جمہوریت یا آمریت ؟خدارا بس کردو ۔

آج کل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ بیانات عام ہیں کہ "حکومت قوم کو بتائے کہ ان کے خلاف سازش کہاں سے ہورہی ہے؟" جو سیاستدان حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں ان میں تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما شامل ہیں ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ جماعتیں اس قدر نہ سمجھ نہیں ہیں کہ وہ حکمران جماعت کے ان اشاروں کو نہ سمجھتے ہو، یعنی وہ کس پر گھما پھرا کر بات کرنا چاہتے ہیں ! حکمران جماعت کو کہاں سے اشارے مل رہے ہیں یہ سچ ہے کہ جھوٹ ! یہ ایک الگ معاملہ ہے مگر مطالبہ کرنے والی جماعتیں یہ ضرور چاہتی ہیں کہ یہ بات حکمران جماعت سے ڈائریکٹ پوچھ کر ان کی مشکلات میں مزیداضافہ کیا جائے اور اس طرح عوام میں اداروں پرسرعام تنقید کرواکر حکومت کو بے نقاب کردیاجائے جس کے لیے یہ اپوزیشن جماعتیں حکمران جماعت کی جانب سے ان اداروں کے معاملے میں ہونے والی زیادتیوں کا تزکرہ بھی کرتے ہیں یعنی نواز لیگ کی جانب سے ماضی میں کیا جانے والا سپریم کورٹ پر حملہ وغیرہ ،سپریم کورٹ کا ادارہ یقینا قابل احترام ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے دیکھا اور سنا کہ بڑے بڑے سیاستدان فوج اور سپریم کورٹ کے خلاف بات کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے رہے ،اور ہمیشہ ان اداروں کے لیے اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے بھی ہچکچاتے رہے کہ کہیں ان کے تجزیوں میں ان اداروں سے متعلق کوئی گستاخی سرزد نہ ہوجائے ،یقیناً یہ خوف ہر شہری کے دل میں نمایاں طورپر دیکھا جاسکتا تھافوج کے خوف کی وجہ کیا یہ ہے کہ وہ اسلحے سے لیس ہیں؟اور کسی سے نہ ڈرنے والے بہادر لوگ ؟ یا ماضی میں جس انداز میں جمہوریت کی بساط لپیٹ کر اقتدار میں آنے والے لوگ؟ ۔ یا ہر سو پھیلے پاک فوج کی بہادری کے چرچے ؟ ۔یقیناً اس بات میں کوئی شک کرنا بھی وطن عزیزسے غداری کے مترادف ہوگا کہ ہماری فوج سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ ملکی اقتدار میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے ؟ ۔اگر ایسا ہوتا تو جن نیتوں کے حکمران اس ملک کو نصیب ہوتے رہے ہیں وہ کب کا اس ملک کو بیچ کر کھاجاتے مگر کثر پھر بھی کوئی نہیں ہے ،یہ فوج کی ہی مہربانی ہے کہ ان کا خاموش ڈنڈا بھی حکمرانوں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہے اور اس ملک میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ آمریت کے زمانے میں ہی ہوئی اور لوگ آج بھی ایوب اور مشرف کے دور کی اچھائیاں یاد کرتے ہیں ماسوائے چند مٹھی بھرخاندان کے ۔دوسری جانب یہ عدلیہ ہی ہے جس نے انصاف کے معاملے میں حکمرانوں کی پیشیاں لگارکھی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ سپریم کورٹ جس کے معاملے میں بات چیت میں پوری پریس ریلیز کو بار بار دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں اس ساری تحریر میں کوئی ایسا جملہ تو نہیں لکھا گیاجو توہین عدالت کے مترادف ہو،۔ہم ہر بات میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی عدلیہ پر یقین ہے ہمیں امید ہے کہ عدلیہ فلاں فلاں معاملے میں انصاف کریگی وغیرہ وغیرہ ،کچھ عرصہ قبل ایک نیوز چینل میں دیکھا کہ ایک قتل کے مجرم کو 17سال بعد باعزت بری کردیا جاتاہے اس پر کوئی جرم نہیں ثابت ہوتا مگر اس شخص کے گرفتار ہونے کے بعد اس کیس کو سترہ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے ؟ یقینا اس آدمی کی زندگی کے خوبصورت ماہ وہ پل چلے گئے اس کا خاندان جس کا وہ واحد کفیل تھا وہ بھی اس کے ساتھ ہی تباہ ہوگیا۔اس کیس میں سارا قصور عدلیہ پر نہیں ڈالا جاسکتا بہت سے ایسے معاملات ہوتے ہیں جو ایسے کیسوں کی طوالت کا سبب بنتے ہیں، پھر بھی غلطیاں کس سے نہیں ہوتی اور اﷲ کے سوا پیغمبروں سے بھی غلطیاں سرزدہوتی رہی ہیں،یقیناً اس ملک کی عدالتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور یہ ادارہ بھی فوج کی طرح پاکستان کا ایک مظبوط ادارہ ہے جو ملک کی مظبوطی اور ایک آزاد مملکت کی علامت ہے جس طرح ملکی سرحدوں پر بیٹھی افواج پاکستان کے سپاہیوں کی وجہ سے ہم اپنے اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں بلکل اسی طرح اس ملک کی عدالتیں بھی کسی طاقتور کو کمزور پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف اپنا بھرپور کردارادا کررہی ہے اور ہر امیر و غریب کو یکساں انصاف مہیا کیا جارہاہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل حکومت بڑے عہدیداران