جس کا شدت سے انتظار تھا بالآخر وہ انتظار بھی ختم ہوا
چونکہ پانا ما پیپرز لیکس کی تحقیقات پر مامورسُپریم کورٹ کی قا ئم کردہ جے
آئی ٹی اپنا کام مکمل کرچکنے کے بعد اپنی رپورٹ سُپر یم کورٹ کو پیش کرنے
کے بعد تحلیل ہوچکی ہے ،جبکہ یہ بڑی حیرت اور حیران کُن بات ہے کہ
غیرجانبدار جے آئی ٹی یا تحقیقاتی ٹیم کی سُپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ
کو حکومت’’ میں نا مانوں کی ضداور ہٹ دھرمی ‘‘ پر آڑ کر ڈنکے کی چوٹ پر
مستر د کرنے کا اعلان بھی کرچکی ہے،تاہم، سیاسی مبصرین اور تجزیہ کارموجودہ
صورتِ حال میں مستقبل قریب میں مُلکی سیاست میں بڑے تباہ کن سیا سی طوفانوں
کے پیداہونے اور بہت سے انوکھے اور قابلِ افسوس واقعات کے رونما نے ہونے کے
خدشات کو بھی خارج ازامکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔
بہرحال، ہمیں یہاں حکومتی رویوں اور ہٹ دھرمی اور میں نا مانوں کی ضد سے
مُلک میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کیفیت میں یہ نقطہ بھی ضرور ذہن نشین
رکھنا پڑے گا کہ یہ توہمارے مُلکِ پاکستان کی سترسالہ تاریخ گواہ ہے کہ
ماضی میں بھی جب کبھی کسی بھی قومی معاملے کی کھوج لگا نے اور اصل حقائق سے
پردہ چاک کرنے کے خاظر جتنی کمیٹیاں یا کمیشن بنا ئے گئے سب ہی اپنے
مخالفین کی نظرمیں اور اِن کے نزدیک متنازع ہی رہے یا دیدہ دانستہ بنا دیئے
گئے ہیں ،گو کہ اَب ہمیں اِس سے قطعاَانکار نہیں کرنا چا ہئے کہ ما ضی و
حال کی طرح اَب مستقبل میں کسی بھی قومی معاملے کی جا نچ پڑتال کے لئے جتنی
بھی کمیٹیاں ، کمیشن اور جے آئی ٹی بنائی جا ئیں گیں وہ بھی اپنے قیام کے
پہلے ہی روز سے (حالیہ جے آئی ٹی کی طرح ) متنازع بنا دی جا ئے گیں جیسا کہ
آج پا نا ماپیپرز لیکس کی جے آئی ٹی کے ساتھ ن لیگ کی حکومت کی جا نب سے
کیا گیا ہے، اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پانا ماپیپرز لیکس کی
تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو نواز حکومت کے کارندوں نے اپنے سربراہ
نوازشریف کی آف شور کمپنیوں کو چھپا نے کے لئے متنازع بنا نے کے لئے ایک
لمحہ بھی ضیا ئع نہیں کیا ہے ہاں البتہ، یہ جے آئی ٹی حکومت کے لئے متنا زع
اُس وقت ہرگز نہیں ہوتی جب اِس میں شامل افراد اِس کی مرضی کے ہوتے اور
حکومت کے ہی قصیدہ گو ہوتے اور اِس کی ہی چمچہ گیری میں لگے رہتے، ہر پیشی
پر بند کمرے میں نوازشریف اور خاندان کے افراد کو بلاتے اور چا ئے پا نی
پلاتے گپ شب کرتے اور ہنسی مذاق کرکے وقت گزاری کرتے اور میڈیا کے سا منے
بھڑکیاں مارکرسب چلے جا تے ، تو حکومت پہلے ہی روز سے جے آئی ٹی کو متنا زع
نہ بنا تی بلکہ متنازع بنانے کا سوچنابھی اپنے لئے گناہ ِ عظیم سمجھتی ،چونکہ
ایسا نہیں ہوا جیسا حکومتی چاہتی تھی بلکہ حکومت نے پانا ماپیپر زلیکس کی
تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی لیبارٹری کے جیدکھوجیوں اور انکشافیوں کو
متنازع یوں بنایا کہ وہ اپنے کام میں غیرجانبدار تھے اوراول روز ہی سے یہ
تمام حضرات اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دینے میں اپنی اپنی اچھی
شہرت اور بلند مقام رکھتے تھے، اِنہیں بھی حکومت کی جا نب سے متنازع اور
سازشی کتھ پتلیوں کے اشاروں پر چلنے اور سازشی عناصر کا حصہ بنا ئے جا نے
کا عمل حکومتی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت تھا اور اَب آگے آگے دیکھئے کہ
حکومتی بوکھلاہٹ اور وزیراعظم کو اِن کے عہدے سے استعفیٰ نہ دینے والی ضد
پر قائم رکھانے والے خوشامدی وزرا ء اور حکومتی اراکین کی ہٹ دھرمی آنے
والے دِنوں میں مُلک میں کیسا خطرناک اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی بھونچال
پیداکرتی ہے؟جبکہ اِن سب کے حصے میں سوائے کفِ افسوس کے کچھ نہیں آئے گا جس
کی ساری ذمہ دار نوازحکومت اور اِس کے ناعاقبت اندیش وزراء اور حواریوں پر
ہی ہوگی اور یہی مُلک میں جمہوری بساط کو پلٹا ئے جا نے کے بھی ذمہ دار ہوں
گے ۔
تاہم یہاں بیشک یہ امر قابلِ ستائش اور لا ئقِ احترام ضرور ہے کہ آج مُلکِ
خداداد پاکستان میں ایک غیر مُلکی فرم کے انکشافات کے بعد پہلی مرتبہ برسرِ
اقتدار حکمران کے ظاہر و با طن کھلے اور چھپے اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کی
تحقیقات کے لئے سُپریم کورٹ کی جا نب سے پانا ما پیپرزلیکس کی جا نچ پڑتال
اور تحقیقات کے لئے بنا ئی جا نے والی مشترکہ انویسٹیگشن تحقیقاتی ٹیم (جے
آئی ٹی) نے پیر10جولا ئی 2017ء کو مُلکی تاریخ کے سب سے عجیب و غریب اور سب
سے بڑے اور انوکھے بزنس ما ئنڈ مگر آف شور کمپنیوں کے مالک اور مُلکِ
پاکستان میں خودساختہ بادشاہت قائم کرنے والے اپنے پہلے حکمران نوازشریف کے
کیس کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ سُپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی پینچ کو پیش
کردی ہے اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے جا بجا واضح لفظوں میں درج کیا ہے اور
چیخ چیخ کر کہاہے کہ ’’شریف فیملی کے اثاثے آمدن سے کہیں زیادہ
ہیں‘‘اوروزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حُسین نوازاور حسن نواز کے خلاف نیب
میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی ہے، اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی رپورٹ
میں درج ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے لندن کی خسارے میں چلنے والی
6آف شورکمپنیوں کو مہنگی جا ئیدادیں خریدنے اور رقوم منتقلی کے لئے استعمال
کیا گیا،حدتو یہ ہے کہ پچھلے20سالوں میں اِن کمپنیوں کا کو ئی منافع نہیں
ہے،مگر نوازشریف، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کے اثا ثے نہ صرف
ذرائع آمدنی سے زیادہ بلکہ ڈیکلئر ڈاثاثوں اور ڈیکلیئرذرائع آمدنی میں بھی
