امریکہ کی طرف سے کشمیری فریڈم فائٹر سید صلاح الدین اور
حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد کہا گیا کہ تنازعہ کشمیر سے
متعلق امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔یہ بات امریکی سینٹ کی
آرمڈ سروسز کے وفد کے دورہ پاکستان کے موقع پر بھی دہرائی گئی۔سینٹر جان
مکین کی سربراہی میں اس امریکی وفد میں سینٹر لنڈسے گراہم،سینٹر شیلڈن وائٹ
ہائوس،سینٹر الزبتھ وارن،سینٹر ڈیوڈ پرڈیو اور سینئر سٹاف ممبر جوناتھن
شامل تھے۔اس دورے سے امریکہ کی طرف سے ہندوستان کے مفادات میں پاکستان کے
خلاف سخت روئیے کے امکانات کم ہوئے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے
درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔اسی
دوران8جولائی کو نوجوان کشمیری فریڈم فائٹر برہان وانی کی بھارتی فوج کے
ہاتھوں ہلاکت کا ایک سال مکمل ہونے کا دن مقبوضہ کشمیر میںبھارت کے خلاف
بھر پور طور پر منایاگیا۔ اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان کے اہم اداروں
کی طرف سے بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں شہید ہونے والے کشمیری فریڈم
فائٹرز کا نام لے کر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف جدو جہد آزادی کی
حمایت کی جا رہی ہے۔8جولائی کو برہان وانی کا یوم شہادت پاکستان اور آزاد
کشمیر میں سرکاری طور پرمنایا گیا اور اس موقع پرپاکستانی فوج کے سربراہ
جنرل قمر جاوید باجوہ نے برہان وانی کا نام لے کر حق خود ارادیت کے لئے
کشمیریوں کی نسل در نسل جدوجہد اور قربانیوں کو کامیابی کی نوید قرار دیا۔
چین اور بھارت کے درمیان سکم کے دوکلام علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا
ہے اور دونوں طرف سے اس علاقے میں فوجی تصادم کے امکانات بھی پائے جاتے
ہیں۔چین کی ویسٹ نارمل یونیورسٹی میں انڈین سٹیڈیز شعبے کے ڈائریکٹر لونگ
زنگچن نے' گلوبل ٹائمز' میں شائع ایک مضمون میں کہا ہے کہ جس طرح ہندوستانی
فوج بھوٹان میں داخل ہوئی ہے اسی طرح ایک تیسرے ملک(چین ) کی فوج پاکستان
کی درخواست پر متنازعہ ریاست کشمیر میں داخل ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی
درخواست پر کشمیر میں چین کی فوج داخل کرنے کے امکانات سے متعلق اس مضمون
سے اس بات کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ 'سی پیک' منصوبے سے چین صرف دفاع ہی
نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر میں بھی پاکستان کا مضبوط اتحادی بن چکا ہے۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی کے بارے میں بڑی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔پاکستان کی
ہر حکومت مسئلہ کشمیر کی روائیتی پالیسی پر کاربند رہنے اور مسئلہ کشمیر پر
کوئی 'کمپرومائیز' نہ کرنے کے اعلان کرتی ہے لیکن عملی طور پر ہر حکومت
اپنی معیاد کے مفادات میں محدود رہتی ہے۔پاکستان کی کشمیر پالیسی اور حکمت
عملی واضح نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر کشمیریوں میں گہری تشویش پائی جاتی
ہے۔مقبوضہ کشمیر میں موجود حریت رہنماہوں ،پاکستان میں موجود حریت نمائندے
یا تحریک آزادی کشمیر کے کسی بھی شعبے سے متعلق کوئی بھی شخصیت ،کسی کو بھی
پاکستان کی کشمیر پالیسی کا علم نہیں ہے۔اور تو اور کئی اہم ذمہ دارعہدوں
پر موجود شخصیات بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی آخر
ہے کیا۔پاکستان کی کشمیر پالیسی کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے وزارت خارجہ،
کسی سرکاری بیان سے سمجھا جا سکے،اسے سمجھنے کے لئے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ
ارباب اختیار کشمیر کے حوالے سے کیا کیا کرتے آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں
۔پاکستان کی کشمیرپالیسی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ہر حکومت اپنے اپنے عرصہ
اقتدار کے مفادات کی روشنی میں مسئلہ کشمیر سے متعلق امور کا تعین کرتی
ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ کشمیر پالیسی اور اس سے متعلق حکمت عملی میں
کشمیریوں سے مشاورت کو پاکستان میں غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔یہ بھی دیکھا
گیا ہے کہ سابق جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کی طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے
سے پاکستان نے جو قدم بھی پیچھے کیا،پھر اس قدم کو آگے نہ بڑہایا جا سکااور
اس سے بھارت کے جارحانہ انداز کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی ناقص ،کشمیریوں کی توقعات کے مطابق نہ ہونے سے قطع
نظر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں صرف پاکستان ہی کشمیریوں کے حق خود
ارادیت اور تحریک آزادی کی حمایت کرتا ہے ۔غیر جذباتی انداز میں دیکھنے سے
معلوم ہوتا ہے ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی اپنی کئی مجبوریاں
ہیں،پاکستان کو مختلف نوعیت کے دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی دنیا
