گذشتہ روز کراچی کے حلقہ پی ایس 114 کی خالی نشست جوکہ
سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر مسلم لیگ ن کے امیدوار عرفان اللہ مروت کی نااہلی
کی صورت میں خالی ہوئی تھی ضمنی الیکشن کا انعقاد ہوا. جس میں پاکستان
پیپلزپارٹی، ایم کیوایم پاکستان، سمیت مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف،
جماعت اسلامی نے بھرپور حصہ لیا. جبکہ کانٹے کا مقابلہ پاکستان پیپلزپارٹی
کے امیدوار سعید غنی اور ایم کیوایم کے امیدوار کامران ٹیسوری کے درمیان
تھا.
پی ایس 114 سے پیپلزپارٹی کے امیدار سعید غنی نے غیر سرکاری و غیر حتمی
نتائج کے مطابق 23 ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ ایم کیوایم
پاکستان کے کامران ٹیسوری نے 18 ہزار ووٹ لیے اور دوسری پوزیشن پر رہے.
ماضی میں ووٹ میں خود کفیل رہنے والی جماعت ایم کیوایم جو کبھی لاکھ سے کم
ووٹ لینا اپنی توہین سمجھتی تھی آج اٹھارہ ہزار ووٹ پر ماچھتی نظر آئی.
پی ایس 114 کے اِس ضمنی الیکشن کا شروع سے لیکر آخر تک کا جائزہ لیں تو یہ
بات واضح ہوتی ہے کہ حلقے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سعید غنی کی
پوزیشن کافی مضبوط تھی. جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے امیدوار نہ تو اس حلقے
سے تعلق رکھتے تھے اور نہ حلقے سے انھیں مقبولیت حاصل تھی. جبکہ بانی ایم
کیوایم کی جانب سے الیکشن بائیکاٹ کے اعلان نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی.
انتخابات کے روز ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد جب ووٹ کی گنتی شروع ہوئی
اور پولنگ بوتھ سے رزلٹ پیپلزپارٹی کے امیدوار سعید غنی کے حق میں آنا شروع
ہوئے تو یہ بات بالکل واضح تھی کے پیپلزپارٹی کے امیدوار سعید غنی بھاری
اکثریت سے کامیاب ہورہے ہیں. جبکہ ایم کیوایم کے کامران ٹیسوری اُن سے کافی
پیچھے ہیں. تقریباً رات ساڑھے نو بجے تک سعید غنی اور کامران ٹیسوری کے
درمیان دس ہزار ووٹ کا فرق تھا. لیکن اچانک ساڑھے نو سے پونے دس بجے کے
درمیان آنے والے رزلٹ نے ایم کیوایم کے حق میں ایسی کایا پلٹی کہ دس ہزار
کا فرق صرف چھ سو ووٹ کے فرق تبدیل ہوگیا. اِس اچانک تبدیلی نے عوام کے
ذہنوں کو کافی کچھ سوچنے پر مجبور کردیا. اتنا بڑا ووٹ کا فرق اتنی جلدی
کیسے ختم ہوا اس کے پیچھے کیا حقیقت ہے واللہ عالم.
خیر کامیابی پیپلزپارٹی کو نصیب ہوئی اور ایم کیوایم کو شکست کا سامنا کرنا
پڑا.
پیپلزپارٹی کے امیدوار سعید غنی کی جیت دراصل زرداری صاحب کی وہ سیاسی چال
ہے جسے وہ 2018ء کے الیکشن میں بھرپور طریقے سے کیش کرانے کے خواہشمند ہیں.
میرے تجزیے کے مطابق اِس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بلدیات
جیسی اہم وزارت کا قلمدان یا اس سے کہیں زیادہ، سندھ کے وزارتِ اعلیٰ کا
قلمدان مراد علی شاہ سے لیکر نو منتخب امیدوار سعید غنی کو سونپ دیا جائے
گا. اِس طرح سندھ کی تاریخ میں پہلی بار اردو بولنے والا وزیراعلیٰ نامزد
کرکے سندھ میں آباد اردو بولنے والوں کی نہ صرف ہمدردیاں سمیٹی جائینگی
بلکہ کراچی میں سعید غنی ریاستی مشینری اور اختیارات کا بھرپور استعمال
کرتے ہوئے عام انتخابات میں کراچی کی زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی
حکمتِ عملی اپنائیں گے. جوکہ یقیناً پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک موثر حکمت
عملی ہوگی. لیکن اِس کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیوایم پاکستان سمیت اُن
جماعتوں کو ہوگا جو اِس وقت مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار ہیں.
اِس وقت ایم کیوایم پاکستان سمیت کسی جماعت کے پاس مہاجروں کو کچھ دینے یا
انکے مسائل حل کرنے کے لیے وسائل ہیں نہ اختیارات ہیں. ایسے میں یہ جماعتیں
کس طرح 2018ء کے انتخابات میں عوام کو مطمئن کرپائیں گی ابھی فلحال بات
سمجھ سے باہر ہے.