واضح فرق ہے، رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ بڑے تعجب اور حیرت کی بات یہ بھی
ہے کہ ساری کمپنیاں90-80کی دیاہیوں میں بنیں جب ضرورت سے زیادہ بزنس ما
ئنڈوزیراعظم نوازشریف کے پا س عوامی عہدہ اور اپنا پیسہ بہت کم تھا،جبکہ
کمپنیاں بند پڑی تھیں یا خسارے میں تھیں پھر دھڑادھڑ مُلکی اور جھولیاں
جھولیاں پھیلا پھیلاکرغیرمُلکی اداروں سے رقوم حاصل کی گئی ، جے آئی ٹی نے
اپنی رپورٹ میں کھل کراِس جا نب بھی نشاندہی کی ہے کہ کمپنیوں کے ذریعے
پیسہ برطا نیہ، سعودی عرب، پاکستان اور یو اے ای گھومتارہا، قرض اور تحفے
کی شکل میں بڑی رقوم کی ترسیل ہوئی، نیلسن نیسکول کی بینیفشری مالک مریم
نواز ہیں، جعلی ٹرسٹ ڈیکلیئر یشن جمع کرا ئے گئے،شریف خاندان واضح طور
پرذرائع آمدن ثابت نہیں کرسکا ہے،اور ایسے بہت سے انکشافات کے بعد جے آئی
ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ، وزیراعظم کے گوشواروں میں بے ضابطگی ہے
اور اثاثے چھپائے گئے ہیں شریف خاندان کو مجرم تصورکیا جائے ‘‘آج جے آئی ٹی
کی رپورٹ میں درج سارے حقا ئق کے جھٹلانے کے لئے حکومت آستینیں چڑھا کر
سڑکوں پر نکلنے اور سپریم کورٹ میں قانونی اور آئینی جنگ لڑنے کا تہیہ
کررکھاہے۔
جبکہ مُلکی تمام اپوزیشن کی بڑی چھوٹی سیا سی اور مذہبی جماعتیں موقعہ
غنیمت جان کر نوازشریف سے استعفے کا زوروشعور سے مطالبہ کرکے اور استعفے تک
سڑکوں پر احتجاعی تحاریک چلا نے کا پروگرام ترتیب دے رہی ہیں یقینا یہ اِس
طرح اپنا اپنا سیاسی قدتو اُونچا کرہی لیں گیں مگر یہ بھی بڑی حیرت کی بات
ہے کہ آج پاکستانی قوم کا بچہ بچہ چیخ چیخ کر اپنے وزیراعظم نوازشریف سے
مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کررہاہے کیو نکہ وہ بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ
اَب حکومت چا ہئے جے آئی ٹی کی سُپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ ما نے یا نہ
ما نے اور اَب اپنی ہٹ دھرمی پر قا ئم رہ کر چا ہئے اِسے مسترد کرنے کے
لاکھ جتن کرلے، اور جھوٹ پہ جھوٹ بول کر خود کوپکا اور سچا صادق و امین ثا
بت کرنے کی کوششیں کرڈالے مگردراصل حق و سچ تو یہی ہے کہ جو 10جولا ئی
2017کوجے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں وہ تمام رازوں اور سو پرووں میں چھپے
ہوئے پاناما پیپرزلیکس کے آف شورکمپنیوں کے جھوٹوں کے سارے جھوٹوں کو سچ کا
آئینہ دِکھا کرساری دنیا کے سا منے سچ و حق آشکار کردیاہے، اور اَب اِس کی
پاداش میں بس ساری پاکستانی قوم کاہر با شعورفرد اور شہری اپنے وزیراعظم
نوازشریف سے استعفے کا سوال کرتا ہے بابا، تاکہ وزیراعظم دیں استعفیٰ توہو
بھلا،اور درحقیقت بھلا ئی بھی وزیراعظم کے مستعفی ہونے میں ہی ہے اِس کے
بغیر اِن کے پا س کوئی اور چا رہ بھی تو نہیں ہے ، اَب یہ اور بات ہے کہ یہ
