کراچی کا انتخابی حلقہ 114سیاسی حوالے سے 9جولائی کو
سیاسی میدان جنگ بنا رہا۔ ضمنی انتخاب سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے معمول کی
بات ہے۔ یہ کہیں نہ کہیں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن بعض ضمنی انتخاب اس قدر
اہمیت اختیار کرجاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے ورکروں کے لیے زندگی
اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جیسے علیم عادل خان اور اسپیکر قومی اسمبلی
ایاز صادق کا درمیان ہونے والا ضمنی انتخاب تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون
کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا تھا حالانکہ نتیجہ آجانے کے بعد کوئی
طوفان نہیں آتا، نہ مسلم لیگ نون اور نہ ہی تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ پر
کوئی اثر پڑا ، وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بھلا دیا گیا، جیتنے والا خوش اور
شکست کھاجانے والے کچھ عرصے افسردہ رہتے ہیں پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ ملک میں
پاناما لیکس کے فیصلے اورپھر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے بشمول وزیر
اعظم میاں نواز شریف، ان کے بیٹے ، داماد، سمدی اورآخر میں بیٹی کی پیشی
ہوئی اور ہر پیشی کے بعد جس قدر واویلا ، طوفان بتمیزی، شور غل ، بیہودہ
گوئی، فضول گوئی، ہزہ سرائی دونوں فریقین کی جانب سے کی گئی، اس قدر طوفان
جے آئی ٹی میں پیش ہونے والوں نے نہیں اٹھایا جس قدر ان کے حواریوں اور
درباریوں سر پر اٹھایا۔یہ دور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب
کااضافہ کہلایا جائے گا۔ آج یعنی10جولائی کو جے آئی ٹی کی تحقیقات ختم
ہوئیں آج کسی وقت تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کر دی جائے گی۔ واضح
رہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ، جے آئی ٹی نے تو صرف یہ
رپورٹ پیش کرنا ہے کہ آیا اسے جو کام سونپا گیا تھا اس نے اس میں کیا پیش
رفت کی۔ حتمی فیصلہ عدالت عالیہ نے کرنا ہوگا۔
جے آئی ٹی کی تحقیقات کا آخری دن تھا اسی شور و غوغا میں کراچی میں حلقے
114کا ضمنی انتخاب کا دن بھی آگیا۔ سندھ صوبائی اسمبلی کی یہ سیٹ مشہور
زمانہ سیاسی پہلوان ، سابق صدر پاکستان قبلہ غلام اسحاق خان صاحب کے داماد
جناب عرفان اللہ مروت کو الیکشن کمیشن نے نہ اہل قراردیا جس کے نتیجے میں
ضمنی انتخاب کی نوبت آئی ۔ ادھر کراچی میں عرصہ دراز سے اقتدار میں رہنے
والی ،جس کا طوطی بانگ دہل بولتا رہا ، ہر جماعت کی آنکھ میں شہتیر بنی
ہوئی تھی کے حصے بکرے ہوگئے یا کرادیے گئے جو بھی کہا جائے۔ کسی بھی چیز کا
عروج بہت عرصہ تک قائم رہتا ہے تو اس کی اپنی حرکتوں کے باعث اسے زوال کا
منہ دیکھنا پڑ جاتا ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ یعنی ایم کیو ایم کی شیرازہ بندی
اور اپنے بانی سے ظاہری طلاق ہوجانے کے بعد کراچی میں سیاسی قوت کا مظاہرہ
کرنے کا یہ پہلا موقع تھا، میدان صاف تھا، اکھاڑے کا بھولو پہلوان کمزور
ہوچکا تھا۔ ہر سیاسی پہلوان کے منہ میں پانی بھر بھر کر آرہا تھا کہ اس پر
ہمارا قبضہ ہوجائے ، کوئی سوچتا تھا کہ ہمارا قبضہ ہوجائے۔ آخر9 جولائی کو