لیکن ایک بات جو سب کے سمجھ آچکی ہے وہ یہ کہ جس طرح کراچی کی سیاست میں
ہنگامی طور پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور جس طرح تین دہائیوں سے زائد
عرصے کراچی پر حکمرانی کرتی ایم کیوایم کا اپنے بانی سے علیحدگی کے سبب
چڑھتا سورج اچانک غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے. اِس سے ایک بات بالکل واضح
ہوجاتی ہے کہ کراچی کی سیاست مہاجر سے شروع ہوکر مہاجر پر ہی ختم ہو جاتی
ہے. دیکھا جائے تو ایم کیوایم پاکستان کی شکست دراصل ایک مہاجر کی جیت ہے.
انیس سال بعد پاکستان پیپلزپارٹی کا پی ایس 114 سے انتخابی معرکہ سر کرلینے
کو پیپلزپارٹی کی کامیابی سمجھنے والے بھی یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں
کہ یہ کامیابی درحقیقت کس کی کامیابی ہے. اور یقیناََ یہ بات پاکستان
پیپلزپارٹی بھی بخوبی سمجھتی ہے کہ آج جو ادھار کی جیت اسے نصیب ہوئی ہے وہ
ادھار جلد یا بدیر اسے کراچی والوں کو واپس لوٹانا ہے.
ایم کیو ایم (پ) کا اپنے بانی سے لاتعلقی کے بعد ہر طرح کے مصنوعی سہارے
ملنے کے باوجود پے درپے سیاسی میدان میں شکست کھانا پارٹی رہنماؤں کے سیاسی
مستقبل کی سنگینی کی جانب واضح اشارہ ہے. حالات نے انھیں ایسے دوراہے پر
لاکھڑا کیا ہے کہ بیچاروں پر آگے کھائی تو پیچھے کنواں والی مثل پوری اترتی
ہے. اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اِنھیں اِس دوراہے پر لانے والا کوئی اور
نہیں بلکہ اِنکا اپنا بانی ہی ہے. لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے
کہ بانی کو اِس نہج پر پہنچانے والا کون ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دماغ میں تو فوراً آجاتا ہے لیکن زبان پر لانے
والے کو ایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کردیتا ہے. اِس لیے جو لوگ اِن سوالوں کے
جواب جانتے ہیں وہ اِس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ اِس سارے کھیل میں
خرابی کہاں ہے اور اِس خرابی کے اصل ذمہ دار کون ہیں. میرا خیال ہے کہ یہ
بات ذمہ دار بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں. لیکن سب کچھ سمجھ کر بھی نا سمجھ بنے
بیٹھے ہیں. کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ معاملات اُن سے بھی باہر
ہیں. بس یوں سمجھ لیجئیے کہ آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریباں نافرمان و
ناخلق بیٹوں کا باپ اپنی عزت بچائے بیٹھا ہے اور کمزور پر ہی اپنا بس چلانے
پر مجبور ہے. یہ سوچے بنا کہ اگر اِسی طرح کمزور پر ڈنڈا اُٹھا کر وقت سے
مہلت لیتے رہے تو وقت بھی آخر کب تک مہلت دیگا. ماضی میں جھانکے تو پتا
چلتا ہے اِسی طرح کے رویوں پر ایک بار پہلے بھی وقت نے مہلت دینے سے صاف
منع کردیا تھا اور انتہائی نقصان اٹھانا پڑا تھا.
اِس لیے اصول یہی ہے کہ جس کا جو بنتا ہے وہ دیدیا جائے. حق تلفیاں بغاوت
کو ہی جنم دیتی ہیں. اور کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو وہ باغی کو تو ختم
کرسکتا ہے لیکن باغیانہ نظریہ کو نہیں. پی ایس 114 کے انتخابات اِسی بات کا
غماز ہیں. حلقہ پی ایس 114 کے عوام نے اپنا نظریہ ڈھکے چھپے انداز میں واضح
کردیا ہے اور سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے.
اگر یہی صورتحال رہی تو وہ وقت دور نہیں جب کراچی کا ہر حلقہ یہی نظریہ
اپناتا نظر آئیگا. اور مصنوعی سہاروں پر کھڑی ایم کیوایم پاکستان اور اس
جیسی دوسری جماعتیں اپنے تمام سہاروں کے باوجود اپنا وجود برقرار نہیں رکھ
سکیں گی. جس کا فائدہ نہ ایم کیوایم حقیقی کو ہوگا نہ نومولود پاک سرزمین
پارٹی کو نہ تحریک انصاف کو اور نہ جماعت اسلامی کو. اِس کا سیدھا فائدہ
پاکستان پیپلزپارٹی ہوگا جو سندھ دھرتی کی مالکِ کل بن کر اقتدار کے نشے
میں ایسی دھت ہو گی کہ پھر کسی کی نہیں سنے گی. جبکہ ساری صورتحال کے اصل
ذمہ دار تو ابھی بےبس ہیں تب کیا کریں گے. اُس وقت انھیں منہ کا بھڑ بھڑا
لیکن دل کا صاف الٹا سیدھا بول کر فوراً معافی مانگنے والا بہت یاد آئیگا.
لیکن یہ کون جانے اُس وقت تک وقت کے پاس مہلت ہوگی کہ نہیں. اِس سارے کھیل
کے ذمہ داروں کو کچھ تو سوچنا چاہیے. |