اپنے استعفے کو اپنی نا ک اور اَنا کا مسئلہ بنا لیں توخا ص طور پر اِنہیں
یہ نقطہ معلوم ہونا چا ہئے کہ جے آئی ٹی بھی تو سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ
تھی یہ ٹھیک ہے یہ مقررہ مدت میں اپنا کام صاف و شفاف اور خالصتاََ نیک
نیتی کی بنیادوں پر مکمل کرنے کے بعد اَب یہ تحلیل ہوچکی ہے مگر اِس کے
اراکین اور جانچ پڑتال کے طریقے کارپر سوالیہ نشان لگا نے اور اِسے مسلسل
متنازع بنا ئے جا نے کے عمل نے بھی اِسے اپنا کام کرنے سے نہیں روکا یہ
اپنا کام کرتی رہی اور بالآخر یکسو ئی سے اپنے اہداف حا صل کرنے میں کا میا
ب ہو کر سُرخرو ہوگئی مگر حکومت کی جا نب سے مسلسل اِس کی کارکردگی اور کام
کے حوا لوں سے پوچھے گئے سوالات کو کسی کی سازش قرار دینا حکومت کی صریح
غلطی تھااور اَب رپورٹ کے آجا نے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کا اپنے عہدے سے
استفی ٰ نہ دینا بھی یہ وا ضح اشارہ کرتا ہے کہ اِس طرح بات بننے کے بجا ئے
مزید الجھتی ہی چلی جا ئے گی ، اور مُلک میں بے یقینی اور محاذ آرا ئی کی
جو صورت ِ حال پیدا ہوچکی ہے اِس میں کمی کے بجا ئے اُلٹا اضا فہ ہی ہوتا
چلا جا ئے گااِس بنا پر آج پوری پاکستانی قوم کے پاس اپنے بزنس ما ئنڈ اور
امیر المومین بننے کے خواہشمند وزیراعظم مسٹر نوازشریف سے اِس کے سِواکو ئی
دوسرا مطالبہ اور کوئی دوسری خواہش بھی تو نہیں ہے، قبل اِس کے کہ 17جولائی
2017آجا ئے، اور سُپریم کورٹ میں ٹرا ئلز کے لئے وزیراعظم اور اپنے ضرورت
سے زیادہ سیاسی شارپ ما ئنڈ پینترے بازوں کے ہمراہ حا ضری ہوں، وزیراعظم
نوازشریف اپنی عزت و احترام اور وقار میں اضافہ کرنے یا اپنی آف شور
کمپینیوں کے ایشوسے قبل والی اور 10جولائی 2017 سے پہلے والی عزت اور
احترام کو برقرار رکھنا چا ہتے ہیں تو اِنہیں ہر حال میں چا ہیئے کہ یہ
فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جا ئیں اور پھر سُپریم کورٹ میں ہونے
والی سترہ جولائی کی پیشی میں اپنی صفا ئی پیش کرنے کے لئے حاضرہوں تو بات
ہی کچھ اور ہوگی ،ہاں ناں ، بس اتنے سے ایک عمل سے یعنی کہ اپنے استعفے کے
بعد سپریم کورٹ میں حاضری کا ساراکریڈیٹ وزیراعظم نوازشریف کو ہی جا ئے گا
،اور قوم کا اِن پر اعتماد بحال ہوگا کہ وزیراعظم نوازشریف مُلک میں حقیقی
جمہوریت اور قا نون کا ہی استحکام چاہتے ہیں تب ہی وزیراعظم اپنی حکومت کے
وزراء مشراء اورپارٹی عہدے داروں اور کارکنان کے استعفیٰ نہ دینے کے مشوروں
کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی ذات کو مُلک میں خالصتاََ جمہوری اور قا نونی
بالادستی کا مرکز و محور گردان کر اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوئے اور سپریم
کورٹ میں جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کی صفا ئی پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے
ہیں۔ |