ہمارے ہاں نیم دانشوروں کی بہتات ہے باکثرت پائے جاتے
ہیں، نیم دانشوروں کا یہ طبقہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے یہ اینکر بن کر
مقرر دلپذیر کی طرح الفاظ کی مالا پرو دیتے ہیں یہ نیم دانشور انتہائی ذہین
و فتین ہیں یہ جج بنکر فیصلے بھی سنا دیتے ہیں یہ محقق بنکر مخالفین کی عزت
اچھالتے ہیں، یہ معاشیات کے ماہر بنکر اپنی پسندیدہ حکومتوں کی اقتصادی
ترقی کا پرچار بھی کرتے نظر آتے ہیں قصہ مختصر یہ ہر فن مولا لوگوں کا اک
ٹولہ ہے جنکا فرض ہے ہر حال میں کرپٹ اشرافیہ کا تحفظ کرنا اور نوٹوں
اورمفادات کی بہتی گنگا سے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنا ۔ کبھی سفیر اور
کبھی مشیر لگ جاتے ہیں کبھی پی ٹی وی کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں ، حکمرآنوں
کے ایسے ایسے قصیدے لکھتے ہیں کہ اگر مغل بادشاہ ان قصائد کو پڑھ لیتے تو
جاگیریں انھیں عطا کرتے ۔ المختصر یہ بمع اپنے قلم کے ہمہ وقت اہل ثروت کی
چوکھٹ پر سجدہ ریز رہتے ہیں ۔ یہ نیم دانشوروں کا ٹولہ جمہوریت کا بہت
دلدادہ ہے آئین اور قانون کا پرچار دن رات فرماتا ہے مگر شومئی قسمت سے اگر
قانون کا شکنجہ انکے کسی من پسند شخص کے گرد کسا جانے لگے تو یہ قانون آئین
کو پس پشت ڈال کر اپنے جانی کو بچانے کے لئیے میدان میں کود پڑتے ہیں ۔
قانون صرف کمزوروں کی گردن مڑوڑتا رہے تو انکو بڑا اچھا لگتا ہے یہ اس
قانون کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، لیکن اگر یہی قانون آل شریف کی چوکھٹ تک
پہنچ جائے تو یہ نیم دانشور اس قانون کے پیچھے سازش تلاش کرتے ہیں ۔ اس نیم
دانشور طبقے نے اتنا پراپیگنڈہ کیا ہے فضا کو اتنا گرد آلود کردیا ہے کہ
حقائق دیکھنے میں عوام کو دشواری ہوتی ہے ۔
عصر حاضر کے عظیم لکھاری محترم جناب جاوید چوھدری صاحب نے مورخہ اا جولائی
کو کیا ٤٤ ارب رقم نہیں کے عنوان سے کالم تحریر فرمایا جس میں موصوف نے
منطق اور فلسفے کے عظیم دریا بہا دیے ہیں چوھدری صاحب نے علم و فضل کے ایسے
بیش قیمت موتی بکھیرے ہیں کہ اگر میں وزیرآعظم ہؤتا تو میں چوھدری صاحب کو
بہت بڑی جاگیر کے ساتھ ساتھ سول ایوارڈ سے بھی نوازتا ۔ چوھدری صاحب کے
کالم کا لب لباب اگر میں آپ کی خدمت میں پیش کروں تو خاکہ کچھ یوں بنے گا
۔چوھدری صاحب کا فرمانا ہے کہ آل شریف نے کوئی بڑا جرم نہیں کیا ہاں اگر
کچھ کیا ہے تو صرف ہلکی پھلکی منی لانڈرنگ کی ہے، کوئی کرپشن کک بیکس اور
اقرباء پروری نہیں کی ۔ منی لانڈرنگ بھی صرف بارہ ملین درہم کی کی ہے جسے
ہم نے ایشو بناکر وزیرآعظم کی مٹی پلید کردی اور انکی عزت خاک میں رول دی
جبکہ پاکستان کا کوئی ادارہ ٤٤ ارب لوٹنے کے باوجود آجتک ای او بی آئی کیس
کے مرکزی ملزم کا بال تک بیکا نہیں کرسکا ۔
جاوید چوھدری صاحب اگر ملک کے وزراء اعظم انکی کابینہ ایماندار لوگوں پر
مشتمل ہوتی تو یہ مضبوط ادارے بناتے تو آپ اداروں کی نااہلیت کا رونا نہ
روتے ۔ انھوں نے خود اداروں کی مدد سے لوٹ مار کی انھوں نے ادارے کیا بنانے
تھے۔ ہمارا ایک اور بہت بڑا المیہ ہے جس چور کی دم پر پاؤں آتا ہے وہ کہتا
ہے فلاں بھی ڈاکو ہے پہلے اسے پکڑو بھائی تم اپنا حساب دو پرائی فکر چھوڑو
وہ بھی قدرت کی گرفت میں آجائے گا ۔ چوھدری صاحب میاں نواز شریف کے اپنے
نام پر آف شور کمپنی نکل آئی ہے دس ہزار درہم تنخواہ وصول کرتے رہے ہیں اگر
آپکے نذدیک کرپشن نہیں تو خدارا کرپشن کی تعریف اور اقسام کسی اہل علم سے
پوچھ لیں اور برائے مہربانی اپنے دادا مرشد عطاالحق قاسمی صاحب سے مت
پوچھنا ۔ آپ کو تو علم ہے قاسمی صاحب آل شریف کے قصیدہ گو ہیں ویسے خدا خیر
کرے قاسمی صاحب علیل نہ ہوں نیا قصیدہ پڑھنے کو نہیں ملا ۔
محترم جاوید چوھدری صاحب ماہر قانون بن کر آف شور کمپنیوں کے قانونی ہونے
پر بھی کالم تحریر فرما چکے ہیں، میرا اب جاوید چوھدری صاحب سے یہ سوال ہے
کہ محترم نواز شریف صاحب کے نام جو آف شور کمپنی نکلی ہے اسکی قانونی حثیت
کیا ہے ؟ یہ لیگل ہے یا نہیں ؟ دوسرا چوھدری صاحب نے آل شریف کے تقوے پر
کالم لکھا تھا کہ حسین نواز ہمیشہ باوضو رہتے اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں - اب
میرا سوال چوھدری صاحب سے یہ ہے کہ کیا اب بھی وہ آل شریف کو صادق و امین
سمجھتے ہیں ؟
چوھدری صاحب احتساب کو اوپر ٹاپ سے شروع ہونے دیں ٤٤ ارب کے لٹیرے بھی
شکنجے میں اک دن آ ہی جائیں گے آپ فکر مند نہ ہوں آپ جیسے لکھاریوں کی قوم
کو اشد ضرورت ہے اور ابھی تو نیم دانشوروں کا احتساب بھی ہونا باقی ہے۔
|