ چندہ مانگتے ہیں نا اسی طرح ہم لوگ مل کر کبھی نکلیں یا ہر ملنے والے سے کہیں بھائی ہمارے ملک ترقی کے لیے امن کے لیے سکون کے لیے لوگوں کو آسانیاں دینے کے لیے زیرِتعمیر ہے کیا آپ اس میں اپنی طرف سے کچھ contributionکرنا پسند کرنا چاہیں گے؟آپ اپنی حیثیت کے مطابق اپنی محبت میں سے جو آپ نے مختلف حصوں میں تقسیم کی ہوئی ہے کہ اتناحصہ ماں باپ کے لیے، اتنا حصہ بہن بھائی بیوی بچوں کے لیے، پھر کچھ رشتہ داروں ،عزیزواقارب اور دوست احباب کے لیے تو باقی جو بچی اس میں سے تھوڑا سا حصہ خالص اس ملک کو دے دیں کہ میری یہ محبت میرے ملک کے نام اور اس محبت میں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی اس ملک کے ساتھ دغا نہیں کروں گا۔ اور میں اس کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام کروں گا۔

جب ہم یہ سب اس صندوقچی کو بھرنے کی کوشش کریں گے تو یہ کام بہت جلد ہوجائے گا اس لیے کہ جیسے مسجد کے چندے میں ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق ڈالتا ہے اور کہیں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو اتنا دے دیتے ہیں کہ مزید گنجائش ہی نہیں رہتی تو ہوسکتا ہے کہ امن کی اس صندوقچی میں کوئی ایسا محب وطن بھی آپ کو مل جائے جو اپنی ساری محبت آپ کی صندوقچی میں ڈال دے۔ تو میری یہ دعا ہے کہ آج میری طرف سے امن کی یہ صندوقچی آپ کے ساتھ ضرور جائے۔ اور آپ بھی اس صندوقچی میں اپنا حصہ ضرور ڈالیے گا اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ اور محبت کی یہ صندوقچی ہمیشہ بھری رہے (آمین)
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 13738 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More