کشمیر کی لائین آف کنٹرول کی تقدیس کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ حقیقت نظر
انداز کر دی جاتی ہے کہ کشمیر کو جبری طور پر تقسیم کرنے والی اس لائین
کاقیام مسئلہ کشمیر کے حل کے پہلے مرحلے کے طور پر عمل میںلایا گیا تھا
لیکن پھر اسی کو مستقل سرحد قرار دیئے جانے کی سازشیں بھی جار ی رہی ہیں۔آج
کی دنیا مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے بنیادی حق آزادی کے بجائے ہندوستان اور
پاکستان کے حوالے سے دیکھ رہی ہے۔ہماری کمزوری اور نا اہلی کا ایک نتیجہ یہ
بھی ہے کہ دنیا میں کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی بات کرنے پر ہندوستانی
پروپیگنڈے کے زیر اثریہی جواب ملتا ہے کہ ایسا پاکستان کی طرف سے کشمیریوں
کو اکسانے پر ہوتا ہے۔یعنی اب اپنے حق خوداردیت کے لئے جدوجہد کرنے اور
قربانیاں دینے والے کشمیریوں کے اپنے وجود کو دنیا نہیں دیکھتی بلکہ مسئلہ
کشمیر کو محض پاکستان اور ہندوستان کا تنازعہ سمجھا جاتا ہے۔دنیا مین
ہندوستان کا یہ پروپیگنڈہ تیزی سے پھیلا جا رہا ہے کہ ہندوستانی زیر بد
انتظام کشمیر میں عوامی جدوجہد پاکستان کی ایماء پر ہو رہی ہے۔یہ بتانے کی
ضرورت ہے کہ یہ کشمیریوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ ،پرامن حل کے
مطالبے پر،کشمیریوں کے خلاف بھارت کے مسلسل بدترین مظالم ہیں جس کی وجہ سے
کشمیری سیاسی اور عسکری جدوجہد پر مجبور ہیں۔ایسا حریت کانفرنس مقبوضہ
کشمیر کی قیادت میں قائم کشمیریوں کے پاکستان و مغرب میں قائم کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی کے مشترکہ پلیٹ فارم سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں عام شہری طویل ترین اور مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے بھارت سے
آزادی کا مطالبہ کر تے ہوئے ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں، سیاسی ،عسکری
مزاحمت جاری ہے ۔ہر کشمیری آزادی کی جدوجہد،مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت
چاہتا ہے، لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ہندوستان کا پروپیگنڈہ تیز سے تیز ہو رہا
ہے اور یہاں ہندوستانی پروپیگنڈے کو ' کائونٹر' کرنا شجر ممنوع معلوم ہوتا
ہے۔کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کی مسلسل فوج کشی اور بہیمانہ مظالم کے
باوجود دنیا میں ہندوستانی موقف کے موافق صورتحال کی وجوہات اور ذمہ دار
چاہے جو بھی ہوں،اس سے کشمیریوں کے لئے اس بات کی ضرورت کی اہمیت میں مزید
اضافہ ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ خود کشمیری پاکستان،ہندوستان سمیت دنیا
بھر میں اٹھائیں۔مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنما ہندوستانی پابندیوں کے شکار
ہیں ،ان کی نقل و حرکت اور رابطوں پر بھی پابندیاں عائید ہیں۔آزاد کشمیر
/پاکستان میں موجود حریت کانفرنس انحطاط پزیری کی جانب مائل ہوتے ہوئے اپنی
ذمہ داریاں سے ہی بے خبر نظر آتی ہے۔ برطانیہ،یورپ،امریکہ و دیگر ممالک میں
کشمیر سے متعلق متعدد تنظیمیں قائم ہیں تاہم ان کا کام بھی ان ممالک میں
ہندوستانی لابیوں کو ' کائونٹر' کرنے اور کشمیر کاز کی موثر ترجمانی کے
تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔یوں تحریک آزادی کشمیر کی آواز کو موثر بنانے کے
لئے مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنمائوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قیادت
میںمسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک ایسا وسیع پلیٹ فارم تشکیل دیں جس میں
پاکستان اور مغرب سے بھی کشمیری شامل ہوں۔مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنمائوں کا
یہ عشروں پہلے کا 'عہد ' ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی جدوجہد کی سیاسی شعبے
میں نمائندگی ،ترجمانی کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں منصوبہ
بندی اور حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے اور ''کمانڈ اینڈ کنٹرول'' کی طرح
کے کئی اہم اموربھی ایسے کئی مسائل کا موجب ہیں جس سے کشمیری عوام کی بے
مثال،دلیرانہ جدوجہد کے باوجود سیاسی طور پر مسئلے کے حل میں پیش رفت نہیں
ہو رہی۔
کشمیریوں کے لئے مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق کے طور پر پوزیشن اختیار کرنا
نہایت اہم اور وقت کی ضرورت ہے،تاکہ مصائب زدہ،ستم رسیدہ کشمیریوں اور
سنگین ترین مسئلے کے طور پر عشروں سے لٹکے ہوئے کشمیر اشو کے حل میں پیش
رفت کو ممکن بنایا جاسکے۔دنیا میں کشمیریوں کی آواز موثر طور پر اٹھانے کے
حوالے سے پاکستان کو ہر شعبے میں کشمیریوں کی معاونت میں اضافہ کرنا
چاہئے،تاہم اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ پاکستان کی مجبوریوں،پابندیوں سے
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو آزاد رکھا جائے،کشمیریوں کی فہم و فراست اور
بصیرت پر اعتماد کیا جائے اور کشمیریوں کی اپنی آواز کو دنیا کے سامنے لانے
کے لئے کشمیریوں کو enpowermentکیا جائے۔ |