میدان سج گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو سندھ میں حکومت میں عرصہ دراز سے ہے
اور کتنے عرصے رہے گی کوئی اس کی پیشن گوئی نہیں کرسکتا اسے شہری علاقے خاص
طور پر لیاری اور ملیر کے علاوہ نمائندگی درکار تھی اس لیے کہ اسے طعنے مل
رہے تھے کہ کراچی کا کوئی اردو زبان بولنے والا وزیر اس کی کابینہ میں
موجود نہیں، اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھر پور قوت کے ساتھ
منصوبہ بندی کی، ایک ایسے شخص کو میدان میں اتارا جو نہ صرف اسی حلقے کا
مکین ہے، اردو بولتا ہے، سینیٹر ہے، پی پی کا جیالا ہے، جیئے بھٹو کا نعرہ
لگانے والا ہے، ان سب خصوصیات کے علاوہ سرکاری کی قوت بھی تو اس کی جھولی
میں تھی، اسے تو میدان مارنا ہی تھا۔متحدہ کے مقابلے میں سعید غنی نے
23ہزار 840جب کہ متحدہ کامران ٹیسوری نے 18ہزار 102ووٹ حاصل کیے۔کامیابی
سعید غنی کا مقدر ٹہری اور متحدہ پاکستان کو شکست ۔
تحریک انصاف بغیر منصوبہ بندی کے میدان مارنا چاہتی ہے،ان کا خیال ہے کہ
اہل کراچی عقل سمجھ سے عاری ہیں۔ اہل کراچی تحریک انصاف کے کراچی کے لیڈر
علی زیدی کے بات کو نہیں بھولے، کپتان کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان کی دوسرے صف
کے تمام لیڈروں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کپتان کے دائیں اور بائیں میں
رہیں، اپنے حلقے میں حتیٰ کہ اپنے شہر میں بھی نہ جائیں کپتان کے ساتھ نتھی
رہیں۔ کراچی میں سیاسی ویکیوم کو کتنا عرصہ ہوگیا، تحریک انصاف کے مقامی
لیڈر نہ معلوم کس خواب غفلت میں کھو ئے رہے، نتیجہ یہی نکلا کہ کپتان کے
کھلاڑی نجیب ہارون نے صرف 5098 ووٹ لیے۔معلوم تھا کہ مقابلہ سخت ہے تو
کپتان کو اس حلقے میں دلچسپی لینی چاہیے تھی لیکن کپتان تو دور کی بات
مقامی لیڈر بھی عدم دلچسپی کا شکار نظرآئے۔سناگیا کہ اس انتخاب میں عرفان
اللہ مروت نے در پردہ تحریک انصاف کی حماعت کی۔ اس سے قبل عرفان اللہ مروت
نے مسلم لیگ نون کو خیر باد کہہ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی
کوشش کی اور آصف علی زرداری صاحب سے ملاقات بھی ہوئی لیکن اللہ بھلا کرے بے
نظیر بھٹو شہید کی بیٹیوں کا کہ وہ اپنے باپ کے اس فیصلے کے سامنے دیوار
چین بن کر کھڑی ہوگئیں اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اپنے والد محترم کو
عرفان اللہ مروت کو پی پی میں داخل ہونے نہیں دیا۔ بچیوں کے والد محترم نے
عافیت اسی میں جانی کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔ اب مستقبل میں عرفان
اللہ مروت کس در پر دستک دیتے ہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا، حالات کچھ کچھ یہ
بتا رہے ہیں کہ یہ کپتان کی جھولی میں جاگریں گے۔اگر ایسا ہوا تو تحریک
انصاف کو فائدہ تو شاید نہ ہو نقصان ہونے کی زیادہ توقع ہے۔
مسلم لیگ نون کی خواہش ضرور تھی کہ کراچی میں جوسیاسی ویکیوم پیدا ہواہے وہ
اس کو پُر کردے لیکن کراچی‘ کراچی ہے، پاناما کے کے فیصلے ، جے آئی ٹی میں
لیڈروں کی پیشی کے بعدمیاں صاحب کے درباریوں کا بیہودہ گفتگو کرنے جیسے
اثرات بھی اہل کراچی پر رونما ہوئے، نہال ہاشمی کے بد زبانی جیسے محرکات نے
حلقہ 114کے مکینوں نے مسلم لیگ نون کو بری طرح مسترد کردیا،علی اکبر گوجر
