مسٹر ٹرمپ اِن ایکشن

ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے اسے المیہ کہیں یا پھر اس صدی کا سب سے بڑا عجوبہ ۔ٹرمپ کی شخصیت پہلے ہی مشکوک تھی مگر بہت سے دوست بشمول میں سمجھتا تھا کہ شائد سپر پاور کی صدارت سمبھالتے ہی جناب بدل جائیں گے اور انتخابی نعرے صرف نعروں کی حد تک رہیں گے مگر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سات مسلمان ممالک کی عوام کو امریکہ میں داخلے پر پابندی نے اس بات کو واضع کر دیا ہے کہ ٹرمپ صاحب جو بولتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں مگر اس فیصلے کے خلاف سب سے زیادہ آواز امریکہ میں اُٹھائی گی اور عدالت کو اس فیصلے پر روک کی مہر لگانا پڑی۔ٹرمپ انتظامیہ عدالتی فیصلے پر خوب تڑپی۔ٹرمپ کے لیے امریکن عوام کے دلوں میں موجود نفرت کو مزید ہوا ٹرمپ انتظامیہ خود دے رہی ہے جس کی بدولت ہزاورں افراد آج بھی امریکہ کی سڑکوں پر موجود ہیں اور پوری دنیا بشمول امریکن میڈیا ٹرمپ کی شخصیت کو طنزو مزاخ کے سوائے کچھ اہمیت نہیں دے رہاجو یقینا ٹرمپ کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے مگر ٹرمپ صاحب اپنی دھن میں مگن وائٹ ہاؤس کے مزے لوٹنے میں مشغول ہیں ۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے لیے گئے ایسے غیر سنجیدہ فیصلے سب سے زیادہ امریکہ کو نقصان پہنچائیں گے بحرحال ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ امریکہ کے پاس ایک ٹرمپ سے اور ہمارے پاس دو ٹرمپ ہیں خان صاحب میاں صاحب کو یہ لقب دے چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) والے خان صاحب کو پاکستان کا ٹرمپ کہہ چکے ہیں اب ان دونوں میں ٹرمپ کون ہے یہ فیصلہ تو پاکستان کی عوام ہی کر سکتی ہے مگر خود کو ٹرمپ ماننے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہے۔

ٹرمپ صاحب کے بقول وہ اسلامی دہشت گردی کو روکنے کے لیے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے میں پابندی لگا نا چاہتے ہیں ان کے اس بے بنیاد نعرے کے خلاف سو کے لگ بھگ امریکن کمپنیوں نے عدالت کا رُخ کیا کیونکہ اس فیصلے پر عمل درآمد سے ان کمپنیوں کے کاروبار کو شدید دھچکا پہنچے گا کیونکہ بہت سا کاروبا انہی تارکین وطن کی بدولت ہے اور بہت سے تارکین وطن ان کمپنیوں میں اپنی خدمت سر انجام دے رہے ہیں اسی طرح تارکین وطن نے امریکہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں بنیادی طور پر امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ دہشت زدہ لوگوں کے خلاف یہ فیصلہ صادر کرنے کی کوشش کی ہے ۔میکسیکو نے پہلے ہی تارکین وطن کو روکنے کے لیے دیوار بنانے سے انکار کر دیا ہے اور اس انکار پر اس ملک کے خلاف فوجی کاروائی کے امکان ظاہر کیے جا رہے ہیں اگر ٹرمپ کے جنون نے ایسا کچھ کر دیا تو ہٹلر کی یاد تازہ ہو جائے گی کیونکہ ہٹلر بھی انتہاء پسند نعروں کے سہارے جرمن کے چانسلر منتخب ہوئے تھے اور پھر ایک کمزور ملک پولینڈ پر حملہ کر کے دوسری جنگ کی بنیاد رکھی تھی بعد میں اسی فیصلے نے نہ صرف ہٹلر کے اقدامات کو تاریخ بنا دیا بلکہ جرمن قوم بھی ایک طویل عرصہ اس جنگ کے نتائج بھگتی رہی ۔ آج بھی ہٹلر کو تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا۔اب ٹرمپ صاحب بھی ہٹلر کے قدموں پر چلنا چاہتے ہیں اور پوری دنیا کو تیسری جنگ عظیم میں دھکیلنا چاہتے ہیں کیونکہ اس دور کی دونوں بڑی قوتوں ( روس ، چین) نے امریکن سوچ کو غلط قرار دیا ہے ۔ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ایران پر لگائی جانے والی پانبدیوں کو ایران نے مسترد کر دیا ہے اور چین نے بھی امریکہ سے احتجاج کیا ہے اسی طرح روس نے بھی امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے جوہری معاہدوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو امریکہ کے لیے یہ خطرناک ثابت ہو گا ۔

ٹرمپ کے اس حکم نامہ پر ٹرمپ کی سوچ سے زیادہ افسوس اُن اسلامی ممالک پر ہوا جنہوں نے اس فیصلے کی خوش آئند قرار دیا کیونکہ اس حکم نامہ پر عمل درآمد پر سب سے زیادہ نقصان ایران کو ہو گا کیسی عجیب بات ہے کہ یہ مسلم ممالک دیگر مذاہب کے ساتھ تو ہاتھ ملانے کو باعث فخر سمجھتے ہیں مگر ایک مسلم برادر ملک کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں یہی وہ نفرت کا بیچ ہے جو آج درخت بن چکا ہے یہ بیچ جن لوگوں نے بویا تھا وہ آج اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نظر آرہے ہیں اس بات کا اس بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ نام نہاد جہاد صرف مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جاری ہے شیعہ سنی کے نام پر جو آگ غیر مسلم ممالک نے بھڑکائی گی تھی اُس کی لپیٹ میں آج تمام مسلم ممالک جل رہے ہیں لیکن ایک بار پھر میں یہی کہوں گا کہ اس بربادی کے ذمہ دار ی پہلے ہم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ ہم مسلمان ہی ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو مواقعے فراہم کیے کہ یہ لوگ ہماری جڑوں میں گھس کر ہمیں نقصان پہنچا سکیں اور سب سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم اچھے شیعہ اور سنی بننے کی ناکام کوشش میں سچے مسلمان نہ بن سکے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر فرقے کے ماننے والے ملیں گے اپنے علماء کا دفاع کرنے کو دوسروں کی جان لینے سے دریغ نہ کرنے والے ملیں گے مگر وہ مسلمان نہیں ملیں گے جن کا تعلق کسی گروہ سے نہ ہو جو صرف قرآن و حدیث کے پیروکار ہوں ۔کہنے والے تو بہت ملیں گے جو خود کو کسی گروہ کا پیروکار نہیں کہیں گے مگر اُن کے اعمال کی چھان بین کی جائے تو بہت سے عمل ایسے درآمد ہونگے جن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ فرقے کی اندھی تقلید ہی ہو گی۔جب تک ہم فرقے کے خول کو توڑ کر خود کو صرف اور صرف مسلمان نہیں بنا دیتے وہ مسلمان جن کے اعمال قرآن و حدیث کی پیروی کی سائے تلے ہوں نا کہ فرقوں کی پیروی میں ہوں تب تک مسلمان ایک کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کو ایک سائے تلے صرف قرآن و حدیث کی پیروی ہی لا سکتی ہے اور ہم کیسے کامیابی کی اُمید کر سکتے ہیں جب ہم وہ سب فخر سے کرتے ہیں جس سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے جیسے خود کو فرقوں سے فخریہ انداز میں منسلک کرنا ہے۔
 

Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 48950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.