سے لیکر چھوٹے موٹے چمچوں کے سب ہی ان دونوں اداروں کی تضحیک کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں ادارے جو ملکی تاریخ میں اپنی خدمات اور عوامی مقبولیت کے باعث ہر ایک کے دل میں اپنی جگا بنائے ہوئے ہیں ان اداروں کو حکومت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے شریف برادران اور ان کی ٹیم کی جانب سے جے آئی ٹی پر جس انداز میں مسلسل ساٹھ دن تک تنقید کے نشتر برسائے جاتے رہے ہیں اسے کون نہیں جانتا اور اب جب جے آئی ٹی اپنی مدت کے آخری ایام کو پہنچتی ہے تو جہاں سپریم کورٹ کو باور کروانے کا ایک سلسلہ چل نکلتاہے وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کو ایک خدشہ اور لاحق ہونے لگتا ہے کہ اس ملک میں ایک اور معتبر ادارہ ان کے خلاف انگلی اٹھانے کی تیاریاں کررہاہے بظاہر یہ لوگ نام نہیں لیتے مگر قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے ۔ یہ اپوزیشن جماعتیں جو خود کو اقتدار کے حصول کے لیے محب وطن اور عوام دوست گردانتی ہیں دراصل حکمرانوں کو اکسا کر سرعام ادارروں پر تضحیک کرنے کا مشورہ دے رہی ہوتی ہیں۔ اس ملک کی عوام میں یقیناً سیاسی شعور موجود ہے مگریہ سیاسی شعور والے لوگ نہایت ہی کم ہیں زیادہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو شخصی غلامی کے اثیر ہیں اپنے اپنے علاقوں کے مقامی سیاستدان ہی عوام کی امیدوں کا مرکز ہیں پاکستان کی عوام کسی بھی طرح سے نئے چہروں کو موقع دینے کے حامی نہیں ہیں یہ عوام ان کے جلسوں میں تو چلے جاتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے ان کے لیے وہ ہی لوگ قابل اعتبار ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہوتے ہیں۔یہ روایتی سیاستدان میڈیا کے ذریعے عوامی مقبولیت میں تو اپنا لوہا منواتے رہے مگر عملی زندگی میں ملکی ترقی کے لیے وہ کچھ نہ کرسکے جس کی امید ان سے کی جاتی رہی ہے ۔یہ ہی وہ سوچ ہے جو عوام پر غالب رہی عوا م کسی بھی حال میں خود کو تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہے یہ ہی سوچ ہمیں انتخابی عمل سے لیکر ملک کے ہر محاز پر دکھائی دیتی ہے جس طرح متعلقہ علاقے کا مقامی سیاستدان یا جماعت ہی ان کے لیے تمام تر زیادتیوں کے باوجود محترم رہا ہے اور ان کی پہلی ترجیح میں رہا اسی طرح ملکی اداروں کااحترام فوج سے محبت اور عدلیہ کا احترام خوف اور محبت کے ملے جلے جزبوں کے نام سے آج بھی جاری وساری ہے ۔قائرین کرام اس ساری صورتحال میں موجود حکومت اپنے پکے علاقوں کے ووٹرز کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آج کل اس ملک میں اداروں کا احترام عوام کے دلوں میں موجزن تھا اسے نکالنے کی جستجو میں لگی ہوئی ہے اداروں پر تنقید کرکے جہاں اپنے لیڈرز کو بچانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں وہاں دوسری جانب ایسے سیاستدانوں کی وجہ سے دوسرے لوگوں کا بھی حوصلہ کھولا جارہاہے ان کو بھی یہ شکسا دی جارہی ہے کہ وہ بھی کس نہ کسی طرح سے گھما پھرا کر ان محترم اداروں پر بات چیت کرسکتے ہیں ۔قائرین کرام میں یہ بات گارنٹی کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ پاکستان کی بیس کروڑ عوام میں سے آدھی عوام کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ آمریت کسی بلا کا نام ہے اور جمہوریت کسے کہتے ہیں ان لوگوں کو رہنے کے لیے چھت چاہیے کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی جن کا حصول اس قوم کے لیے ایک خواب بن کر رہ گیاہے، نواز شریف صاحب کو یقیناً اپنی جمہوری حکومت خطرے میں دکھائی دیتی ہے مگراس کے ساتھ وہ یہ بھی واضح کردیں کہ ان کے کسی بھی دو ر میں کوئی ایک پل ایسا یا کوئی معاملہ ایسا چلا ہو جس میں جمہوریت کی کوئی جھلک نظر آئی ہو اگر جمہوریت نواز شریف ،شہباز شریف ،حمزہ شہباز ،حسین نواز ، حسن نواز ،مریم نواز اسحق ڈار ،آصف زرداری،بلاول بھٹو کی پرآسائش زندگی کا نام ہے تو یقینا یہ جمہوریت کئی دہائیوں سے بہت اچھے اندازمیں چل رہی ہے اگر ان الفاظ کو پڑھ کر حکمران شرمندہ ہوکر کہتے ہیں نہیں ایسا نہیں ہے تو خدارا تم اپنی جمہوریت کو سنبھال کر رکھو اور اسے کامیابی سے چلاؤ کیونکہ اس ملک کی بے حس عوام جو تمھارے اور تمھارے بچوں کی غلامی کے لیے خود کو وقف کرچکی ہے وہ تمھارے ساتھ کھڑی ہے ،مگر صرف ایک عرض خدار ا اس ملک کے اداروں کو تو اپناکام کرنے دواور ان کی تضحیک مت کرو۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظاررہے گا۔

Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 60685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.