کی ضمانت ضبط ہوگئی اور وہ صرف 5353ووٹ ہی لے سکے۔ نون لیگ کو اس پر افسوس
اور ندامت بھی نہیں، کراچی سے ان کی عدم دلچسپی کا نیتجہ آج ان کے سامنے
ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ سندھ پی پی سے کوئی نہیں لے سکتا، رہا سوال کراچی کا
تو پہلے یہ متحدہ کا تھا اب یہ متحداؤں میں تقسیم ہوجائے گا۔ رہی بات معصوم
جماعت اسلامی کی، وہ حلقہ جماعت کا کبھی رہا ہی نہیں، اس کے مقدر میں جو
ووٹ ماضی میں تھے وہی اب بھی رہے، یہ بات بھی عیاں ہے کہ جماعت یہ سوچ کر
انتخابات میں حصہ نہیں لیتی کہ اسے وہاں سے جیتنا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ
جیت ممکن نہیں ، سیاسی عمل میں اپنے آپ کو شامل رکھنے کے لیے، اپنے ورکروں
کی تربیت کی خاطر جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔جماعت اسلامی کے
امیدوار ظہور جدون کا 1600 ووٹ لے لینا ہی جماعت کے لیے بڑی بات ہے۔
پی ایس114گزشتہ کئی سالوں سے عرفان اللہ مروت کا حلقہ رہا ہے یہ دوبار وہاں
سے جیت چکے ہیں ایک بار انہوں نے متحدہ کے عبد الرؤف صدیقی کو شکست دی تھی۔
اس حلقے میں موجودہ دور میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں ۔ یہ علاقہ کراچی
ایڈمنسٹریشن سوسائیٹی، بلوچ کالونی، محمود آباد، منطور کالونی، ڈیفنس ویو
اور پی ای سی ایچ ایس کے ایک بلاک پر مشتمل ہے۔ متحدہ یہاں سے1993,1999,
2008
میں یہ سیٹ حاصل کرچکی تھی، اس کے بعد عرفان اللہ مروت نے یہاں ڈیرے ڈال
ڈلیے اور اب اس سیٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔موجودہ ضمنی الیکشن
کا موازنہ 2013کے عام انتخابات سے کریں توتصویر کچھ اس طرح سامنے آتی ہے کہ
عرفان اللہ مروت نے جو مسلم لیگ نون کے امیدوار تھے لیکن انہیں تمام ووٹ
اپنے ذاتی محنت اور کا وش کا نتیجہ تھا اس وقت انہیں 37130ووٹ ملے تھے ان
کے مقابلے میں متحدہ کے رؤف صدیقی کو 30305ووٹ ملے تھے، تحریک انصاف کے
اسرار عباسی کو 13807اور پی پی کے سجاد احمد پپی کو 3827ووٹ لیے تھے۔ اس
اعتبار سے پی پی نے اس حلقے میں اپنی پوزیشن کو بہت زیادہ مستحکم کیا ،
وجوہات بہت واضح ہیں جن کا اوپر ذکر بھی کیا گیا ۔ جہا ں تک متحدہ پاکستان
کا تعلق ہے ، متحدہ کا یہ دھڑا جن حالات اور مسائل سے گزرتا ہوا یہاں تک
پہنچا ہے اس صورت حال میں جو ووٹ اس نے لیے وہ غنیمت ہیں یعنی2013کے
انتخابات میں اس سیٹ پر 30,305ووٹ لیے تھے اب 18,102ووٹ یعنی پیلے کوئی
12,203ووٹ کم ملے۔ شکست کی اہمت اتنی نہیں جتنی اس بات کی اہمیت ہے کہ جن
مساعد اور مشکلات کا سفر طے کر کے اس نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا ۔ اس کو
سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی غنیمت ہے۔ اس کی تو ضمانت ضبط
ہوجانی چاہیے تھی ۔ آخر میں’ شہکار ‘ کے تجزیہ نگار رضا شاہ جیلانی کی اس
بات پر اختتام کرتا ہوں کہ ’’یہ ضمنی الیکشن سے زیادہ ٹیسٹ ٹرنسمیشن تھی وہ
بھی ایم کیو ایم ۔۔۔پاکستان کے لیے ورنہ مہاجر وقومی موومنٹ کبھی میدان میں
نہ آتی اور نہ ہی ’پی ایس پی‘ کے مصطفیٰ کمال خاموش رہتے‘‘۔رضا نے کراچی سے
دور لاڑکانہ میں بیٹھ کر بہت گہری اور پتے کی بات کی ہے۔ سیاسی سوچ اور
سمجھ بوجھ رکھنے والے رضا کی اس رائے سے کراچی کی سیاست کا اندازہ بخوبی
لگا سکتے ہیں
|