جے آئی ٹی رپورٹ‘ میاں صاحب مشکل میں

10جولائی 2017پاکستان کی سیاست کا ایک تاریخی دن۔ تیسری مرتبہ وزارت اعظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے میاں محمد نواز شریف پاناما لیکس کے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوجانے کے بعد مشکلات میں اس بری طرح پھنس چکے ہیں کہ نہ نگلے چین نہ اگلے چین والی کیفیت ہوکر رہ گئی ہے۔بڑے جتن کیے، ہر ہربہ استعمال کیا، آزمایا لیکن کچھ بھی کام نہ آیا۔ میر تقی میرؔ کی معروف غزل کے دو اشعار ؂
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کاکم کیا
دیکھا اس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا

جے آئی ٹی کی خطر ناک، غضب ناک اور قہر ناک رپورٹ چند دونوںیا چند ہفتوں میں نہیںآئی بلکہ جے آئی ٹی نے 60دن بغیر چھٹی اور بغیر وقفے کے بڑے میاں صاحب ، چھوٹے میاں صاحب، بیٹوں ، بیٹی ،سمدی اور فیملی کے دیگر احباب کو ایک ایک کر کے ، بعض بعض کو کئی کئی بار بلا کر،سچ اگلوانے ، حقیقت بلوانے، صحیح دستاویزات جمع کرانے کے کیا کیا جتن نہ کیے ۔جب بھی مطلوب شخص جے آئی ٹی کی یاترا کر کے باہر نکلتا ، حوائیاں اڑی اڑی، پریشان، حیران، متردد، متفکر، منتشر و پراگندہ سوچ لیے ،جے آئی ٹی کو بر ا بھلا کہتا ، ہائے ماراگیا ، مارا گیا، ظلم ہوگیا ، جے آئی ٹی نے ظلم کا پہاڑ توڑ دیا وغیرہ وغیرہ۔ اس سے زیادہ اس کے ہمدرد اور درباری جے آئی ٹی کے بارے میں دوھائی دیا کرتے نظر آیا کرتے۔ حیرت اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب پاناما کیس چل رہا تھا تو سپریم کورٹ کے سامنے کہا جاتا رہا کہ کوئی انکوائری کمیشن یا کمیٹی بنائیں ہم اس میں اپنی بے گناہی ثابت کریں گے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنادی ،جے آئی ٹی نے تحقیقات شروع کی، متعلقہ ملزمان کو سمن کیا ، تو چیخ پکار شروع ہوگئی کہ جے آئی ٹی کے ارکان غیر جانب دار نہیں، جے آئی ٹی کے دو ارکان پر تحفظات کا اظہار شروع ہوگیا ، جے آئی ٹی نے اپنی کاروائی جاری رکھی، چیخ و پکار اور واویلا بدستور ہوتا رہا، حتیٰ کہ نون لیگ کے بعض وزراء شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ مریم نواز کی پیشی کے موقع پر نون لیگ کے ایک اہم درباری کو بری طرح باولوں کی طرح دوڑتے ہوئے دیکھا گیا، اس کی بھر پور کوشش تھی کہ کسی بھی طرح اس کی میڈیا کوریج اس طرح ہوجائے کہ وہ مریم نواز کی پیشی پر ان کے دائیں بائیں نظر آجائے۔ یہی صورت حال ہر پیشی کے بعد پریس کانفرنس کرنے والے وزراء کی تھی کہ ایک سے ایک بڑھ کر خراب سے خراب تر زبان استعمال کرنے میں بازی لے جا نے کی کوشش ۔عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ نمبر بنانے کی کوشش میں ہر ایک لگا ہوا تھا۔جو وزیر انہیں وزیر بن جائے، جو وزیر ہے اسے میاں صاحب کی قربت حاصل ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نون لیگ اور میاں نواز شریف کی فیملی نے یہ سمجھا کہ جے آئی ٹی ان کی حکمرانی کے ڈر و خوف میں آجائے گی۔ جب کہ صورت حال مختلف ہوئی ، جے آئی ٹی نے 60 دن سخت محنت کی، تمام ملزمان طلب کر کے ان سے تحقیق کی گئی ، اس کے علاوہ اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوے ثبوت اکھٹا کیے گئے۔ رپورٹ کو مسترد کرنا تو نون لیگ نے تھا ہی لیکن جو حقیقت ہے وہ اپنی جگہ اٹل ہے۔ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی گئی، یہ رپورٹ میاں صاحب کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ، فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرنا ہے اس رپورٹ کی بنیاد پر ، اس لیے کہ یہ تحقیقاتی کمیٹی سپریم کورٹ نے ہی تو تشکیل دی تھی ، وہ اس کی رپورٹ کو اہمیت دے گی، اس کا ہر پہلو سے جائزہ لے گی پھر کوئی فیصلہ سامنے آئے گا۔ رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر آچکے ، رپورٹ 10جلدوں پر مشتمل ہے ، آخری جلد کو عام نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ شریف فیملی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں، آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے لندن کی خسارے میں چلنے والی چھ آف شور کمپنیوں کو مہنگی جائیدادیں خریدنے اور رقوم منتقلی کے لیے استعمال کیا گیا، کمپنیاں 80۔90کی دہائیوں میں بنیں جب نواز شریف کے پاس عوامی عہدہ اور اپنا پیسہ بہت کم تھا ، ملکی اور غیر ملکی اداروں سے رقوم حاصل کی گئیں، کمپنیاں بند پڑی تھیں یا خسارے میں تھیں، نیلسن اور نیسکول کی اصل مالک مریم نواز ہیں، جے آئی ٹی کو تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ قبلہ نواز شریف امارات میں ایک آف شور کمپنی ایف زیڈ کیپیٹل کمپنی کے چیئمین بھی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں شریف فیملی کی 6آف شور کمپنیوں سے پاکستان رقوم بھیجنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، نیب قوانین کے تحت کاروائی کی جاسکتی ہے۔ اس دوران ریکارڈ ٹمپرنگ کرنے کاواقعہ سامنے آیا جس پر سپریم کورٹ نے چیئمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایات جاری کیں اور ان پر مقدمہ درج بھی ہوگیا ، انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی جمع کرادی ہے۔حکمراں اس کیس میں بھی شامل تفتیش ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ظفر حجازی کی کیا جرت کہ وہ اس موقع پر ایسا کرے۔ یقیناًہدایات کہیں اور سے آئی ہوں گی۔ ظفر حجازی صاحب عمر کے جس حصے میں ہیں وہ زیادہ وقت نہیں لگائیں گے سچ بولنے میں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ جوں ہی سامنے آئی مسلم لیگ نون کی صفوں میں صف ماتم بچھ گئی، پہلے تو سناٹا چھا گیا، خاموشی نظر آئی، پھر جیسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد بغیر یہ جانے کہ فیصلہ کیا ہے نون لیگیوں نے میٹھائیاں تقسیم کرنا شروع کردیں ، حالانکہ پانچ میں سے دو ججوں نے میاں صاحب کو واضح طور پر قرار دیا تھا کہ وہ اب صادق اور امین نہیں رہے۔کسی نون لیگی نے اُس وقت یہ تبصرہ بھی کیا تھا کہ ’گولی کنپٹی کو چھوتی ہوئی گزرگئی، ‘ یعنی اس وقت بھی یہ احساس نون لیگیوں میں پایا جاتا تھا کہ میاں صاحب فائر بھی ہوسکتے تھے۔ وہ میاں صاحب کے لیے بہت ہی اچھا وقت تھا ، دو ججوں کے فیصلے کو بنیاد بنا کر وزارت عظمیٰ سے الگ ہوجاتے، اپنے ہی بھائی، بیٹی، بھتیجے یا سمدی جی کو یہ ذمہ داریاں سونپ دیتے ۔ حکومت تو نون لیگ کے پاس ہی رہنا تھی، ان کی عزت و توقیر میں ڈھیروں اضافہ ہوجاتا ، اگر رپورٹ یہی آتی تب بھی ان پر اس قدر انگلیاں نہ اٹھتیں جس قدر اب اٹھ رہی ہیں۔ اصل الزام تو اپنی جگہ نئے نئے الزامات اور شامل ہوگئے ہیں، قطری خط کا سہارا لینے کی ناکام کوشش کی، آف شور کمپنی موجود جس کا کہی ذکر نہیں، کمپنی سے کروڑوں روپے تنخواہ لینے کا الزام وغیرہ۔ اب میاں صاحب کو ان کے مشیران بہ تدبیر کیا مشورہ دیتے ہیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا، لمحہ موجود کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ذہن اس طرف ہی جارہا ہے کہ اگر میاں صاحب نے سپریم کورٹ میں جانے اور قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ فیصلہ پی پی کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی جیسا نہ آجائے۔ میاں صاحب کے مشیرِ خاص عرفان صدیقی نے مریم نواز کو تقریر تو بہت عمدہ لکھ کر دی تھی جسے مریم نواز نے خوبصورتی اور مہارت کے ساتھے پلے بھی کردیا تھا۔ اب بھی انہیں اور دیگر سنجیدہ مشیران جیسے وزیر داخلہ کو سنجیدہ مشورہ ہی دینا چاہیے۔ سنجیدگی ، برد باری اور ملک و قوم کے مفاد میں جو بہتر ہو اس پر عمل ہونا چاہیے۔ کل سے جو کچھ میڈیا پر ہورہا ہے، اخبارات میں رپورٹ کیا جارہا ہے ۔ میاں نواز شریف نون لیگیوں کے وزیر اعظم نہیں ہیں وہ پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ہیں ۔ ان کے خلاف جس قسم کی باتیں میڈیا میں کھلم کھلا ہورہی ہیں ان سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے، سعد رفیق ، طلال چودھری، مریم اونگ ذیب، نہال ہاشمی، خواجگان عمران خان کے خلاف جو کچھ بھی کہیں ، سخت سے سخت الفاظ اور جملے استعمال کریں ، یہ عمل الٹا ان کے خلاف ہی جاتا ہے، عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ نون لیگی بد زبان ہیں، ان کا کام میاں صاحب کی پوزیشن کو خراب کرنا ہے نیک نام کرنا نہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جاچکی جہاں اس کیس کی سماعت ہوگی ، گویا یہ مقدمہ ابھی کورٹ میں ہے ا س کے بارے میں کسی بھی قسم کی رائے دینا عدالت کے وقار کے منافی ہے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے مشیران کو بلاوجہ زہر اگلنے سے منع کردیں۔خواجہ سعد رفیق صاحب نے فرمایا کہ اس کا ڈائیریکٹر ملک سے باہر ہے، اداکار ملک میں ہیں عمران خان بنیادی کردار ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے تجزیہ نگار ان کے اس اشارے کو دنیا کے اہم اور بڑے ملک سے جوڑ رہے ہیں، بلاوجہ اپنے گھر کی لڑائی میں باہر کی دنیا میں دوستوں کو شامل کرنے کی۔ اگر آپ اتنے ہی بہادر ہیں تو اشاروں کناروں میں بات نہ کریں کھل کر نام لیں، بہادر آپ ہیں نہیں، چلانے سے، منہ بگاڑ بگاڑ کر فضول قسم کی گفتگو سے بات بنتی نہیں بگڑتی ہی ہے۔ عمران خان تو اپوزیشن میں ہے ، زرداری صاحب اپوزیشن میں ہیں ان کا کام تو حکومت کے ہر کام میں کچھ نہ کچھ نکالنا ہی ہے۔ حکمرانوں کا طرز عمل مختلف ہوا کرتا ہے۔ یہاں حکمران ٹولا لگتا ہے حزب اختلاف میں ہے۔ جب آپ کے پاس اپنا دفعہ کرنے کو ٹھوس دلائل نہیں تو ٹاک شو زمیں کیوں آتے ہو، آئی بائیں شائیں کرنے کے لیے۔ اپنی پوزیشن تو بگاڑتے ہی ہو پوری جماعت کی پوزیشن خراب ہورہی ہوتی ہے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ خواہ جو بھی فیصلہ کریں، قانونی جنگ لڑنے کا یا حالات کو دیکھتے ہوئے بہ عزت طریقے سے کوئی اور فیصلہ ، جس سے پاکستان اور پاکستانی قوم کا وقار مجروح اور گھائل نہ ہو جلد از جلد کر لیں تاکہ دنیا میں پاکستان کی جو جگ ہنسائی اور رسوائی ہورہی ہے وہ بند ہوجائے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437266 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More